جاپانی قوم اور عسکریت (2)
کالم نویسی کے لئے کوئی ایک موضوع مقرر نہیں۔ البتہ یہ ایک بین الاقوامی وسیلہء تحریر ہے جس کے توسط سے ہم اپنے قارئین کو انفارم (Inform) اور ایجوکیٹ (Educate) کر سکتے ہیں۔ آج پاکستان کے اپنے حالات اس قدر پیچیدہ اور گوناگوں ہیں کہ ان پر روزانہ درجنوں کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ کالموں کے اس طوفانِ بادوباراں میں بعض اوقات بارش کا طوفان تھم بھی جاتا ہے۔ لیکن بادل اور بجلیاں کسی اور جگہ جا کر چمکتی اور گرجتی ہیں۔ آج کل یہ بجلیاں بنگلہ دیش پر چمک اور گرج رہی ہیں۔
بنگلہ دیش جو 14اگست 1947ء سے لے کر 15دسمبر 1971ء تک ”مشرقی پاکستان“ تھا اس کی تاریخ ابھی زندہ و تابندہ ہے۔ کیا ہوا اگر سقوطِ ڈھاکہ کو دو نسلیں گزر چکی ہیں لیکن اس تاریخ کو دیکھنے اور جاننے والے آج بھی لاکھوں کی تعداد میں ”مغربی پاکستان“ میں موجود ہیں جو آج ’پاکستان‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
میں خود اس جنگ اور اس حادثے کا عینی شاہد ہوں جو دسمبر 1971ء میں پیش آیا تھا۔ میں اس وقت ینگ کپتان تھا اور میرے آرڈرز ڈھاکہ جانے کے لئے ہو چکے تھے لیکن میں ایک ہفتے سے زیادہ دیر تک (سات دسمبر 1971ء تا سولہ دسمبر1971ء) کراچی کے ایمبارکیشن ہیڈکوارٹر میں بیٹھا اس فلائٹ کا انتظار کرتا رہا جو ڈھاکہ سے واپس آنی تھی اور جس نے مجھے کراچی سے ڈھاکہ پہنچانا تھا۔ میرے ساتھ کئی اور لوگ بھی تھے جو آگ کی اس چِتا میں کودنے والے تھے۔لیکن وہ فلائٹ ڈھاکہ سے واپس نہ آ سکی اور اس طرح میں (اور میرے ساتھ کئی اور پاکستانی آفیسرز) مشرقی پاکستان نہ جا سکے۔ اس طرح میں 16دسمبر کی شام کو واپس کوئٹہ اور پھر وہاں سے خضدار اپنی یونٹ میں (قلات سکاؤٹس) واپس آ گیا…… قارئین کرام! یہ کہانی پھر کبھی سہی!
آج بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کے فرار کا واقعہ بین الاقوامی میڈیا پر موضوعِ بحث ہے۔ میں اس موضوع پر کالم لکھنا چاہتا تھا لیکن سوچتا ہوں کہ اس کا فائدہ بجز اس کے کچھ اور نہ ہوگا کہ ہم اس دور میں پاکستان کو لگائے زخموں کو خود کریدنے کا ارتکاب کریں گے۔ اس وقت کے مشرقی پاکستان کے پانچ ڈویژنوں (9،14،16،36،39) پر کیا گزری، مکتی باہنی کا رول کیا تھا، انڈین آرمی نے 21نومبر 1971ء سے لے کر 16دسمبر1971ء تک کیاکھویا او رکیاپایا اس پر پاک۔ بھارت جنگ 1971ء پر بہت سی تصانیف موجود ہیں۔ بی بی سی نے اس پر کئی دستاویزی فلمیں بنا رکھی ہیں، ان کو دیکھ کر حسینہ واجد کے فرار اور اقتدار سے محرومی کی ساری منزلیں اور مرحلے آئینہ ہو جاتے ہیں۔
پاکستان نے 1971ء کی اس جنگ سے کئی سبق حاصل کئے۔ گزشتہ 55برسوں (1971ء تا 2024ء) میں بقول کسے وقت کے پل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور اس پُل کے بہت سے پشتے اور ستون (Pillars)ہمارے سامنے گر کر دوبارہ تعمیر ہو چکے ہیں۔ میرے خیال میں بنگلہ دیش کو ایک دوسرا مقبوضہ کشمیر بننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، زیڈ اے بھٹو نے ٹھیک کہا تھا کہ انڈیا نے بنگلہ دیش بنا تو لیا ہے لیکن اس آگ کی بھٹی میں بہت جلد اس کی انگلیاں جل جائیں گی۔ آج نہ بھٹو زندہ ہے، نہ شیخ مجیب، نہ اندرا گاندھی، نہ جگجیت سنگھ اڑوڑہ۔ دیکھیں یہ آگ کی بھٹی کب مزید بھڑکتی ہے اور اس میں جنرل وقار الزمان اور ڈاکٹر یونس کا رول کیا ہوتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں تھوڑا سا اور صبرکرنا ہوگا۔ جہاں پہلے دو نسلیں گزر چکی ہیں، وہاں ایک نسل اور سہی۔ حادثے کو پرورش کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ یہ ایک دم نہیں ہوتا۔ لیکن ہوتا ضرور ہے!…… آیئے اپنے موضوع کی طرف رخ کرتے ہیں۔ میری مراد ایڈمرل یاماموتو کی کہانی سے ہے۔
1872ء میں جاپان نے فرانسیسیوں سے مدد مانگی اور ان سے جاپانی فوج کو جدید خطوط پر تعمیر کرنے کی درخواست کی۔ لیکن بعض جاپانی مشیروں نے اعتراض کیا کہ فرانس کی افواج خود کئی ممالک میں برطانوی افواج سے شکست کھا چکی ہیں۔ (ہندوستان ان میں سے ایک تھا) اس لئے ان کا مشورہ تھا کہ افواج کی تعمیر نو میں جرمنی یا برطانیہ سے مدد لی جائے۔ چنانچہ 1875ء میں جاپان کے وزیر جنگ یاماگاٹا (Yamagata) نے مشورہ دیا کہ فرانس کی جگہ جرمن آرمی کے جنرل سٹاف سسٹم کو اختیار کیاجائے۔ شہنشاہ نے وزیرجنگ کا مشورہ مان لیا اور فوراً ہی جرمن آرمی سسٹم کی تقلید کا فیصلہ کر دیا۔ ایک بڑا فوجی اور تعلیمی وفد تشکیل دیا گیا۔ اسے جرمنی بھیجا گیا اور اسے ایک ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔ جب وہ وفد واپس ٹوکیو پہنچا تو اس کی سفارشات کو من و عن تسلیم کرکے فوری طور پر اس کے نفاذ کے اقدامات کئے گئے۔ ملٹری سکولوں کا جرمن سسٹم اور اس کا نصاب بھی تمام جاپان میں رائج کر دیا گیا۔ ایک دارالترجمہ قائم کیا گیاجس نے جرمن عسکری لٹریچر اور نصاب کو جاپانی زبان میں ترجمہ کر دیا اور پھر صرف پانچ برس کے اندر اندر تمام جاپانی عسکری ادارے، جرمن افواج کے اداروں کی طرز پر ڈھال دیئے گئے۔ حد یہ ہے کہ یاماگاٹا نے خود اپنی وزارت کو بھی جرمن وار منسٹری کی بنیادوں پر قائم کرنے کے احکامات دے دیئے۔ لیکن جاپانیوں کی عسکری بصیرت کا اندازہ کیجئے کہ انہوں نے یہ ادراک کرنے میں بھی کوئی دیر نہ لگائی کہ جرمنی ایک سمندری قوم (Sea Faring Nation) نہیں ہے جبکہ برطانیہ سمندری قوم ہے اور دوسرے جزائر جاپان کا محل وقوع بھی برطانیہ جیسا ہے۔ جس طرح برطانیہ، براعظم یورپ کی انتہائی شمال مغربی جانب، سرزمین یورپ سے الگ تھلگ واقع ہے اور انگلش چینل اس کو براعظم یورپ سے جدا کرتی ہے، اسی طرح جاپان بھی،براعظم ایشیاء کی انتہائی شمال مشرقی جانب واقع ہے اور بحیرہ جاپان اس کو ایشیائی سرزمین (Main Land) سے جدا کررہا ہے۔ شہنشاہ جاپان نے حکم دیا کہ جاپانی آرمی کو جرمن خطوط پر اور جاپانی نیوی کو برطانوی خطوط پر استوار کیا جائے اور ٹریننگ دی جائے۔ اس طرح ایک طرف جاپانی ملٹری افسر اور عہدیدار جرمنی اور برطانیہ کا رخ کرنے لگے تو دوسری طرف جاپانی سکولوں اور کالجوں میں عسکری ٹریننگ دی جانے لگی تاکہ کم سے کم مدت میں ان استعماری قوتوں کے سیل بے پناہ کے آگے بند باندھا جائے جو چین تک آ پہنچی تھیں۔
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ جاپانی کس قدر بیدار مغز قوم ہیں۔ ان کا عسکری ماضی کوئی ایسا شاندارنہ تھا۔ انہوں نے فوراً ہی (1872ء میں) فرانسیسی فوج سے مدد مانگی اورجاپانی فوج (Military) کو جدید عسکری خطوط پر ٹریننگ دینے کی درخواست کی۔ اس راہ میں مشکلات کا پہاڑ تھا۔ سب سے بڑی رکاوٹ زبان اور رسم الخط کی تھی۔ لیکن جاپانیوں نے ان دشواریوں کی پرواہ نہ کی اور پھر فرانس کی جگہ جرمن فوج سے مدد مانگی۔ جرمن زبان اور اس کی فوجی اصطلاحات اور تاریخ بھی جاپانیوں کے لئے بالکل اجنبی تھی۔ لیکن انہوں نے جس عجلت سے یہ کوہِ گراں عبور کیا وہ ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ پھر جاپانیوں نے جرمنی کو بھی چھوڑ دیا۔ وجہ یہ تھی کہ جرمن اگرچہ ایک وابستہ بہ زمین (Land Lockad) قوم نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جو کارنامے انجام دیئے، وہ ساری دنیاکے سامنے تھے۔جرمن آرمی نے رومیل، گڈیرین اور مین سٹین جیسے فیلڈ مارشل پیدا کئے۔لیکن برطانیہ کی بات دوسری تھی۔ اس نے ویول، منٹگمری، الیگزنڈر اور ولیم سلم جیسے عسکری رہنما اور فیلڈ مارشل پیدا کئے۔ جاپان اور جزائر برطانیہ کا جغرافیہ ایک طرح کا تھا(اور ہے) اس لئے جاپانیوں نے برطانوی فوج کی تقلید کی اور سب سے پہلے اپنی بحریہ (Navy)کو مضبوط بنایا۔ جاپانی افسروں کی ایک بڑی تعداد کو جرمنی اور برطانیہ بھیجا اور ان کو وہاں کی وار اکیڈیمیوں میں ٹریننگ دلوائی۔
اب اسے اتفاق سمجھا جائے یا کچھ اور کہ یاماموتو کو 1901ء میں جاپان کی نیول اکیڈیمی میں داخل کرلیا گیا۔(جاری ہے)