سرکاری ملازمین کا استحقاق بھی تسلیم کریں 

سرکاری ملازمین کا استحقاق بھی تسلیم کریں 
سرکاری ملازمین کا استحقاق بھی تسلیم کریں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ترقی و کامرانی اور خوشحالی میں بیورو کریسی کا اہم کردار ہے،بیورو کریسی ریاست کی مستقل ملازم ہوتی ہے، کسی حکومت کی چاکر نہیں، بیورو کریسی کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک حکومت اور حکمران طبقہ کو آئین اور قانون کا تابع رکھنا بھی ہوتا ہے، بیورو کریسی کو  ورکنگ گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے،قانون سازی میں بھی ان کی شمولیت ہے، حکومت جب کوئی قانون بناتی ہے  تو بیوروکریسی اس کا جائزہ لیکر بتاتی ہے کہ یہ آئین کی روشنی میں جائز ہے یا نہیں،ایسا نہ ہو تو اسے آئین کے تابع بنانے کیلئے مشورے بھی دیتی ہے۔


ان ممالک میں سرکاری ملازم خود کو ریاستی ملازم تصور کرتا اور اور آئین و قانون کو جواب دہ ہوتا ہے،عوام کو ریلیف دینے،انصاف کی فراہمی، صنعت کے قیام،نظم و نسق،امن و امان کی بحالی یہ سب بیوروکریسی کے کام ہیں اور کوئی حکمران ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتا،زبانی احکامات کی گنجائش ہی نہیں، سفارش،اقربا پروری، مالی،سیاسی رشوت کا ان معاشروں میں تصور نہیں،یہی وجہ ہے کہ امریکی صدور کو بھی کٹہرے میں آنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی،رچرڈ نکسن صدر تھے، مگر واٹر گیٹ سکینڈل کی زد میں آکر کھر چلے گئے،کلنٹن کو اپنی سیکرٹری سے تعلقات بنانے کی کوشش میں مقدمہ بھگتنا پڑا،کچھ عرصہ قبل ایک امریکی صدر کو پہلے دور حکمرانی کے دوران مواخذے کا سامنا کرنا پڑا اور پھر عہدہ چھوڑنے کے بعد وہ دوسری بار منتخب ایوان کے کٹہرے میں پیش ہوئے،مگر ہمارے ہاں اس کا تصور ہی نہیں بیورو کریسی کو اکثر معاملات میں  خاموش تماشائی بننا پڑتا ہے۔کوئی بڑے سے بڑا افسر بھی کسی حکومتی عہدے دار کو انکار کرنے کی جرأت کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔


 کسی بھی ریاست کے تین بنیادی ستون ہوتے ہیں، ریاست انہی ستونوں کی بنیاد پر قائم رہتی اور نظم ریاست کو چلاتی ہے،مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ کے ستونوں پر ہی ریاست کا وجود مستحکم انداز سے قائم رہتا ہے،اہم ترین بات ان تینوں اداروں یا ستونوں میں توازن قائم رکھنا ہے، ایک ادارہ کی دوسرے میں مداخلت روکنا بھی اہم ہے، تینوں ستون اپنے اپنے دائرہ کار میں خود مختار اور آزاد ہوں اور بلا امتیاز قوانین کے مطابق اپنے فرائض منصبی ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں ریاست  استحکام حاصل نہ کر لے اور عوام کو فوری ریلیف ملنا شروع نہ ہو جائے، مسائل بھی دہلیز پر حل ہوں،امن اور تحفظ بھی میسر ہو اور انصاف بھی فی الفور ملے۔ ہمارے ہاں مگر باوا آدم ہی نرالا ہے، تجربے پر تجربہ کرنا ہم نے اپنا وطیرہ بنا لیا، ایک دوسرے کے اختیارات کو استعمال کر کے اپنی برتری اور بالا دستی قائم کرنا اور ایک دوجے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنا ہم نے شیوہ بنا لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہم دوراہے، بلکہ چوراہے پر کھڑے ہیں۔


پنجاب اسمبلی نے گزشتہ دنوں ارکان اسمبلی استحقاق بل منظورکیا، توثیق کیلئے گورنر کو بھجوایا گیا،مگر گورنر نے اسے آئین سے ماوراء قراردے کر واپس بھیج دیا تا ہم یہ گورنر کی رائے تھی،یہی بل دوبارہ منظوری کے بعد قانون بن گیا،استحقاق بل کو پیش کرنے اور منظوری میں حکومتق اوراپوزیشن متحد اور ایک پلیٹ فارم پردکھائی دی۔یہ وہ اسمبلی ہے جس کے ارکان عوامی مفاد میں کسی بل کی منظوری پر کبھی یکجا نہیں ہوئے۔یہ بل اسمبلی کو عدالتی اختیارات بھی دیتا ہے،کسی رکن اسمبلی کی بات نہ ماننے پر اسے اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی  قید اور جرمانہ کر سکے گی،یعنی  یہ متوازی ہو گی، کسی جرم کو ثابت کرنے کیلئے باقاعدہ ایک قانونی نظام ہے،مجرم کو عدالت میں پیش کر کے فردجرم عائد کی جاتی ہے جس کے بعدعدالت شہادتوں اوردلائل پر فیصلہ دیتی ہے،مگر استحقاق بل کی منظوری کے بعد بیوروکریسی مکمل طورپر اسمبلی ارکان کے رحم و کرم پر ہو گی،اپیل کابھی حق نہیں دیا گیا،مدعی بھی خود منصف بھی خود،دنیا بھر کے پارلیمانی اورجمہوری ممالک میں ایسے قانون کی  نظیر شاید ہی ملے۔قانون سازی کرنے والے بتائیں کہ کون سا ملکی قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ منتخب ارکان اسمبلی کی ہر جائز و ناجائز بات پر سر تسلیم خم کرنا بیورو کریسی پر فرض ہے،اگر بیورو کریسی میں کچھ افسران کام نہیں کرتے تو ارکان اسمبلی میں بھی کچھ نا پسندیدہ عناصر ہیں، تازہ بل کے بعد ارکان اسمبلی شہنشاہ معظم بن جائیں گے اور بیورو کریسی ان کی خادم خاص،پھر قانون، قاعدے، ضابطے مو م کی ناک بن جائیں گے،جس کا جو جی چاہے گا زبانی حکم دے گا اگر حکم مانا گیا اور اس میں کوئی بے ضابطگی ہوئی تو ذمہ داری بیوروکریسی کی اورنہ ماناجائے تو اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی کی طرف سے دی جانے والی سزا کے حقداربھی بیوروکریٹ ہی ٹھہریں گے۔


 بیورو کریسی کے سر پر پہلے سے ہی نیب، ایف آئی اے،انٹی کرپشن کی تلواریں لٹک رہی ہیں، جس کی وجہ سے گڈ گورننس عنقا ہے،اب  پنجاب اسمبلی نے بھی ایک اور تلوار بیورو کریسی کی گردن پر رکھ دی،قانون سازی اسمبلی کا حق ہے،مگر انصاف لازمی تقاضا،اگراس قانون میں یہ دفعہ بھی شامل کر لی جاتی کہ اگر کوئی رکن اسمبلی کسی بیورو کریٹ کو غیر قانونی یا قاعدے ضابطے سے ہٹ کر کوئی کام کرنے کیلئے دباو ڈالے گا تو وہ بھی پکڑ میں آئے گااوراس کیلئے بھی سزا تجویز کی جاتی تو یہ قرین انصاف ہوتا، مگر یہاں تو یکطرفہ قانون بنا دیا گیا،جس میں چٹ بھی میری، پٹ بھی میری،ایسی صورت میں جبکہ وزیراعظم بیوروکریسی کو واضح ہدائت دے چکے ہیں کہ بیوروکریسی بلا خوف و خطر اپنے فرائض انجام دے کسی کے دباؤ میں آئے  نہ کسی کے خلاف ضابطہ حکم کو تسلیم کیا جائے،مگر پنجاب اسمبلی نے ارکان اسمبلی کو یہ آئینی اختیار دیدیا کہ وہ بیوروکریسی کو کوئی بھی کام کرنیکا حکم دے سکتے ہیں اورسرکاری افسر کے  پاس انکار کی گنجائش بھی نہیں۔


 منتخب نمائندوں کا استحقاق اہم لیکن سرکاری افسروں اور بیو رو کریسی کا استحقاق بھی تسلیم کرنا ہو گا،یہ کیسے ممکن ہے کہ ریاستی ملازمین جنہوں نے ریاست سے وفاداری اور آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے ان کو ارکان کے حکم کا  پابند کر کے انکا ذاتی ملازم بنا دیا جائے۔

مزید :

رائے -کالم -