اب مسئلہ کشمیر کو بھی حل ہونا چاہیے 

 اب مسئلہ کشمیر کو بھی حل ہونا چاہیے 
 اب مسئلہ کشمیر کو بھی حل ہونا چاہیے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 جب بھارت نے 5 اگست 2019ء کو اپنے آئین میں شق 370 اور 35 اے میں ترمیم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی اور کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی نیت سے بھارتی افراد کو کشمیر کے باشندہ ریاست کے ڈومیسائل جاری کرنے شروع کر دیئے، جس سے  مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاج کیا گیا۔ لیکن یہ احتجاج بھارت کا کچھ نہ بگاڑ سکا، اس کے بعد پاکستان نے گلگت بلتستان اور شمالی علاقہ جات کو ایک صوبے کی شکل دیکر پاکستان کے ساتھ ملا لیا، اب آزاد کشمیر کے ایکٹ میں 15 ویں ترمیم کا ایک ایسا مسودہ جو آزاد کشمیر کی حیثیت میں بھی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ جس وقت یہ سطور تحریر میں لائی جا رہی ہیں اس وقت پاکستان سمیت پورے کشمیر  اور دنیا کے مختلف ممالک میں کشمیریوں کے حق میں احتجاج جاری ہے۔ ایک طرف بھارت کی جابرانہ، غیر منصفانہ اور ظالمانہ آئینی ترامیم پر احتجاج ہے  تو دوسری طرف آزاد کشمیر کے لوگ اپنے ایکٹ 74 میں کی جانے والی مجوزہ پندرہویں ترمیم پر فکرمند ہیں اور اس ترمیم کو تقسیم کشمیر کے منصوبے کی ایک کڑی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ بظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت عالمی طاقتوں کی ایما پر مسلہ کشمیر سے یوں جان چھڑانے کی مذموم کوشش میں لگتے ہیں کہ جیسے کھیر کی پلیٹ آپس میں بانٹ کر کھیر ہضم کر لی جائے نہ رہے کا بانس تو نہ بجے گی بانسری کے مصداق کشمیر کا قصہ ہی ختم ہو جائے گا۔ کشمیریوں اور پاکستانیوں کا لازوال رشتہ اتنا مضبوط ہے کہ ہر کشمیری خود کو پاکستانی بھی سمجھتا ہے اور ہر پاکستانی کشمیریوں کے لیے جان تک دینے کو تیار ہے، اس طرح یہ زمین کے ٹکڑے کا مقدمہ نہیں ہے بلکہ کروڑوں کشمیریوں کی آزادی اور پاکستان سے لازوال رشتوں کا معاملہ ہے مگر پاکستان کے حکمرانوں نے کشمیر پر سیاست تو ضرور کی ہے مگر کشمیر کے لیے سفارت کاری میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں، اگر کشمیر کو دونوں ممالک نے آپس میں اس طرح تقسیم کرنا تھا تو پھر جہاد اور جنگ کے نام پر لاکھوں کشمیریوں کی جان و مال اور عزتوں کی قربانیاں کس کھاتے میں  جائیں گی؟؟


اب وقت آ گیا ہے کہ اس مسلے کو حل ہونا چاہیے۔ ایک طرف کشمیریوں کی آزادی کو سلب کیے ہوئے بھارتی فوج کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے تو دوسری طرف پورا برصغیر اس ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔ کیونکہ بھارت اور پاکستان اپنی آمدن کا بڑا حصہ دفاع پر لگا کر عوام کو غربت کی بھٹی میں جھونکے ہوئے ہیں۔ اب سوچنا یہ ہے کہ مسلہ کشمیر کا حل کیا ہے جو کشمیریوں، بھارتیوں، پاکستانیوں سمیت پوری دنیا بھی قبول کر لے اور خطے میں امن اور خوشحالی کے دور کا آغاز ہو سکے؟؟ 
میں ایک کشمیری کی حیثیت سے بنیادی طور پر مسلہ کشمیر کو پاکستان کی تکمیل کا نامکمل ایجنڈا سمجھتا ہوں اور سارے کشمیر کو بھارت سے آزاد کروا کر پاکستان کے ساتھ ملانے کا حامی رہا ہوں۔ مگر یہ کس حد تک ممکن ہے؟ اس لیے اب ہمیں مسلہ کشمیر کے حل کے لیے ممکنات اور سب فریقین کے لیے قابل قبول حل پر بھی سوچنا ہوگا۔ جس طرح بھارت اور پاکستان کے کئی حکمران مختلف آپشنز پر غور کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح ہمیں بھی سوچنا ہے کہ مسلے کا آسان حل کیا ہے جس کو کشمیریوں سمیت سارے فریقین قبول کریں  اور کشمیری  آزادی میں سانس لے سکیں۔ کیا پاکستان اور بھارت جنگ کر کے کشمیر حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا کشمیری دونوں ممالک کے ساتھ لڑ کر کشمیر کو خودمختار بنا سکتے ہیں؟ کیا کشمیری اور پاکستانی سفارت کاری کے ذریعے سے اقوام عالم کو اس بات پر مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے کروا کر اس پر عملدرآمد کروائیں؟ میرے نزدیک ان تمام سوالات کے جوابات نفی میں آتے ہیں  تو پھر کس طرح کشمیریوں کو اس عذاب سے نجات دلائی جائے اور پاکستان بھارت دونوں ہمسایہ ممالک میں مستقل اور پائیدار امن قائم ہو؟؟  تاکہ دونوں ممالک دفاعی اخراجات میں کمی  لا کر کے عوامی مسائل کے حل اور غربت کے خاتمے پر اپنی توجہ مرکوز کر سکیں؟ ان تمام حالات و واقعات،

کشمیر کی تاریخ اور کشمیریوں کی خواہشات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ایک ایسا حل پیش کرتے ہیں جس میں کسی کی فتح ہو نہ شکست اور خطے میں پائیدار امن قائم ہو کر ترقی ہو سکے۔
راقم خود کشمیری ہے۔ کشمیریوں کی مشکلات اور ان کے جذبات کو قریب سے دیکھتا ہے۔ راقم نے 22 برس تک یورپ کے اندر آزادی کشمیر پر پروگرام کروائے اور مختلف فورمز کے اوپر بات کی ہے۔ کشمیر کی جغرافیائی صورتحال سے واقف ہوں۔ ان تمام حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے میرے خیال میں مسلہ کشمیر کا حل یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں اپنی افواج کو کشمیر سے باہر نکال کر  پورے کشمیر کو ایک اکائی بنا کر آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر کے اقوام متحدہ میں نئی قرارداد پاس کروائیں اور اس کے بعد دونوں ممالک کشمیر کے ساتھ تعلقات رکھیں، تجارت کریں، جو سیاح بھارت کے راستے کشمیر میں آئیں آ سکتے ہیں جو براستہ پاکستان آنا چاہیں ان کو بھی اجازت ہو، کشمیر اپنی باقاعدہ فوج نہ رکھے اس کی سرحدوں کی حفاظت بذریعہ اقوام متحدہ مشترکہ طور پر پاکستان،  چین اور بھارت کے ذمے ہو۔ کشمیر ایک وحدت ہو اس کا اپنا آئین، اپنی پارلیمنٹ اور اپنا حکومتی نظام ہو۔ جہاں تک کرنسی کی بات ہے۔ پاکستان، بھارت اور چین تینوں کی کرنسی کشمیر میں قابل قبول ہو۔

 پاسپورٹ کشمیر کا اپنا ہو۔ لیکن جو کشمیری بھارت یا پاکستان کا پاسپورٹ رکھنا چاہیں انہیں کشمیری شناخت کے ساتھ ان ممالک کا پاسپورٹ حاصل کرنے کا حق ہو۔ کشمیر سے نکلنے والے دریاوں اور پانی کے ذخائر سے دونوں ممالک فائدہ اٹھائیں لیکن اس کی مناسب ریالٹی کشمیر کو دی جائے۔ کشمیر کے اندر دونوں ممالک تجارتی حقوق لے سکیں مگر مستقل رہائشی بننے کا حق نہ ہو۔ کشمیریوں کے تمام مذاہب کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے اور اپنے عبادت خانے بنانے کی کھلی آزادی ہو اور کوئی ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچا سکے۔
یہ میں نے انتہائی مختصر پروگرام کا حوالہ دیا ہے۔ مزید تفصیل ہمارے پاس موجود ہے۔ جس میں تمام چھوٹے مسائل اور مشکلات کا حل موجود ہے۔ یہ ہمارا نظریہ ہے۔ کسی کا یا سب کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر کوئی دوست ہم سے سوال پوچھنا چاہے۔ تو ہم حاضر ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -