کشمیر 

 کشمیر 
 کشمیر 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے کشمیر اور پاکستان میں 15 اگست کا دن یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کیے لئے جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کی حمایت کرنا، انہیں باور کرانا کہ اس جدوجہد میں وہ اکیلے نہیں، پوری پاکستانی قوم ان کی ہمنوا ہے۔ ان شہدا کو بھی خراج تحسین پیش کرنا جنہوں نے اپنی جان وطن کی آزادی کی راہ میں نچھاور کی۔اس دن کی ابتدا سال 2019 کو ہوئی جب نریندر مودی نے بھارت کے آئین کی دفعہ 370 اور 35Aکومعطل کرکے کشمیر کی مخصوص حیثیت کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔جس کے جواب میں مقبوضہ کشمیر میں آل پارٹیز حریت کانفرنس نے کشمیری عوام سے اپیل کی کہ پانچ اگست کو بلیک ڈے کے طور پر منایا جائے تاکہ دنیا  بھر کے لوگ کشمیریوں پر ہونے والے ظلم اور جبر سے واقف ہوں اور جان جائیں کہ کشمیری اس ناجائز قبضے کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ اسی حوالے سے تمام کشمیری اور پاکستان بھر کے لوگ 5 اگست کو ہر سال بلیک ڈے کے طور پر مناتے ہیں۔


تایخ کے جھروکوں پر نظر ڈالیں، رنجیت سنگھ کا دور تھاکشورا سنگھ ایک غریب آدمی تھا جس کے تین بیٹے تھے۔گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سوجیت سنگھ۔ کسی طرح انہوں نے رنجیت سنگھ کے پاس پانچ پانچ روپے ماہوار پر اردلی کی نوکری حاصل کر لی۔وہ رنجیت سنگھ کی سواری کے ساتھ ساتھ پیدل بھاگتے تھے۔ہیرا سنگھ،دھیان سنگھ کا بیٹا تھا اور بہت خوبصورت تھا۔ مہاراجہ حسین لڑکوں سے محبت کرتا تھاچنانچہ جب رنجیت سنگھ نے اسے دیکھا تو اسے بلا کر دربار میں اپنے پاس بٹھا لیا مہاراجہ کواس لڑکے سے اس قدر پیار ہو گیا کہ وہ اسے ہر وقت اپنے پاس رکھتا اور دربار میں بھی اپنے سامنے کرسی پر بٹھائے رکھتا  تھا اس کی ہر فرمائش پوری کرتا،باہر نکلتا تو لڑکے کو اپنی پالکی پر آگے بٹھائے رکھتا گلاب سنگھ اور اس کے بھائیوں کو جو کام کرانا ہوتا، اس کی فرمائش ہیرا سنگھ سے کراتے۔ جلد ہی ہیرا سنگھ کی بدولت یہ بھائی ترقی کی منزلیں طے کرتے بڑے بڑے عہدوں پر پہنچے، جاگیریں حاصل کیں اور اہم مقام پائے۔ دھیان سنگھ وزیر دربار مقرر ہوا۔ گلاب سنگھ کی خواہش پر اس کو جموں سپرد کرکے اسے راجہ کا خطاب دیا گیا۔سکھوں اور انگریزوں کی لڑائی میں گلاب سنگھ نے انگریزوں کا ساتھ دیا اور پچھتر لاکھ نقد پیش کیا۔سکھوں کی شکست کے بعد گلاب سنگھ کو انگریزوں نے10  مارچ 1846کو آزادانہ راج کے نام پر پورا جموں اور کشمیر تفویض کر دیا۔گلاب سنگھ کا تعلق راجپوتوں کے خاندان سے تھا اور راجپوتانہ سے تعلق رکھنے والے یہ راجپوت جموال اور ڈوگرہ بھی کہلاتے تھے۔ یوں کشمیر میں ڈوگرہ خاندان کی حکومت کی ابتدا ہوئی، مہاراجہ گلاب سنگھ انتہائی سفاک اور بے رحم تھا۔پیسے کا اسقدر لالچی کہ اس کے حصول کے لئے کچھ بھی کر جاتا،اس کے عہد کی انتظامی حالت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس وقت لوٹ کھسوٹ کا یہ عالم تھا کہ راہ رو کی پگڑی اور ٹوپی تک چور لوٹ لیتے تھے۔1853 میں مہاراجہ گلاب سنگھ نے اپنے بیٹے رنبیر سنگھ کو تخت نشین کر دیا اور خود نگران کے طور پر حکومت دیکھتے رہے 1857 میں مہاراجہ کا انتقال ہو گیا۔


مہاراجہ رنبیر سنگھ گو 1853 میں تخت نشین ہوئے مگر عملی طور پر ان کا عہد 1857 سے اپنے والد کی وفات کے بعد شروع ہوتا ہے۔چونکہ یہ عملاً انگریزوں کا ساتھ تھا اس لئے انگریزوں کے عمل دخل کے باعث اس کے عہد کا انتظام قدرے بہتر تھا۔پھر بھی بہت ظلم و ستم ہوا، گھر جلائے گئے۔ عورتوں کو قید کیا گیا۔قتل و غارت اور مظالم سے تنگ لوگوں نے بغاوتیں بھی کیں۔ انگریزوں سے شکایتیں بھی کی گئیں مگر ماتحت ریاست اور وفادار حکمرانی کے سبب انگریزوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔اس راجہ کے عہد میں عدالتیں قائم ہوئیں، ایک شفاخانہ کھولا گیا۔ ٹکسال او راسلحہ سازی کے کارخانہ بنے، کچھ تعمیرات بھی ہوئیں چند سڑکیں بنائی گئیں، 1877 میں جب قحط پڑا تو مہاراجہ نے اس وقت بیس لاکھ روپے سے لوگوں کی مدد کی  اس کے عہد میں عربی اور سنسکرت کی چند کتابوں کے ترجمے بھی ہوئے33سال کی حکمرانی کے بعد مہاراجہ کا انتقال 1885 میں ہوا۔  
مہاراجہ رنبیر سنگھ کی وفات کے بعد 1885 ہی میں ان کے بیٹے پرتاب سنگھ مسند نشین ہوئے یہ ایک کمزور حکمران تھا ظالم اور سفاک بھی تھا، نظم و نسق کنٹرول کرنے میں ناکام تھا۔اس کے دور میں انگریزوں نے نظم و نسق ایک کونسل کے سپرد کیا جس میں مہاراجہ کے دو بھائی اور کچھ انگریز شامل تھے۔یہ کونسل تمام اہم معاملات میں ریذیڈنٹ سے مشورے کی پابند تھی، نومبر 1891 میں مہاراجہ کی درخواست پر کونسل اس کے ماتحت کر دی گئی اور اس کے اختیارات بحال ہو گئے مگر مہاراجہ اہم معاملات میں ریذیڈنٹ سے مشورے کا پابند رہا۔اس راجہ کے دور میں کشمیری پنڈتوں نے مسلمانوں کی عبادت گاہ خانقاہ معلیٰ پر اینٹوں اور پتھروں سے حملہ کیا اور جوتوں سمیت داخل ہو کر اس کی کھڑکیاں توڑیں اس مہاراجہ کے دور میں کشمیر میں ڈاک کا نظام قائم ہوا جموں اور سری نگر کی میونسپل کمیٹیاں بنیں چند مدرسے بنائے گئے۔ 1925 میں مہاراجہ فوت ہوئے۔


مہاراجہ پرتاب سنگھ کی کوئی اولاد نہ تھی چنانچہ ان کے مرنے کے بعد ان کے بھائی امر سنگھ کے بیٹے ہری سنگھ گدی نشین قرار پائے۔ہری سنگھ ایک انتہائی عیاش آدمی تھا اپنی رسم تاج پوشی پر اس نے پچیس لاکھ سے زیادہ روپے خرچ کئے اور دنیا بھر میں اس کی تشہیر کی گئی،مہاراجہ ہری سنگھ کے دور 1928ء میں کشمیر میں سیلاب آیا اور پھر آگ لگی جس سے بہت نقصان ہوا۔ 1930 میں ٹڈی دل آیا، سیلاب  اور آگ کے نقصانات کے ازالے اور بعد میں ٹڈی دل کی ہلاکت پر حکومت نے بہت خرچ کیا۔چند سڑکیں اور کچھ عمارتیں بھی تعمیر ہوئیں، کم سنی کی شادی اور کم سنی میں سگریٹ پینے پر بھی پابندی لگی مگر کشمیری جس ابتلا میں سکھوں کے دور سے چلے آرہے تھے اس میں کوئی کمی نہ آئی،عورتوں اور بچوں پر ظلم کے نتیجے میں احتجاج ہوا  تو اس پر کمیشن بھی بنے مگر کوئی تبدیلی نہ آ سکی۔1947 کی تقسیم کے وقت جب ہندستان کی 570 ریاستوں سے ان کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کے بارے پوچھا گیاتو کشمیر بھی ان تین ریاستوں میں شامل تھا جنہوں نے آزاد حیثیت سے رہنا پسند کیا۔مہاراجہ کا رحجان چونکہ بھارت کی طرف تھا اور اس نے قائد اعظم سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کر دیا،اس لئے مستقبل کے خطرے کو بھانپتے اور کشمیر کی 95  فیصد مسلمان رعایا کے جذبات کو دیکھتے ہوئے ہزاروں قبائلی پٹھان کشمیر کی آزادی کے لئے کشمیر میں داخل ہو گئے۔ کشمیر کا واحد پاور ہاؤس مہرا جلا دیا گیا۔ راجہ بھاگ کر جموں چلا گیااور اس نے بھارت سے مدد مانگی بھارت کی دو سکھ رجمنٹیں فوری کشمیر بھیج دی گئیں۔ پاکستانی کمانڈرانچیف جنرل گریسی نے کشمیر فوج بھیجنے کے قائداعظم کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا،قبائلی مجاہدین اکیلے لڑتے رہے۔ آخر یونائیٹڈ نیشن حرکت میں آئی اور 1948 کے آخر میں جنگ بندی ہو گئی اس وقت فوجیں جس پوزیشن پر تھیں وہ پوزیشن آج بھی قائم ہے۔ 1952 تک راجہ کا کشمیر پر تسلط رہا ااس کے بعد بھارت نے غیر قانونی قبضہ کر لیا۔26اپریل  1961 کو راجہ ہری سنگھ بمبئی میں وفات پا گیا۔مگر شاید ظلم وستم اور جبر کشمیریوں کا مقدر ہے۔ جو کشمیری صدیوں سے سہہ رہے ہیں اور جانے کب تک سہتے رہیں گے۔ ساری دنیا مانتی ہے کہ کشمیر پر پاکستانی موقف ٹھیک اور سچائی پر مبنی ہے مگر عملی طور پر کچھ نہیں کرتی۔

مزید :

رائے -کالم -