فوڈ فار تھاٹ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اردو زبان کا ارتقاء برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں سے وابستہ ہے اوراس زبان کی ترقی کے لئے انہوں نے ہندوؤں کے لسانی تعصب کا بھی بھرپور مقابلہ کیا۔ ویسے تو ہندوستان میں بے شمار علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جب مسلمان یہاں حکمران بنے تو فارسی کا بول بالا ہوا اور اس زبان کو سالہا سال سرکاری زبان کی حیثیت حاصل رہی۔ انگریزوں نے اس زبان کو مسلمانوں کی زبان سمجھ کر دیس نکالا دیا۔ فارسی علم و ادب کے لحاظ سے بڑی مضبوط زبان ہے۔ اس کے دامن میں مولانا جلال الدین رومی۔ شیخ سعدی، شیرازی، جامی،جیسے نامور شعراء کا کمال شعر وسخن اپنے پورے ادبی قد کاٹھ کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ خیر اس زبان میں ہندوستان کے مقامی شعراء نے بھی زبردست شاعری کی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اردو نے بھی فارسی کی کوکھ سے جنم لیا ہے بلکہ بزرگ شاعر سعد اللہ گلشن کے بقول فارسی استاد شعراء سے مستفید ہوئے بغیر کوئی بھی اردو زبان کا اچھا شاعر نہیں ہو سکتا۔ ہر دور کا اپنا ایک بیانیہ ہوتا ہے آجکل تو فارسی کیا پوری طرح اردو زبان سے ناواقف لوگ بھی مشاعروں میں خوب داد سمیٹ رہے ہیں۔ بہرحال فارسی عربی اور پاکستان کی مقامی زبانوں سے ہماری قومی زبان کی عمارت تعمیر ہوئی ہے۔ سر سید احمد خان اور ان کے رفقائے کار نے تو اس کے دامن کو مزید وسیع کردیا۔ پاکستانی قوم کی اردو سے محبت اور وابستگی کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
اب تو گھر گھر میں اردو زبان بولی جاتی ہے اور تمام حکومتوں کی طرف سے جملہ سرکاری و غیر سرکاری دستاویزات کو اردو میں ڈھالنے کا عہد کیا جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کام کی رفتار غیر تسلی بخش ہے۔ چند یوم قبل ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا جو پروفیسر ڈاکٹر مظہر سلیم پرو وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کے اعزاز میں پیر محمد ضیاء الحق نقشبندی صدر الامین اکیڈمی کے زیر انتظام منعقد کی گئی۔ حال ہی میں حکومت پاکستان نے انہیں ڈائریکٹر جنرل ادارہ فروغ قومی زبان مقرر کیا ہے۔ جب میری ان سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے بارے بتایا کہ ان کی ڈاکٹریٹ فارسی زبان میں ہے۔ پہلے تو میرا خیال ان لوگوں کی طرف گیا جو آج کل فارسی زبان کی تعلیم پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ شاید وہ حضرات اس زبان کے علم و ادب کی اہمیت و افادیت سے پوری طرح واقف نہ ہیں۔ کاش وہ مثنوی مولانا رومی اور گلستاں بوستان کا مطالعہ کر لیتے۔ پھر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اردو کی ترویج وترقی میں فارسی زبان پر عبور رکھنے والے لوگ کتنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مذکورہ تقریب میں مجھے پروفیسر متذکرہ بالا کی تعیناتی کا جان کر اس لئے خوشی ہوئی کہ عہدے کے مطلوبہ معیار کے عین مطابق ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی پاکستان میں میرٹ کی بنیاد پر تعیناتیوں کے رجحان کو فروغ دے گی۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے ہم تحریر اور تقریر کے میدان میں بہت آگے جا چکے ہے اور عمل کے میدان میں ہمارے راستے میں ابھی بہت ہی ٹوئے ٹبے ہیں اور ان کو ہموار کرنے کی تاحال ہم میں صلاحیت نہیں ہے لیکن اس ساری صورتحال پر زبانی کلامی ہم بڑے ہی پریشان ہیں اور خود کو باعمل بنانے کی بجائے دوسروں کو بھی پریشان کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ پریشانی سوچ بچار کو جنم دیتی ہے اور باہمی مشاورت اور بحث و تمحیص سے نئے نئے خیالات کے تانے بانے بنے جاتے ہیں اور خیالات ہی مختلف تحاریک کو جنم دیتے ہیں اور تحاریک معاشرے کو متحرک اور فعال کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ کلیدی آسامیوں پر جس دن میرٹ کی بنیاد پر لوگوں کی تعیناتی کی جائینگی وہ دن ہوگا جب ادارے اپنا جاندار کردار ادا کرنا شروع کردینگے۔ پھر عوام اداروں کی اونر شپ لینگے اور اداروں کے دروازے بھی عوام پر کھول دیئے جائیں گے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ، حکومتوں کا اردو زبان کو لاگو کرنے کا پرزور عزم اور پھر انگریزی زبان کی سرکارکے دربارسے رخصتی کی ڈولی کا نہ اٹھنا۔ لمحہ فکریہ۔ غور و فکر کی اشد ضرورت بلکہ سب غوروفکر کرنیوالوں کو سر جوڑ کر اجتہاد کرنے کی ضرورت بلکہ جہاد کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم سب سے پہلے نیتوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ محترم مجیب الرحمن شامی،محترم سہیل وڑائچ، پروفیسر محمد نعیم مسعود، رائے منظور ناصر،سید ارشاد احمد عارف، محترمہ صوفیہ بیدار، محمد فاروق، ڈاکٹر تنویر قاسم رضا جیسے اہم دانشور اس تقریب میں شریک گفتگو تھے دوران گفتگو بڑی بڑی اہم تجاویز سامنے آئیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ سارے عدالتی فیصلوں کا اردو ترجمہ کردیا جائے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ انگریزی زبان سے ناواقفیت بھی انصاف کے حصول کے لئے مظلوم کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سستے اور فوری انصاف کا دعوٰی اس وقت پورا ہوگا جب عدالتی نظائر کی تشریح وتوضیح کے لئے وکلاء کی فیسوں سے جان چھوٹ جائیگی۔ ہر شخص اردو زبان میں تحریر شدہ فیصلے پڑھنے کے قابل ہو جائیگا، مائنڈ اپلائی کرے گا اور اپنا مقدمہ آپ لڑنے کی پوزیشن میں ہوگا۔ ہم پینڈو لوگوں کا بھی سب سے بڑا مسئلہ انگریزی زبان ہے کیونکہ تمام مقابلے کے امتحانوں کا انگریزی نصاب دیہی علاقوں کے طلباء و طالبات پر سول سروس کے دروازے بند کردیتا ہے۔
ایک زمانہ تھا مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ فلسفہ، منطق،نجوم،ریاضی،طبیعیات وغیرہ جیسے مضامین پڑھا کر طالبان علم کی استعداد کو اتنا مضبوط کردیا جاتا تھا کہ ایسے پڑھے لکھے جس پلیٹ فارم پر کھڑے ہوتے وہاں اپنی فہم و فراست اور علم و منطق و استدلال سے سامعین کو حیران کر دیتے تھے۔ پھر انگریزی زبان کے پودے کی آبیاری کی گئی اور ایک منظم طریقے سے مدارس اور مدرسین کو بدنام بھی کیا گیا اور ناکام بھی کیا گیا۔ سانپ بھی مر گیا اور لٹھ بھی بچ گئی اور اب ہم خود بھی لٹھ بچانے کے چکر میں ہیں۔ ویسے بھی ہم چکرا سے گئے ہیں اور اب تو ہم اپنے آپ سے بھی گئے ہیں۔ محترم مجیب الرحمن شامی کی فکر انگیز گفتگو کا یہی خلاصہ تھا۔
آجکل اکثر شاعر اور ادیب شکوہ کرتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ لوگ کتاب سے دور ہو گئے ہیں مطالعہ کا شوق ختم ہو گیا ہے۔ کتاب خریدنے کا تو کوئی نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو آج کے سارے لکھاری فیس کررہے ہیں۔ یہ کائنات کبھی بھی اصحاب بصیرت سے خالی نہیں ہوئی ہے۔ مذکورہ مسئلے کا پائیدار حل رائے منظور ناصر نے آج کے پر آشوب دور میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایک کتاب لکھی ہے اور قارئین کے لئے خوشخبری دی ہے کہ جو بھی یہ کتاب مکمل پڑھے گا اور ان کے اپنے ترتیب دیئے گئے مقابلے کے امتحان میں شرکت کرکے پوزیشن حاصل کرے گا اس کو پچاس لاکھ کا انعام دیا جائیگا۔ لالچ اور وہ بھی بہت بڑا لالچ۔ مجبور تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ پہلے کتاب خریدے گا پھر پڑھ کر اپنی علمی استعداد بہتر کریگا اور پھر لنگوٹ کس کر اس چوٹی کو سر کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دے گا۔ نقل کے سارے دروازے مکمل طور پر بند کر دیئے جائینگے۔ فیصلہ خالص میرٹ کی بنیاد پر۔ اب مسئلہ زیر غور یہ ہے کہ امتحان دینے کا اہل صرف مسلمان کو ہونا چاہیئے یا غیر مسلم بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مستفید ہو کر دنیا اور آخرت بہتر کر سکتا ہے۔ گہرے سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں فوڈ فار تھاٹ سب کے لئے ہے۔