ڈیرہ غازیخان میں ایک دن 

ڈیرہ غازیخان میں ایک دن 
ڈیرہ غازیخان میں ایک دن 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے مشیر صحت حنیف خان پتافی سے میں نے پوچھا، ڈیرہ غازیخان میں گورننس کی صورتِ حال کیا ہے، تو انہوں نے کہا گورننس کی صورتِ حال بہتر نہیں ابھی اسے بہتر ہونے میں وقت لگے گا۔ وہ سچی بات بغیر لگی لپٹی رکھے کہہ گئے اور مجھے حیرانی ہوئی کہ وزیراعلیٰ کے اپنے ڈویژن میں اگر گورننس بہتر نہیں تو اور کہاں ہو گی؟ ایک نجی کام کے سلسلے میں ڈیرہ غازیخان جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ایک طویل عرصے کے بعد ملتان سے ڈی جی خان کا سفر کیا۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ ملتان سے ڈی جی خان تک اب دو رویہ سڑک موجود ہے، جس پر بعض جگہ موٹر وے کا گمان ہوتا ہے۔ سڑک کے درمیان گرین بیلٹ موجود ہے، جس پر بڑے بڑے درختوں کی لہلہاتی چھاؤں نظر آتی ہے۔ ملتان سے ڈیرہ غازیخان کا تقریباً 95 کلومیٹر سفر اب بہت آسان ہو گیا ہے۔ یوں ان دونوں ڈویژنوں کو جڑواں ڈویژن کہا جا سکتا ہے تاہم ترقی کے لحاظ سے ڈی جی خان ابھی ملتان سے بہت پیچھے ہے۔ ڈیرہ غازیخان والوں کے لئے ملتان اب تختِ لاہور کی مانند ہے، جس کے بارے میں ان کا ہمیشہ سے یہ تاثر رہا ہے، جنوبی پنجاب کے سارے وسائل ملتان پر خرچ کر دیئے جاتے ہیں جبکہ بزدار حکومت کے آنے سے یہ معاملہ اُلٹ ہو گیا ہے، اب ملتان کے عوام یہ سمجھتے ہیں ساری ترقی ڈیرہ غازیخان میں ہو رہی ہے، ملتان کو محروم رکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے مخدوم شاہ محمود قریشی پر سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اتنے اہم منصب پر ہونے کے باوجود ملتان کے لئے کوئی میگا پراجیکٹ نہیں لا سکے۔


ڈیرہ غازیخان میں جس بندے سے ملو وہ عثمان بزدار سے اپنا تعلق جوڑتا نظر آتاہے۔ یہ بات بھی کھلی کہ  وزیراعلیٰ  آفس سے زیادہ تر فون ڈیرہ غازیخان کی انتظامیہ کو ہی کئے جاتے ہیں کیونکہ عثمان بزدار نے اس ڈویژن کو خصوصی مرتبہ دے رکھا ہے اس کے باوجود اگر یہاں گورننس  بقول حنیف خان پتافی بہتر نہیں تو یہ حیرت کی بات ہے اس کا مطلب ہے بیورو کریسی خاصی تگڑی ہے اور وزیراعلیٰ کے اپنے ڈویژن میں بھی اپنی چودھراہٹ کا سکہ جمائے ہوئے ہے تھانے اور پٹوار کا کلچر ڈیرہ غازیخان میں بھی اپنا رنگ جمائے ہوئے ہے۔ پٹواریوں کو رام کرنے کے لئے بھی وزیر اعلیٰ آفس سے فون کروائے جاتے ہیں کیونکہ وہ پٹواری بھی اسی علاقے کے پروردہ ہیں اور ان کی بھی   وزیر اعلیٰ ہاؤس تک رسائی ہے۔ ڈیرہ غازیخان سے سرکاری افسروں کے تبادلے ایسے ہوتے ہیں جیسے پت جھڑ میں پتے گرتے ہیں کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ڈی آئی جی، ڈی پی او اتنے بدلے ہیں کہ اب لوگوں کوا ن کے نام تک یاد نہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر شخص وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے تعلق کا دعویدار ہے افسروں کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتاہے، افسر بھلا کہاں دوسرے کی مرضی پر چلتے ہیں، سو انہیں تبادلے کا لیٹر پکڑا دیا جاتا ہے۔ گڈ گورننس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے۔  وزیر اعلیٰ عثمان بزدار رہنے والے تو تونسہ شریف کے ہیں، تاہم ان کا گھر ڈیرہ غازیخان میں بھی ہے۔ ان کے ہمسائے میں رہنے والا ہر شخص خود کو وزیر اعلیٰ سمجھتا ہے اور جب چاہے وزیر اعلیٰ ہاؤس سے کسی افسر کو فون کرا دیتا ہے۔ یہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی دریا دلی ہے کہ لاہور جا کر بھی وہ اپنے ہمسائیوں اور تعلق داروں کو نہیں بھولے۔ویسے تو اب انہوں نے ملتان میں بھی گھر بنا لیا ہے اور کچھ ملتانی بھی ان کے نئے ہمسائے بن گئے ہیں۔


ڈیرہ غازیخان پسماندگی اور ترقی کا امتزاج بن چکا ہے پہلے یہ صرف پسماندہ شہر ہوتا تھا، مگر اب کشادہ سڑکیں بڑے بڑے پلازے، شاندار رہائشی کالونیاں اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں اس کے مناظر میں شامل ہو چکی ہیں، تین برسوں میں اس شہر کے لئے اربوں روپے کے منصوبے منظور کئے گئے ہیں، جن پر تیزی سے کام جاری ہے مجھے غازی یونیورسٹی جانا تھا۔ اس کے سامنے ایک طویل کشادہ سڑک تعمیر ہو رہی تھی، جس کی افتتاحی تختی وزیراعلیٰ کے نام کی لگی تھی میں نے اپنے دوست محمد حسین خان جو عثمان بزدار کے ہمسائے بھی ہیں،سے پوچھا یہ سڑک کہاں تک جاتی ہے، انہوں نے کہا ایک سرے سے شہر کے دوسرے سرے تک جاتی ہے اور اس کا معیار جانچنے کے لئے وزیر اعلیٰ نے سخت مانیٹرنگ کا حکم دے رکھا ہے پھر انہوں نے بتایا شہر کی پہلی خواتین یونیورسٹی بھی قائم کی جا رہی ہے جبکہ غازی یونیورسٹی کے تعمیراتی بلاک بڑی تیزی سے مکمل کئے جا رہے ہیں پھر وہ مجھے کارڈیالوجی ہسپتال کی سائٹ پر بھی لے گئے جہاں تعمیراتی کام جاری تھا۔ محمد حسین خان نے بتایا وزیراعلیٰ جلد ہی تونسہ شریف کو ضلع کا درجہ دینے والے ہیں جہاں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہو رہے ہیں تونسہ شریف کی تاریخی اہمیت ہے اس کے ضلع بننے سے ڈیرہ غازیخان ڈویژن میں ایک اور ضلع کا اضافہ ہو جائے گا۔


ڈیرہ غازیخان کو ایک زمانے میں ڈیرہ پھلاں دا سہرا کہا جاتا تھا، کیونکہ وہاں ایک طرف لوگوں کی محبت کے پھول کھلتے تھے اور دوسری طرف سبزہ و گل کی فراوانی ہوتی تھی۔ مجھے بتایا گیا اب وہاں بھی وزیراعلیٰ کے حکم سے پی ایچ اے کا محکمہ کام کر رہا ہے جس کا کام شہر کو ہرا بھرا بنانا ہے۔ مجھے شہر میں پھرتے ہوئے لگا کہ ابھی اس شعبے میں کام کرنے کی مزید ضرورت ہے چند سڑکوں کے سوا باقی جگہوں پر درخت ناپید نظر آتے ہیں، اس وقت چونکہ پورے ملک میں گرین پاکستان مہم چل رہی ہے اس لئے ڈیرہ غازیخان کو بھی اس سلسلے میں پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔ بڑے شہروں کی طرح ڈی جی خان میں بھی ویسٹ مینجمنٹ کا ادارہ قائم ہو چکا ہے جس کا کام شہر کو صاف ستھرا رکھنا ہے میری سوشل ایکٹی ویسٹ شازیہ پتافی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا تحریک انصاف کی حکومت آنے سے جنوبی پنجاب کی سنی گئی ہے،جنوبی پنجاب کے لئے نہ صرف بجٹ میں 35 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے، بلکہ پسماندہ علاقوں کی ترقی پر اسے خرچ کیا جا رہا ہے، اس وقت راجن پور، جتوئی، داجل اور لیہ جیسے نظر انداز شہروں کو بھی ترقی کے دھارے میں لانے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں ایک زمانہ تھا بجٹ سارے کا سارا لاہور پر خرچ کر دیا جاتا تھا،اب ڈیرہ غازیخان ڈویژن کو بھی اس کا حق مل رہا ہے یہی وجہ ہے یہاں بڑی تیزی سے ترقی ہو رہی ہے اور عوام کی مشکلات میں کمی لانے کی بھرپور حکمتِ عملی اختیار کی گئی ہے۔ ڈیرہ غازیخان میں ایک دن گزارنے کے بعد یہ احساس ہوا وزیراعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا جو فیصلہ کیا تھا، وہ کم از کم جنوبی پنجاب کے لئے کسی بڑی نعمت سے کم ثابت نہیں ہوا۔

مزید :

رائے -کالم -