قبل از وقت انتخابات 

قبل از وقت انتخابات 
قبل از وقت انتخابات 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مسلم لیگ(ن) کے ایک مرکزی رہنما اور قومی اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اگلے عام انتخابات 2021ء یعنی اسی سال ہوں گے۔ اب جبکہ سال ختم ہونے میں صرف ساڑھے چار ماہ کا عرصہ ہی باقی رہ گیا ہے، یہ دعوی ایک انکشاف سے کم نہیں۔ عام انتخابات سے قبل تین مہینوں کے لئے چونکہ ایک کئیرٹیکر حکومت کا ہونا ایک آئینی تقاضا ہے اس لئے اس دعوی کی مناسبت سے یہ قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ اگر ایسا ہونا ہوا تو اگلے ایک دو مہینوں میں اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی۔ بظاہر یہ ایک بہت بڑا بیان ہے، رانا تنویر حسین انتہائی جہاندیدہ، تجربہ کار، سرد و گرم چشیدہ اور ذمہ دار سیاست دان ہیں۔ انہیں شیخ رشید کی طرح نہ تو پھلجھڑیاں چھوڑتے رہنے کا شوق ہے اور نہ عمران خان کی طرح جو منہ میں آئے بول دینے کی عادت۔ وہ شاہ محمود قریشی کی طرح بے تکان بھی نہیں بولتے،وہ کم بولتے ہیں اور اتنا ہی بولتے ہیں جتنا ضروری ہوتا ہے۔ اس لئے میرے خیال میں رانا تنویر حسین کی بات کو آسانی سے نظر انداز کردینا درست نہ ہو گا۔ اس بات پر غور و فکر کرنے میں قطعاً کوئی قباحت نہیں کہ کیا قبل از وقت انتخابات ممکن ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے۔


مسلم لیگ (ن) کے بارے میں ”دو بیانیوں“ کا پراپیگنڈا بہت منظم طریقہ سے پھیلایا گیاہے اور میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ گذشتہ بیس برس سے یہ پراپیگنڈا جاری ہے۔ ان بیس سالوں میں وقت نے بار بار ثابت کیا ہے کہ یہ پراپیگنڈا سازشی تھیوری کی طرح گھڑا گیا ہے۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ آسمان گر پڑے یا زمین پھٹ جائے، میاں شہباز شریف کسی بھی صورت میں میاں نواز شریف کے فیصلوں کے خلاف نہیں جا سکتے۔ پارٹی میں دو الگ دھڑے تو بلی کو خواب میں چھیچھڑوں کی طرح ہیں جو ان کے سیاسی مخالفین کو آئے دن آتے رہتے ہیں۔ جب نامی گرامی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کا بیانیہ ”ووٹ کو عزت دو“ ہے اور جس کا نام ان تجزیہ نگاروں نے خود ہی ”مزاحمتی بیانیہ“ رکھا ہوا ہے، اور اسی طرح جب میاں شہباز شریف تمام سیاسی اور غیر سیاسی سٹیک ہولڈرز سے ورکنگ ریلیشن شپ کی بات کرتے ہیں تو انہی تجزیہ نگاروں نے خود سے ہی اس کا نام ”مفاہمتی بیانیہ“ رکھا ہوا ہے۔ مجھے ان تجزیوں پر حیرانی ہوتی ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی طرف سے انڈیا پاکستان جنگ جیسی منظر کشی کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ یہ تجزئیے شریف خاندان سے عدم واقفیت پر مبنی ہیں اور ویسے بھی یہ سیاسیات کے بنیادی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ منزل کے حصول کے لئے حکمت عملی ایک سے زائد ہو سکتی ہیں اور دنیا کی تمام سیاسی پارٹیوں میں ہوتی بھی ہیں۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا بیانیہ ایک ہی ہے۔یہ بات درست بھی ہے کیونکہ نہ تو میاں شہباز شریف کو ”ووٹ کو عزت دو“ کے بیانیہ سے اختلاف ہے اور نہ ہی میاں نواز شریف سیاسی و غیر سیاسی سٹیک ہولڈرز سے مفاہمت کے خلاف ہیں۔


میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کو ”بیانیوں“ کی غیر ضروری اور تخیلاتی بحث میں الجھنے کی بجائے اپنی توجہ اگلے انتخابات پر مرکوز رکھنی چاہئے۔ میاں نوا زشریف پارٹی کے قائد ہیں، وہ لندن میں ہیں لیکن ان کی پارٹی کے تمام لوگوں کو اب متحرک ہو جانا چاہئے اور پارٹی کو حلقوں کی سطح تک دوبارہ آرگنائز کرنا چاہئے۔ پارٹی کے اندر تھنک ٹینک اور ریسرچ ونگ ہونا چاہئے جو ایک ایک حلقہ کی تمام تفصیلات اور جزئیات کا باریک بینی سے تجزیہ کرے۔ مثال کے طور پر ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ اتنے ہی رہے جو 2018 کے عام انتخاب میں تھے لیکن حلقہ کے اہم آزاد امیدوار کے پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے ان کے ووٹ بڑھ کر مسلم لیگ (ن) کے قریب پہنچ گئے۔ اس کے بعد سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب میں بھی مسلم لیگ (ن) کے ووٹ تقریباً اتنے ہی رہے جتنے پچھلے عام انتخاب میں تھے لیکن حلقہ کے اہم آزاد امیدوار جو ڈیڑھ مہینہ پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے، ان کی وجہ سے پی ٹی آئی کے ووٹ بڑھ گئے اور مسلم لیگ (ن) چوہدری اختر وریو خاندان کی وہ سیٹ ہار گئی جہاں یہ خاندان پچھلے تیس چالیس سال سے نا قابل شکست تھا۔ ان ضمنی انتخابات کے نتائج سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔

پہلی یہ کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک اسی طرح قائم ہے اور اس میں ایک فیصد بھی کمی نہیں ہوئی۔ دوسری بات اس سے بھی اہم ہے کہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) مخالف ووٹ (پارٹیاں اور آزاد امیدوار دونوں) کو consolidate کیا ہے اور یہی نکتہ مسلم لیگ (ن) کے لئے اہم ترین لمحہ فکریہ بھی ہے۔ یہ درست ہے کہ آزاد امیداواروں میں حکومتی پارٹی میں شمولیت کا رحجان زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اسی طرح وہ اپنے کام کروا سکتے ہیں یا پھر آگے چل کر وہ مین سٹریم پارٹی کا ٹکٹ لے سکتے ہیں لیکن اگر یہی عمل چلتا رہا تو اس میں swinging ووٹ بھی شامل ہوتا جائے گا۔ مریم نواز شریف ایک فرنٹ لائن لیڈر اور کراؤڈ پلر کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں اور انہوں نے اپنی لیڈرشپ سے سب کو متاثر کیا ہے۔ میاں شہباز شریف ایک معتدل مزاج اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والے رہنما ہیں۔ حمزہ شہباز شریف پہلے بھی کئی بار انتخابی معرکوں میں اپنی آرگنائزیشنل صلاحیتوں کو منوا چکے ہیں، انہیں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو حلقوں کی سطح تک آرگنائز کرنے کا ٹاسک دینا چاہئے۔ اگلے عام انتخاب 2023ء یا اس سے پہلے،جب بھی ہوں ان میں زیادہ وقت باقی نہیں ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت ایک ناکام حکومت ہے جس کی کارکردگی معیشت، گورننس اور سفارت کاری ہر جگہ انتہائی ناقص ہے۔مسلم لیگ (ن) کو فوراً سے پیشتر انتخابی سیاست میں ایسے آنا چاہئے جیسے واقعی قبل از وقت انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔  

مزید :

رائے -کالم -