عاشورہ کے لئے حکومتی اقدامات
ضیاء الحق سرحدی
محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو عوام میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ پورے ملک میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی جاتی ہے اور کئی شہروں کو حساس قرار دے کر جگہ جگہ پولیس تعینات کر دی جاتی ہے۔ شیعہ سنی فساد کے خطرے کے پیش نظر حکومت سیکیورٹی پر مامور تمام اداروں کو چوکس کر دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 80ء کی دہائی سے پہلے محرم الحرام کے دس دن خیر و عافیت سے کیسے گزر جاتے تھے اور اب ایسا کیوں نہیں ہے؟ ہم میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ کیوں کم ہو گیا اور حرمت والے مہینے میں مسلمانوں کا خون مسلمانوں کے ہاتھوں کیوں بہنے لگا؟اس سوال پر ہر محب وطن پاکستانی کو غور کرنا چاہئے۔اگر ہم شیعہ سنی کشیدگی کا تاریخی جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ 80ء کی دہائی سے پہلے محرم الحرام کے پہلے دس دنوں میں شیعہ سنی باہم شیر و شکر رہتے تھے ان میں کوئی لڑائی جھگڑا، دنگا فساد نہیں ہوتا تھا، شیعہ حضرات جب محرم کے جلوس لے کر نکلا کرتے تھے تو سنی راستے میں جگہ جگہ پانی اور شربت کی سبیلیں لگایا کرتے تھے اور عزاداران ان سبیلوں سے پانی اور شربت پی کر آگے بڑھ جایا کرتے تھے۔ محرم الحرام کے جلوسوں کے روٹس طے ہوجاتے تھے اور ان ہی روٹوں سے ہوتے ہوئے عزاداران کے جلوس مرکزی امام بارگاہوں میں پہنچتے تھے اس کے علاوہ باہمی شادیوں کا رجحان عام تھا اور سنی بھی محرم کے جلوسوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ درحقیقت اس وقت ہمیں دیکھنا یہ چاہئے کہ حالات ہیں کیا؟ عالم اسلام بالخصوص پاکستان کو جس صورتحال کا سامنا ہے کیا اس میں ہمارے لئے یہ اہم ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے فروعی اختلافات کو ہوا دیں؟ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالیں اور اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کیلئے قوم کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے جائیں؟ اگر بات فروعی اختلافات اور خود ساختہ تنازعات کی ہو تو اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کے سامنے ان کی کیا اہمیت ہے؟پاکستان کے قیام اور اس کے استحکام میں علمائے کرام اور دینی شخصیات کا کردار ہماری تاریخ کا روشن باب ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کوشش میں کسی نے فرقہ کی بنیاد پر کام نہیں کیا تھا۔لیکن وطن عزیز کے معروضی حالات جن میں وطن دشمن قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے ہمارے پیارے ملک کی آزادی اور سا لمیت کو داؤ پر لگانے کے در پے ہیں امید ہے کہ علمائے کرام اور مذہبی شخصیات قومی یکجہتی ملکی استحکام، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مجموعی امن و امان کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرتے رہیں گے۔ انہی توقعات کی بناء پر حکومتی ذمہ داران نے بروقت علماء کرام کو اپیل کی ہے جس کے یقینا مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔میرے خیال میں خیبرپختونخوا حکومت کے اقدامات کے علاوہ وفاقی سطح پر بھی اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ہمارے ملک کے معروضی حالات بھی اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ قومی سطح پر مفاہمت اور مشاورت کے عمل کو موثر بنانے کے علاوہ نہ صرف اندرونی محاذ آرائی پر بھی خاص توجہ دی جائے بلکہ اس عمل کو مزید موثر اور مضبوط بنانے کی مربوط کوششیں کی جانی چاہئیں اور تمام معاملات کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے اراکین پارلیمنٹ کی آراء کی روشنی میں وسیع تر قومی مفاد کی حامل جامع پالیسیاں وضع کی جانی چاہئیں اور بیرونی سطح پر دیگر ممالک میں قائم سفارت خانوں کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اقوام عالم میں پاکستان کے تشخص کو خراب کرنے کی کوششوں کو ناکام بنا یا جاسکے۔ کیونکہ اجتماعی مشاورت اور عوام کو اعتماد میں لینے سے ہی ہم ملک اور امن دشمن قوتوں کے جارحانہ عزائم کو ناکام بنا سکتے ہیں اور اسی تناظر میں ہی وفاقی و صوبائی حکومتی ذمہ داران نے بروقت اقدام اٹھاتے ہوئے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کو اس اہم اور نازک مسئلہ پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے امن و امان کے حوالے سے خصوصی انتظامات تشکیل دئیے ہیں جن کے دور رس نتائج سامنے آنے کی پوری پوری اُمید ہے۔اس سلسلے میں عوام اور علمائے کرام بلکہ ہر شخص کو اپنا پورا کردار اور فرض ادا کرنا چاہئے،تمام علماء اپنے خطبات میں میانہ روی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مثبت رویہ اختیار کریں تاکہ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا نہ ہو۔ اصل میں اپنا عقیدہ نا چھوڑنا اور کسی دوسرے کے عقیدے کو نہ چھیڑنا ہی ایسااصول ہے جس پر کمر بند رہ کر معاشرے میں بھائی چارے کو فروغ مل سکتا ہے۔محرم الحرام کے دوران امن و امان کا قیام جہاں حکومت کی ذمہ داری ہے وہاں اتنی ہی ذمہ داری ملک کے تمام علمائے کرام اور تمام عقائد کے حامل افراد پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مہینے میں حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور اسلام دشمن قوتوں کی امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کی سازش کو ناکام بنا دیں۔اُمید ہے کہ آنے والے دنوں میں صوبے میں مثالی امن و امان قائم ہوگا اور بالخصوص عاشورہ کے دوران مختلف مکاتب فکر کے علماء ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے، یہ حالات کا تقاضا بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔
