بیٹا کامران،باپ ظفر یاب
![بیٹا کامران،باپ ظفر یاب](https://dailypakistan.com.pk/print_images/large/2021-08-09/news-1628468826-3336.jpg)
لائلپو ر شہر کے محلہ منصور آباد سے طارق آباد کوئی تین کلو میٹر دور ہے، جہاں ہمارا مسلم ہائی سکول تھا،جس کے راستے میں تین سینما گھر آتے تھے۔سکول کی منزل آنے سے پہلے ان سینماؤں کے بڑے بڑے بورڈز پر فلمی اداکاروں اور اداکاراؤں کی تصاویر ہماری توجہ کا مرکز بننے لگیں تو پھر انہیں پردہ سکرین پر متحرک دیکھنے کی خواہش ہمیں کشاں کشاں پکچر ہاؤس کے اندر لے گئی۔پنجابی فلموں کے ہیرو یوسف خان اور حبیب،جبکہ اردو فلموں کے ہیرو محمد علی،وحید مراد،ندیم کا طوطی بول رہا تھا کہ یکدم آنسو فلم کے ہیرو شاہد نے فلم بینوں کی ساری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔شاہد کے نام کے ساتھ ”خوبرو ہیرو“ کا لاحقہ نسوانی حلقوں کے لئے مزید پْرکشش بنا ہوا تھا۔محمد علی، ندیم، وحید مراد کے زمانہ عروج میں ایک خوبرو نوجوان کا دندناتے ہوئے پردہ سکرین سے ناظرین کے دلوں اور ناظرات کے حواس پر چھانا محیر العقول واقعہ تھا۔اخباروں کے فلمی صفحات اس کی مقبولیت کے چرچوں سے بھرے ہوتے تھے،رفتہ رفتہ یہ مقبولیت بدنامی کی حدوں کو چھونے لگی، فلمی ہیروئنوں کے ساتھ معاشقوں کے قصے زبان زد عام ہونے لگے۔ایک کے بعد ایک وقت کی نامور خواتین فلم سٹارز اس کے حیطہء عشق سے حجلہ ئ عروسی کا سفر جتنی تیزی سے طے کرتیں،اسی رفتار سے در طلاق سے باہر نکل جاتیں،اخبارات کے لئے اداکار شاہد کے معاشقے سنسنی خیز ی لئے قارئین کے لئے چسکارے دار سٹوریز کا مواد لئے ہوتے۔کالج کے ابتدائی دنوں میں برادرِ بزرگ نذیر ناجی کے ساتھ اداکار شاہد کو دیکھنے کی خوشی آج تک نہیں بھولتی۔
روزنامہ ”پاکستان“ میں آنا جانا ہوا تو ایک روز ایک خوبصورت نوجوان کو محترم مجیب الرحمن شامی صاحب کے کمرے میں ان کے سامنے نہایت مؤدب بیٹھے دیکھا۔شخصیت کے ساتھ ساتھ گفتگو کا نکھار اور لب و لہجہ متاثر کن تھا۔ معلوم پڑا اداکار شاہد کے بیٹے کامران شاہد ہیں،جو کسی کالج میں معاشیات کے استاد ہیں۔ہمیں اداکار شاہد کے بارے میں اتنی جانکاری تو تھی کہ وہ ایک نواب زادے ہیں اور یہ بھی علم تھا کہ فنون لطیفہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے مختلف کردار نبھاتے نبھاتے ایک نواب کا ذہن و دل ایک عام انسان کی طرح کا بن چکا ہے، لیکن کبھی گمان نہیں گذرا کہ یہ نوجوان کوئی نواب زادہ ہے۔باپ کی طرح دلکش شخصیت کا حامل ہوتے ہوئے اس کا فلمی دنیا کی طرف نہ جانا شاید اس کی والدہ کی تربیت کی وجہ سے ہوا،واللہ اعلم،تاہم جب یہ نوجوان ٹیلی ویژن سکرین پر نمودار ہوا تو پھر پتہ چلا کہ یہ تو تھا ہی اسی دنیا کے لئے۔ کئی برس تک اپنے ٹی وی پروگرام میں بڑے بڑوں کی دھنائی کرتے کرتے اچانک اس عید پر دنیا ٹی وی کی سکرین پر دھماکہ خیز اعلان نظر پڑا،جس کے مطابق کامران شاہد اپنے والد محترم اداکار شاہد کا انٹرویو کریں گے۔یہ اعلان خبر کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کے لئے باعث ِ توجہ بنا۔پروگرام کا شدت سے انتظار ہونے لگا اور جب دونوں باپ بیٹے کا مکالمہ ٹی وی سکرین پر چلا تو دیکھنے والے انگشت بدنداں رہ گئے۔ چھوٹی سکرین پر بڑے بڑے لوگ تو ہمیشہ سے دیکھنے میں آتے ہیں، مگر اتنے بڑے دیو قامت لوگ پہلی بار سامنے تھے۔اور اس دن یہ محاورہ اپنی معنویت کھو بیٹھا ”بوہڑ اں تھلے بوہڑ نہیں اْگدے“ ……
اپنے وقت کے عبقری اداکار شاہد کے روبرو آج کا سرو قامت ٹی وی اینکر کامران شاہد اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑا تھا۔باپ کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کسی لمحے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ بیٹا باپ کے ساتھ بات چیت کررہا ہے۔ایک پیشہ ور صحافی اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے سارے گْر آزماتے ہوئے اپنے وقت کے اساطیری اداکار کی زندگی کے حساس گوشے بھی ناظرین کی دلچسپی کے سامنے لارہا تھا تو دوسری طرف اداکار شاہد بھی پورے اعتماد اور ایمانداری کے ساتھ وہ سب کچھ بتا رہے تھے جو دیکھنے والوں میں ان کی عزت و وقار کو دوچند کئے دے رہا تھا۔باپ بیٹے نے باہمی مکالمے میں انتہائی نازک مواقع پر جس شائستگی و متانت سے بات چیت کی اس نے بیٹے کو کامران اور باپ کو ظفریاب کرتے ہوئے دنیا کو دکھا دیا کہ کامیاب زندگی گزارنے کا ہنر آزمانے والے کیسے لوگ ہوتے ہیں۔
کامران شاہد کا اپنے والد گرامی کے ساتھ کیا گیا پروگرام ایک تاریخی دستاویز کے طور پر صحافتی دنیا میں مثال کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، جس سے ٹیلی ویژن کی دنیا میں نئے آنے والے بہت کچھ سیکھتے رہیں گے۔یہ بات بھی پایہئ ثبوت کو پہنچی کہ دنیا میں باپ ہی واحد شخصیت ہوتا ہے جو خود پر سبقت لے جانے والے بیٹے کی کامیابی پر مسرور و شادمان ہوتا ہے۔