بین الاقوامی معیار کی اعلیٰ فلمیں ہوں گی!
معروف ڈائریکٹر ندیم چیمہ کی ڈائریکشن میں بنائی جانے والی فلمیں ”36گڑھ“اور ”25لاکھ“ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوں گی۔ میری فلم میں معمر رانا،شفقت چیمہ،راشد محمود، اچھی خان، سوانہ راجپوت،میرب اعوان، علی خان سمیت ملک کے کئی نامور فنکاروں نے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد پروڈیوسر اسلم حسن نے ”پاکستان“سے گفتگو کے دوران کیا۔اسلم حسن نے کہا کہ ہماری فلم انڈسٹری کی جتنی عمر ہے اسے بھارت نہیں تو کم ازکم ایران، ترکی، بنگلہ دیش، سری لنکا کے برابر ہی ہونا چاہئے تھا مگر افسوس ہم نے فلمی مارکیٹ جو پہلے ہی محدود تھی وہ بھی تیزی سے بھارت کے حوالے کردی تھی۔ بھارت نے ہمارے ملک میں موجود غداروں اور مفاد پرستوں کو جس کامیابی سے استعمال کیااس کی مثال نہیں ملتی مجھے خوشی ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی ہے اس پابندی کو برقرار رہنا چاہیے۔ میری دونوں فلموں کے ایک ایک سین پر ڈائریکٹر ندیم چیمہ نے بڑی محنت کی ہے ان فلموں میں عوام مجھے بھی اداکاری کرتے ہوئے دیکھیں گے۔اسلم حسن نے کہا کہ ”36گڑھ“ اور ”25لاکھ“عوام کی توقعات پر ضرور پورا اتریں گی۔ان فلموں کی موسیقی سننے سے قابل ہوگی۔ جدید ٹیکنالوجی کی ایجادات ہمیں اکثرحیران کردیتی ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اگرآج دنیا بھرکی اکانومی پرراج کر رہے ہیں تو اس میں سب سے اہم کرداربلاشبہ جدید ٹیکنالوجی کا ہی ہے۔ خاص طورپرفنون لطیفہ کے تمام شعبوں کی بات کی جائے توپھرجہاں لوگوں کو انٹرٹین کرنے میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے والوں کوآج عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہیں ان کی قابلیت کے ڈنکے بھی بجتے ہیں۔ ہالی ووڈ اس حوالے سے سرفہرست مانا جاتا ہے۔ جس اندازسے اس فلم انڈسٹری سے وابستہ تکنیک کاروں نے اپنی صلاحیتوں کواستعمال کیا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی فلم انڈسٹری بالی ووڈ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے۔ایک سوال کے جواب میں اسلم حسن نے کہا کہ آج اگرپوری دنیا میں بالی ووڈسٹارزکی فلمیں دیکھی اورپسند کی جاتی ہیں تواس کا کریڈٹ بڑی حد تک جدید ٹیکنالوجی کوہی جاتا ہے، جس سے استفادہ کرتے ہوئے آج بالی ووڈ والے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کمانے لگے ہیں۔ فلم ”36گڑھ“ اور ”25لاکھ“ میں وہ سب کچھ ہے جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری بمعہ حکومت حب الوطنی اور ایسی کسی سرگرمیوں سے قطعی لاتعلق رہتی ہے۔ نتیجہ بھارتی غلط ہندو ثقافت کا زیر ہماری نوجوان نسل اور بچوں کے ذہنوں کو متاثر کرنے میں مصروف ہیں۔ ہماری قوم یوم آزادی پر بھی بھارتی فلموں کی نمائش سے لطف اندوز ہوکر بے حسی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ جو ایک افسوسناک المیہ تھا۔ قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے کے بعد پاکستان میں ہندوستانی فلموں کی نمائش کے حوالے سے اس دور کے حب الوطنی چند فلمی شخصیات نے جو کام کیا تھا اسے ہندوستان نے چند برسوں میں خاک میں ملادیا تھا۔ ہماری فلم مارکیٹ جہاں چند برس قبل پہلے تحفے میں مفت بھارتی فلمیں آئیں پھر تھوڑے معاوضے دیکر بھارتی فلموں کی نمائش کا آغاز ہوا تھا۔ ناجائز طریقوں سے ہر ماہ کروڑوں روپے کا زرمبادلہ بھارت منتقل ہورہا تھا۔میری فلموں میں کام کرنے والے تمام فنکاروں کی اداکاری کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔اسلم حسن نے کہا کہ ماضی میں تو وسائل کی شدید کمی کے باوجود ہمارے ملک میں بننے والی فلموں کے کامیاب بزنس کی سلوراورگولڈن جوبلی منائی جاتی تھی لیکن پھرایک دورایسا بھی آیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہالی وڈ اوربالی ووڈ فلموں کودیکھنے کے بعد شائقین کی بڑی تعداد پاکستانی فلموں سے دورہونے لگی۔ ہمارے ہاں پیسے اورجدید ٹیکنالوجی کی کمی کے باعث اس معیار کی فلمیں نہ بن سکیں جس کو لوگ دیکھنا چاہتے تھے۔میری فلموں میں تمام فنکاروں نے اپنے اپنے کردار کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے یہ بات بے حد خوش آئند ہے کہ عوام اب پاکستانی فلموں کو دیکھناپسند کرتے ہیں گزشتہ دو سالوں میں عام نمائش کے لئے پیش کی جانے والی فلمیں جدید ٹیکنالوجی کے مطابق بنائی گئی ہیں اس وقت پاکستان فلم انڈسٹری ایک بار پھر ترقی کی جانب گامزن ہے۔ لالی ووڈایک بار پھرترقی کی راہ پرہے۔ ”36گڑھ“ اور ”25لاکھ“منفرد موضوع پر بنائی جانے والی فلمیں ہیں ہم نے ان فلموں کو جدید تقاضوں کے مطابق بنا یا ہے۔ان فلموں کی کہانی چند کرداروں کے گرد گھومتی ہے ہماری فلموں میں مقصدیت اور پیغام دونوں ہیں۔ اسلم حسن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لاہور سے وابستہ فلمی صنعت کے لوگوں کے بے شمار بلند بانگ دعوے حکومتی نجی اورفلم انڈسٹری کی سطح تک ہوتے رہے مگر سب ہی بے کار ثابت ہوئے۔ ہماری فلم انڈسٹری کے کرتا دھرتا لوگ فلموں کی نمائش بڑھا کر پاکستان انڈسٹری کی ترقی اور بزنس کے جو بلند بانگ دعویٰ کئے تھے۔ وہ بھی ریت کی دیوار ثابت ہوگئے مگر اب ہمیں خود دوبارہ اپنے فنکاروں اور فلموں کیلئے اپنے جذبے بیدار کرنے ہو ں گے۔ ڈائریکٹرز، کیمرہ مینوں، موسیقاروں کو عزت دیں ان پر سرمایہ کاری کریں تو امید ہے کہ ہم پھر دوبارہ پاکستان فلم انڈسٹری کو دوبارہ زندہ کرسکتے ہیں۔ہمارے نزدیک آج بھی یہ بات ایک حقیقت ہے کہ فلم ہندوستان کی ہو یا پاکستان کی وہ نئے دور کے تقاضوں، مسائل اور معاشرے کی عکاسی کرے گی تو ضرور کامیاب ہوگی۔ آج بھی جو لوگ فلمیں بنا رہے ہیں ان میں محض چند فلمیں ایسی آرہی ہیں جن میں کسی حد تک سرمایہ کاری کے ساتھ ذہنوں کا استعمال بھی کیا جارہاہے مگر یہ چند لوگ بھی اعتماد کی اس سطح پر متزلزل ہیں جو کبھی کسی زمانے میں ہمارے فلمسازوں، ہدایت کاروں کو حاصل تھا۔ اس وقت ضرور ت اعتماد اور حالات کو بحال کرنے کی ہے کہ جس سے فلم بینوں کا کھویا ہوا اعتماد دوبارہ حاصل کیا جاسکے۔ ماضی میں ہمارے جن فلمسازوں نے کامیاب فلموں سے کروڑوں روپے کمائے۔ جن سینما مالکان کی جائیدادوں میں اضافہ ہوا۔ جن فنکاروں نے بے پناہ نام شہرت اور دولت سمیٹ لی۔ وہ اب دوبارہ اس طرف آنے کی ہمت کریں۔ اپنے دھیان اور سرمائے کا رخ دوبارہ اپنی فلمی صنعت کی طرف موڑیں۔ ہمیں امید ہے کہ اگر ہمارے موجودہ فلمی لوگ صدقے دل سے دوبارہ کام کرنے میں سنجیدہ ہوگئے تو ضرور ہم محض بھارتی فضول فلموں کی امپورٹ اور مالی نقصان سے چھٹکارہ پالیں گے۔ اسلم حسن نے کہا کہ اب یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کی بقاء اپنی ہی بنائی ہوئی فلموں میں ہے۔ اپنے ہی فنکاروں، موسیقاروں اور ہنر مندوں میں ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں اپنے اعتماد کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی سوشل، معاشرتی مسائل، ایکشن، کامیڈی اور دیگر موضوعات پر یادگار اور کامیاب فلمیں بنا کر بھارت سمیت دیگر ممالک کی فلموں سے بہتر کام کیا ہے تو یہ کام اب کیوں نہیں ہوسکتا؟ فلم انڈسٹری میں موجود لوگوں کو چاہیے کہ وہ نامور ہیروز کے ہمراہ اب نئے چہروں کی ضرورت پر بھی زور دیں اور نئے لوگوں کو بھی بہتر مواقع فراہم کریں۔ میوزک کے شعبے پر توجہ دیں۔ میوزک کے حوالے سے ریکارڈنگ کی سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح ہم اپنی ہی بنائی فلموں سے حالات بہتر بنا سکتے ہیں اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اچھی فلم بنانے والوں کی مل کر حوصلہ افزائی کریں۔ اگر فلم انڈسٹری کو دوبارہ عروج پر لانا ہے تو ہم ایک دوسرے کے کام کو سراہا نا شروع کریں۔ فلم کی نمائش پر مل کر ایک دوسرے کو مبارکباد دیں۔ اسلم حسن نے مزید کہا کہ فلم میں شامل فنکار دوبارہ سینماؤں میں آکر اپنی فلموں کی پرموشن اور پبلسٹی کے حوالے سے وقت نکالیں۔ اس طرح ہم دوبارہ بہت جلد اپنی فلموں کو دوبارہ مقبولیت دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہمیں فلموں کو بتدریج فنی حوالوں سے بھی بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے؟ اس طرح ہم بھارتی فلموں کے بجائے دوبارہ اپنی ہی بنائی فلموں سے فلم انڈسٹری کو دوبارہ ترقی دینے میں کامیاب ہوجائینگے۔
٭٭٭
”36گڑھ“ اور”25لاکھ“
برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد پروڈیوسر اسلم حسن کی ”پاکستان“ سے گفتگو