جاپان پرامریکی ایٹمی بمباری

جاپان پرامریکی ایٹمی بمباری
جاپان پرامریکی ایٹمی بمباری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ٹوکیواولمپک اپنے عروج پر ہے۔ہارنے اور جیتنے کی تفصیلات سے قطع نظران کھیلوں کے مقابلے نے تمام عالم میں ایک نئی امید پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔Covid-19کے دوران تمام انسانیت کا باالعموم اورجاپانیوں کا باالخصوص حوصلہ بڑھایا ہے۔ پاکستان ان مقابلوں میں کوئی میڈل تو حا صل نہیں کر سکا، مگرویٹ لفٹنگ میں طلحہ طالب اور جیولن تھرو میں ہمارے شہر میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے اور واحد ایتھلیٹ ہیں،جنہوں نے براہِ راست میرٹ پر اولمپک کے لئے کوالیفائی کیا تھا۔یہ بدقسمتی اپنی جگہ کہ ہم گزشتہ تیس سال سے کوئی اولمپک میڈل نہیں جیت سکے،مگر آج میری گفتگو کاموضوع کچھ تلخ اجتماعی انسانی یادوں کے بارے میں ہے۔ اگست کا مہینہ جاپان میں مرنے والوں کو یاد کرنے کا مہینہ ہے،یہاں ماہِ اگست میں جو شخص، جس علاقے سے بنیادی تعلق رکھتا ہو۔واپس اپنے عزیزوں کی قبروں پر حاضری اور دیکھ بھال کے لئے جاتا ہے۔ جاپانی قبرستانوں کو آپ کنکریٹ کا قبرستان کہہ سکتے ہیں۔کنکریٹ کے فرش پر قد آدم اونچائی اور ایک مربع میٹر رقبے میں قبر کا پتھرسے تراشیدہ تعویذ ہوتا ہے۔قبر کو سمادھی کہنا زیادہ مناسب ہو گا،کیونکہ مردے کو جلانے کے بعد اس کی استھیاں اور باقیات ایک چھوٹے مٹکے میں بند کر کے اس میں رکھی جاتی ہیں۔ ہر خاندان کی ایک ہی سمادھی ہوتی ہے،جس میں ہر مرنے والے کا مٹکا رکھا جاتا ہے۔سکول کے بچوں کو پورا مہینہ چھٹیاں ہوتی ہیں۔ دفاتر میں کیلنڈر کی تو کوئی چھٹی نہیں ہوتی،لیکن ہر ادارہ اپنی سہولت کے مطابق چار،چھ دن یا پھر ہفتہ بھرکی چھٹیاں مناتا ہے۔اس کا مقصد لوگوں کو اپنے آبائی علاقوں میں جانے کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔روایتی لباس میں ملبو س علم وطبل بردار نوجوان جلوس نکالتے ہیں،بستی بستی، نگر نگر جلوس نکلتے ہیں۔


دوسری جنگ عظیم سے پہلے اس رواج کی بابت حالات میرے علم میں نہیں،مگر جنگ ِ عظیم دوم کے آخری دِنوں میں،1945ء میں اسی اگست کی چھ تاریخ تھی، جب ہیروشیماپر ایٹم بم گرایا گیا۔ ستر ہزارلوگ چند سیکنڈمیں اور ایک لاکھ چالیس ہزار انسان چند دن میں اس ایٹم بم سے ہلاک ہو گئے۔ تین لاکھ کی آبادی والے اس شہر میں ایٹمی تابکاری کے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکا۔کئی دہائیوں بعدبھی پیدا ہونے والے کئی بچے اسی وجہ سے معذورپیدا ہوتے رہے۔ سارا شہر جل کر زمین بوس ہو گیا۔اس مرگِ انبوہ کی نشانی کے طور پر ایک ادھ جلی عمارت کو محفوظ کرکے وہاں امن میوزیم بنا دیا گیا ہے۔ اسے ایٹمی گنبد کہتے ہیں۔
تین دن کے وقفے کے بعد امریکی صدر ہیری ٹرومین کے حکم پر صنعتی شہر ناگا ساکی میں دوسرا ایٹم بم پھینکا گیا۔چشم زدن میں ایک لاکھ شہری جان کی بازی ہار گئے۔دونوں شہروں میں مرنے والوں کا اندازہ تو شائد کبھی نہ لگایا جا سکے،مگر بلا مبالغہ یہ تعداد لاکھوں میں تھی۔ان شہروں کو ایٹمی اسلحے سے نشانہ بنانے، جسے اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے ”سوپرویپن“کا نام دیا تھا،ایک سبب یہ بھی تھا کہ یہ دو شہر ایسے تھے جن میں کوئی بھی امریکی فوجی جنگی قیدی نہیں تھا۔چھ اگست کو ہیرو شیما پر گرائے گئے ایٹم بم کا نام”لٹل بوائے“ رکھا گیا تھا،جس نے مشروم کی شکل کا ایٹمی بادل پیداکرکے دنیا میں ایٹمی اسلحے کے حصول کی دوڑ کا اعلان کر دیا۔ ناگا ساکی پر نو اگست کو پھینکے گئے ایٹم بم کو ”فیٹ مین“یعنی موٹے آدمی کا نام دیا گیا تھا۔ان ناموں سے امریکیوں کی حسِ مزاح اور بذلہ سنجی کے علاوہ بے حسی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔


پندرہ اگست 1945ء کوجاپانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے، عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ اگرایٹم بم کا استعمال نہ بھی کرتا تب بھی جاپان ہتھیار ڈال دیتا،چونکہ یورپ میں اس کا اتحادی جرمنی مئی کے مہینے میں شکست کھا چکا تھا،اور وہاں جنگ اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی۔ ایٹمی بمباری سے شائد 1941ء میں امریکی بندرگاہ پرل ہاربر پر جاپانی حملے کابدلہ لینامقصودتھا۔یہ حملہ امریکہ کی جنگ عظیم دوم میں شمولیت کی وجہ بنا۔اس سے پہلے جنگ میں شمولیت کے بارے میں امریکی عوام اور اسٹیبلشمنٹ کی رائے منقسم تھی۔امریکی صدر ٹرومین پر تنقید کی جاتی ہے کہ گنجان آباد شہروں پر ایٹم بم گراناان کی غلطی تھی۔ جاپان جزائر پر مشتمل ہے۔اس کی ناکہ بندی ہوسکتی تھی۔اگر ایٹمی ہتھیار کا استعمال ناگزیرتھاتوپھر کسی ویران یا کم آبادی والے علاقے میں استعمال کر لیتے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایٹمی بمباری کا ایک مقصد سوویت یونین کو متنبہ کرنا بھی تھا۔کہ امریکہ عسکری طور پر کتنا آگے جاچکا ہے۔ سٹالن کی حوصلہ شکنی بھی مقصود تھی،مگر دو ارب ڈالر خرچ کرکے بنائے گئے ان ایٹمی ہتھیاروں کی بمباری سے سوویت یونین اور جوزف سٹالن کاحوصلہ تو نہ ٹوٹ سکاالبتہ کرہ ارض پر ریاستوں کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی ایک نہ ختم ہونے والی خطرناک دوڑ ضرورشروع ہوگئی۔


چھ اگست 1945ء کی صبح آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پرہیروشیماپر گرنے والے ایٹم بم  نے دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنگ کا تصورہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔یہی عمل تین دن بعدنوتاریخ کو ناگاساکی میں دہرایا گیا۔
دوسری جنگ عظیم میں کس حکمران کا کتنا قصور تھا؟ اور کون سی ریاست کتنی قصوروار تھی؟اس کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔شائد ناممکن ہی ہو گا،کیونکہ جنگ میں تو پہلی موت ہی سچائی کی ہوتی ہے۔اس وقت کا جاپان مشرقِ بعید میں جارحیت کا مرتکب تھا۔ نوآبادیاں قائم کررہا تھا،دیگر بھی ایسے بہت سے امور میں ملوث تھا،جن کی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔ امریکہ کی جانب سے، مگر لاکھوں معصوم لوگوں کو ایٹمی شعلوں میں جلا کر بھسم کر دینا ایک ایسا عمل ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔مورخ اسے ظلم کے سوا کسی دیگر نام سے یادنہیں کرے گا۔میری دعا ہے کہ کسی بستی کے لوگوں کو کبھی ایسا سانحہ نہ دیکھنا پڑے جیسا گزشتہ صدی میں ہیروشیما اور ناگا ساکی کے لوگوں نے دیکھا۔ 

مزید :

رائے -کالم -