آج یومِ شہادتِ امام حسینؓ ہے 

 آج یومِ شہادتِ امام حسینؓ ہے 
 آج یومِ شہادتِ امام حسینؓ ہے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 آج 10محرم الحرام ہے اور یومِ شہادتِ امامِ حسینؓ ہے۔ آج وہ آنکھ بدنصیب ہے جو ماتمِ حسینؓ میں اشکبار نہیں اور وہ دل، سنگدل ہے جو غمِ امامِ عالی مقام میں سوگوار نہیں۔ انگلیاں ہرچند کہ فگار ہیں اور خامہ ہرچند کہ خوں چکاں ہے لیکن انگلیوں کے یہی زخم اور قلم کی یہی خوں چکانی ذکرِ شہادتِ حسینؓ سے آبرومند ہے اور یقین کیجئے کہ حسینی قافلے کی جرات و شہامت اور ہمت و استقامت دنیا بھر میں بے نظیر و بے مثال ہے۔ میں ملٹری ہسٹری کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں۔ میں نے کئی بار یہ جاننے کی کوشش کی کہ دنیا بھر کی اس طویل تاریخِ جنگ و جدال میں متحارب گروپوں، فرقوں اور قوموں میں افراط و تفریط کا زیادہ سے زیادہ تناسب کیا تھا لیکن حضرت امام حسینؓ اور یزیدی ”افواج“ کا تناسب بے عدیل تھا اور یہ تناسب (Ratio) رہتی دنیا تک برقرار رہے گا۔ کسی نے یہ شعر ایسے ہی کسی مذہبی ترنگ میں آکر نہیں کہہ دیا تھاکہ:
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے، ہر کربلا کے بعد
کیا آپ نے اس بات پر سنجیدگی سے کبھی غور کیا ہے کہ ایک طرف 72 افراد ہیں جن میں خواتین، شیرخوار بچے اور بوڑھے بھی ہیں اور بے سروسامانی کا عالم ناقابلِ بیان ہے لیکن دوسری طرف پوری کی پوری یزیدی فوج ہے جو کیل کانٹے سے لیس ہے۔ نہر فرات (علقمہ) کا پانی بند کر دیا گیا ہے اور بچے بوڑھے بوند بوند کو ترس رہے ہیں لیکن عزمِ حسینؓ اتنا جواں ہے کہ باطل کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہیں۔
میر انیس اور دوسرے کئی شعراء کے مرثیے اردو زبان کے ہر طالب علم نے پڑھے ہوں گے اور بڑے بڑے فصیح البیان مرثیہ گو حضرات و خواتین کی زبان سے سنے بھی ہوں گے لیکن انیس نے اپنے مرثیوں میں واقعہء کربلا کی ایک ایک تفصیل کو اس طرح بیان کر دیا ہے کہ اب اردو زبان، انیس ثانی پیدا نہیں کر سکتی۔ وجہ یہ ہے کہ امتِ مسلمہ بھی حسینِ ؓ ثانی پیدا نہیں کر سکتی۔


میر انیس کے مرثیے مسدس کی صنفِ شاعری میں ہیں اور ہماری میٹرک کی اردو کی نصابی کتاب کا نام ”سرمایہء اردو“ تھا۔ یہ کتاب شاید تقسیمِ ہند کے بعد بھی پاکستانی سکولوں میں آٹھ دس برس تک تدریس کی جاتی رہی۔ مجھے معلوم نہیں کہ انگریز نے کس سن میں یہ کتاب سکولوں میں بطورِ سلیبس رائج کی تھی لیکن حافظ محمود شیرانی کی یہ تالیف، سرمایہء اردو اس لحاظ سے بے مثال تھی کہ اس میں برصغیر کی تمام اقوام کے مسالک و ادیان کا خیال رکھا گیا تھا۔
میر انیس کا تو موضوع ہی شہادتِ حسین تھا اس لئے شیرانی صاحب نے ان کی ایسی دو نظمیں اس نصاب میں شامل کیں جنہیں گویا سرتاسر مراثی شمار نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ یہ امام حسینؓ کے مراثی کی اولین جغرافیائی کیفیتوں کی عکاسی ضرور ہے۔ ایک نظم کا عنوان ”آمدِ صبح“ تھا اور دوسری کا ”گرمی کی شدت“ تھا۔ ذرا دیکھئے کہ ”آمدِ صبح‘ کے 16عدد مسدسی بندوں (Stanzas) کے 48عدد اشعار میں صرف ایک بند میں ایک شعر میں خاکِ کربلا کا ذکر ہے:
اوجِ زمیں سے پست تھا چرخِ زبرجدی
کوسوں تھا سبزہ زار سے صحرا زمرّدی
ہر خشک و تر پہ تھا کرمِ بحرِ سرمدی
بے آب تھے مگر دُرِ دریائے احمدی

روکے ہوئے تھی نہر کو امت رسولؐ کی
سبزہ ہرا تھا خشک تھی کھیتی بتولؓ کی


اس بند کا یہی مصرع تھا جس میں حضرت سیدہ فاطمہؓ کا ذکر تھا اور اس ایک شعر کی تفسیر میں ہمارے اردو کے استاد نے پورے دو پیریڈ صرف کر دیئے تھے اور اس کے بعد میدانِ کربلا میں گرمی کی شدت کا ذکر کرتے ہوئے بھی میر انیس نے جو 30عدد اشعار اپنے اس مرثیے میں کہے تھے ان میں پہلے بند کے تین اشعار یہ تھے:
گرمی کا زور جنگ کی کیونکر کروں بیاں 
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں 
وہ لُو کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں 
رَن کی زمیں تو سرخ تھی اور زرد آسماں 

آبِ خنک کو خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر


اس نظم کی تشریح میں بھی استادِ مکرم نے پورا ایک پیریڈ صرف کر دیا تھا اور یہ اردو پر ہی منحصر نہیں انگریزی، ریاضی، الجبرا، جیومیٹری، تاریخ، جغرافیہ، فارسی، عربی اور ڈرائنگ و سائنس کے اساتذہ بھی اپنے اپنے مضامین (Subjects) میں درجہء کمال پر فائز تھے۔ میرے زمانے میں پاک پتن، ضلع منٹگمری (اب ساہیوال) کی ایک تحصیل تھا اور یہاں کی آبادیاں بھی علم و ادب کے اعبتار سے خصوصاً ’پینڈو‘ کہلاتی تھیں لیکن نجانے یہ اساتذۂ کرام کہاں سے آ گئے تھے۔ ایک سے ایک بڑھ کر اور ایک سے ایک بڑا مردِ درویش…… ٹیوشن کے نام سے ہمیں کوئی آشنائی نہ تھی اور بات یہ نہ تھی کہ ہمارے اساتذہ کی جیبیں بھاری ہوا کرتی تھیں۔ مجھے معلوم ہے ان کی گزر اوقات کس مشکل سے ہوتی تھی لیکن انہوں نے نجانے کن مدرسوں سے تعلیم پائی تھی کہ جب تک یہ نہ دیکھ لیتے کہ ہر طالب علم اسرار و رموزِِ معانی سے کماحقہ آگاہ ہو گیا ہے تب تک وہ مسلسل بولتے اور سمجھاتے چلے جاتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میٹرک کے امتحان میں ہماری کلاس کے 35 طلباء میں صرف ایک طالب علم کی سیکنڈ ڈویژن آئی تھی اور وہ بھی صرف ایک نمبر سے فرسٹ ڈویژن نہ لے سکا تھا۔ اس زمانے میں 510 نمبروں سے فرسٹ ڈویژن شروع ہوتی تھی اور نذیر کے نمبر509 تھے۔ پوری کلاس کو نذیر کی اس ’ناکامی‘ کا قلق تھا۔ لیکن جب بھی میری اس سے ملاقات ہوتی، میں اظہارِ تاسف کرتا تو وہ مسکرا کر چپ ہو جاتا۔ ایک بار کہا: ”یہ میری ناکامی تھی۔ اساتذہ نے تو ہم سب کو برابر ہی تدریس کیا تھا!“


پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
حضرت حسینؓ کی شہادت کا ذکر ہو رہا ہے اور میں اپنے ماضی کی یادوں کے انباروں میں دبا ہوا ہوں …… میرے محلے میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ سکھ بھی تھے لیکن بہت کم۔میں چونکہ 1947ء سے پہلے کی ”پیدوار“ ہوں اس لئے اچھی طرح یاد ہے کہ یومِ عاشور پر ہمارے شہر میں تعزیہ کا ایک ہی جلوس نکلتا تھا۔ (شاید آبادی کم تھی) اور اسی طرح عید میلادالنبیؐ کا جلوس بھی یادگار ہوتا تھا۔ یومِ عاشور میں میرے ساتھ گلی کے ہندو لڑکے بھی شامل ہوتے تھے۔ جگہ جگہ میٹھے شربت اور دودھ کی سبیلیں لگی ہوتی تھیں۔ کسی سکھ یا ہندو نے کبھی ان سبیلوں سے شربت یا دودھ پینے سے اجتناب نہیں کیا تھا۔ غمِ حسین کے نعروں میں اور عیدِ میلاد النبیؐ کی نعت خوانی کی محفلوں میں بھی سارے محلے کے لڑکے بالے شریک ہوتے تھے۔ دوسری طرف ہم بھی ان کی دیوالی، دسہرے اور سکھوں کے گورو جنم دن کے جلوس میں شریک ہوا کرتے تھے۔ کسی کو ہندو مسلم آویزش کی کچھ خبر نہ تھی۔ پانچ سات برس کے لڑکوں میں ابھی ملاؤں، پنڈتوں اور گیانیوں کی بانیوں، وعظوں اور تقریروں نے وہ زہر نہیں گھولا تھا جو بعد میں ہندو مسلم دشمنی کے پلازے کی خشتِ اول بنا۔
میرا خیال ہے اقبال کے زمانے تک بھی دشمنی کے وہ بیج نہیں اُگے تھے جو ان کی وفات کے بعد ”سرسبز و شاداب کھیت کھلیان“ بن گئے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اقبال نے گورونانک، رام چندر اور عیسیٰ و موسیٰ کی تکریم و توصیف میں اپنا پورا زور بیان صرف کر دیا۔ جس طرح غالب نے اپنے اس ایک شعر میں نعتِ رسولؐ کے گویا خاتم ہونے کی دلیل بیان کر دی تھی:
غالب ثنائے خواجہؐ بہ یزداں گزاشیتم
کآں ذات پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
اسی طرح اقبال نے اپنے اس شعر میں حضرت امام حسینؓ کی منقبت کی اخیر کر دی:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیل ؑ


جس دین کا آغاز حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی سے ہوا اور  جن کی یاد میں ہم بقر عید مناتے ہیں اس دین کا اختتام حضرت امام حسینؓ کی شہادت سے ہوا جس کی یاد میں آج ہم یومِ عاشور منا رہے ہیں۔
اقبال نے حضرت علیؓ،حضرت فاطمہؓ اور حضرت امام حسینؓ پر فارسی اشعار میں جن خیالات کو نظم کیا ہے اس کا جواب کسی فارسی شاعر کے پاس نہیں۔ میں ایرانی حضرات سے برسوں تک ہمکلام رہا۔ ان میں ان کے جیّد علماء بھی تھے۔ میرا ایک سوال ان سے یہ بھی ہوتا تھا کہ فردوسی، سعدی، رومی اور حافظ کے سارے فارسی کلاس میں شہیدانِ کربلا کی وہ تفصیل کیوں نہیں ملتی جو ان کے صفوی خاندان، بلکہ خلافتِ عباسیہ کے دور سے شروع ہوئی اور اس میں مرورِ ایام سے شدت آتی چلی گئی…… اس سوال کا خاطر خواہ جواب کسی بھی ایرانی سے نہ مل سکا…… ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ میرے دل میں حبّ ِ اہل بیت کی چنگاریاں شعلہء جوّالہ کی صورت میں موجود ہیں!

مزید :

رائے -کالم -