آہ قائم نقوی، ڈاکٹر اختر شمار
محرم کے پہلے عشرے میں لاہور میں مقیم اردو کے دو شاعر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ پہلے قائم نقوی اچانک دل کا دورہ پڑنے سے راہی ملک عدم ہوئے اور پھر ایک دن پہلے ایف سی کالج و یونیورسٹی کے استاد صدر شعبہ اردو معروف شاعر ڈاکٹر اختر شمار بھی مختصر رحلت کے بعد انتقال کر گئے۔ دونوں کی اس طرح اچانک دنیا سے پردہ پوشی نے ادبی حلقوں کو سوگوار کر دیا ہے۔ قائم نقوی تو شاعر اہل بیت تھے اور ان کا انتقال بھی اس وقت ہوا جب وہ ریڈیو پاکستان لاہور میں محفل مسالمہ پڑھ کر فارغ ہوئے۔ اس طرح انہوں نے آخر وقت تک شہدائے کربلا سے اپنی عقیدت کو نبھایا قائم نقوی سے میرا تعلق کئی دہائیوں پر محیط تھا جب میں ”ماہ نو“ میں تراجم کیا کرتا تھا تو وہ اس کے نائب مدیر تھے، بعد ازاں مدیر بنے اور اس کے یادگار ایڈیشن شائع کئے۔ انہوں نے ”ماہ نو“ کو نئے لکھنے والوں کے لئے بھی ایک ادارہ بنا دیا اور متعدد نئے شاعر، افسانہ نگار اور لکھاری متعارف کرائے، وہ ایک نرم خو اور نرم دل انسان تھے۔ ہمیشہ دوسروں کو عزت دیتے۔ جب ”ماہ نو“ کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے تو انہوں نے اپنا ایک ادبی جریدہ ”نمود“ کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔ وہ اس جریدے کے لئے ادیبوں، شاعروں کو تخلیقات بھیجنے پر راغب کرتے مجھے بھی فون کرتے تاہم میں اکثر دیگر مصروفیات کی وجہ سے تساہل کر جاتا۔
قائم نقوی ایک ایسے انسان تھے، جو دوسروں کے لئے راہیں تلاش کرتا ہے، ہماری ادبی دنیا میں ایک مرض یہ بھی ہے کہ یہاں دوسروں کا راستہ روکا جاتا ہے ادبی گروہ بندیوں نے ادب کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ حتیٰ کہ ادبی جریدے بھی گروپ بندی کی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں لیکن قائم نقوی نے ہمیشہ خود کو ہر شخص کی رسائی میں رکھا وہ حلقہ ارباب ذوق کے ذریعے بھی نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے،اس حوالے سے ان کا دور خاصا مفید ثابت ہوا کہ انہوں نے فروغِ ادب کے لئے حلقے کے پلیٹ فارم کو سب کے لئے اوپن کئے رکھا قائم نقوی ایک صاحبِ ذوق و صاحب اسلوب شاعر تھے انہوں نے جو اپنا شعری اثاثہ چھوڑا ہے وہ اردو ادب کے وضع اور معیاری اثاثوں میں شمار ہوتا ہے ایک صاحب نے ان کی نماز جنازہ کے بعد فیس بک پر یہ پوسٹ لگائی کہ لاہور کے دس شاعر بھی ان کے جنازے میں شریک نہیں تھے، یہ بات اپنی جگہ ایک المیہ ضرور ہے، تاہم قائم نقوی کی ادبی حیثیت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا انہوں نے ایک باوقار اور متحرک زندگی گزاری لاہور جیسے ادبی مرکز کو اپنی ادبی زندگی کا محور بنایا اور قومی سطح پر اپنی پہچان کرائی، ان کی وفات سے یقیناً ادب کا ایک عہد اختتام پذیر ہوا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ لاہور کے تعلیمی اداروں میں قائم نقوی کی شخصیت و فن پر تحقیقی کام کرایا جائے گا تاکہ آنے والی نسلوں تک ان کے ادبی اثاثے کو محفوظ بنایا جا سکے۔
ڈاکٹر اختر شمار کی اچانک وفات نے تو سب کو چونکا کر رکھ دیا ہے، ان کی کسی دیرینہ بیماری کے بارے میں کسی کو بھی خبر نہیں تھی وہ ایک متحرک اور ہشاش بشاش زندگی گزار رہے تھے کہ بے رحم موت نے انہیں ہم سے چھین لیا۔ ڈاکٹر اختر شمار سے میرا تعلق اس وقت سے تھا جب وہ ملتان میں مقیم تھے، نوجوانی کے ایام تھے اور ادبی محفلوں میں ہم شریک ہوتے، ان کا شعر پڑھنے کا انداز بہت منفرد ہوتا اپنے طویل قد کی وجہ سے وہ سب میں نمایاں نظر آتے میں نے کئی ادبی تقریبات اور مشاعروں میں ان کے ساتھ شرکت کی۔ حزیں صدیقی مرحوم ایک استاد شاعر تھے اور ان کی بیٹھک تھانہ کینٹ چوک کے قریب واقع تھی وہاں بھی ڈاکٹر اختر شمار پائے جاتے اور شاعری کے اسرار و رموز سیکھتے، پھر وہ اچھے مستقبل کے لئے لاہور چلے گئے جہاں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا شروع کیا انہوں نے لاہور سے پہلا ادبی اخبار ”بجنگ آمد“ کے نام سے نکالا جس میں جہاں ادب کی خبریں ہوتیں وہیں چٹکلے بھی چھوڑے جاتے، یہ اخبار بہت مقبول ہو گیا اور ادیب و شاعر بے تابی سے اسی کا انتظار کرتے تھے۔ ڈاکٹر اختر شمار تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوئے، لاہور میں رہ کر پی ایچ ڈی کی، پاکستانی چیئر پر الازہر یونیورسٹی قاہرہ گئے گویا وہ ایک طرف شاعری میں منازل پر منازل طے کرتے گئے اور دوسری طرف انہوں نے اپنے پروفیشنل کیریئر میں خود کو منوایا ادب کے سینئر استاد اور معروف محقق ڈاکٹر نجیب جمال نے ان کی وفات پر لکھا ہے۔ یہ غالباً 1977ء کی بات ہے جب ملتان یونیورسٹی (بہاؤ الدین یونیورسٹی کا پہلا نام) کے مشاعرے میں نوجوان اختر شمار کو میں نے پہلی مرتبہ سنا اور دیکھا۔ اس نے اپنے تخلص کو نہایت خوبی سے ردیف کے طو رپر استعما کیا۔ اس کے اس شعر نے خاص طور پر چونکا دیا تھا۔
یا مجھ کو اپنے پاؤں پر گرنے سے روک دے
یا میری لغزشوں کو عبادت شمار کر
پھر تواتر سے اسے سننے کا موقع ملتا رہا ایک دن وہ اپنی ہائیکو لے کر آیا وہ مجھ سے دیباچہ لکھوانا چاہتا تھا۔ میرے لئے یہ بڑی خوشی کی بات تھی۔ اگرچہ وہ بڑے رچاؤ سے غزل کہتا تھا لیکن دیوان شائع کرنے سے گریزاں تھا پھر اس کے تخلیقی شعور نے اس سے پے در پے غزلوں کے مجموعے لکھوائے جو شائع بھی ہوتے رہے۔ اس کی پختہ گوئی میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ اس کی کئی غزلیں تو پبلک پراپرٹی بن گئیں جن میں خاص طور پر یہ غزل۔
اس کے نزدیک غمِ ترک وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے جیسے کہ ہوا کچھ بھی نہیں
کل بچھڑنا ہے تو پھر عہد وفا سوچ کے کر
ابھی آغاز محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں
وہ کچھ عرصے سے بیمار تو تھا مگر ایسی تشویشناک بات نظر نہیں آتی تھی۔ پچھلے ماہ میں امریکہ آ رہا تھا تو اس کا فون آیا وہ ایک ماہ کے لئے مکمل آرام کرنا چاہ رہا تھا۔ مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں ہوا کہ وہ تو کسی اور ہی سفر کی عجلت میں ہے…… لاہور کے ادبی افق سے ان دو بڑے ستاروں کی رخصتی ادب کا ایک بہت بڑا نقصان ہے، اللہ دونوں کی مغفرت فرمائے۔
