حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ

حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ
حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدرویؒ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آغا شورش کاشمیری زندہ تھے تو ایک دن حکیم عنایت اللہ نسیم کے سامنے یہ چیلنج پیش کردیا....جناب نسیم! مَیں قیامت کے روز تم سے پوچھوں گا کہ تم نے اپنے استاد مولانا ظفر علی خان پر کیا لکھا؟
نسیم سوہدروی آغا شورش کے اس چیلنج پر مسکرا دیئے۔ جواب میں فی البدیہہ کہا:”مَیں قیامت کے روز مولانا ظفر علی خان کی خدمت میں اپنی کتاب ”ظفر علی خان اور ان کا عہد“ پیش کرکے عرض پرواز ہوں گا۔” مَیں نے اپنے استاد کا نام زندہ رکھا“....اب اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب خانوادئہ ظفر علی خان کے سب افراد ان کے نام کو زندہ رکھنے کی اہلیت سے محروم ہو چکے تھے تو حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی نے اخبارات و رسائل ،انجمنوں اور محفلوں میں ان کا ذکر اس تسلسل و تواتر سے کیا کہ وہ خود ظفر علی خان کا ”پروٹوٹائپ“ تسلیم کئے جانے لگے۔
عنایت اللہ نسیم سوہدروی کی ذہنی ،مذہبی اور سیاسی آبیاری مولانا ظفر علی خان نے کی تھی۔وہ ستمبر1911ءمیں وزیرآباد کے ایک نواحی گاﺅں سوہدرہ کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے، لیکن ابتدائی تعلیم مشن سکول وزیرآباد میں حاصل کی ،جس میں مشہور مستشرق ڈاکٹر گراہم بیلی طلبہ کو ایک خاص انداز میں پڑھاتے تھے، ایک خاص طریقے سے ان کی شخصیت سازی کرتے تھے۔ اس زمانے میں مولانا ظفر علی خان کی نظر ان پر پڑ چکی تھی، چنانچہ میٹرک کے بعد مولانا نے ہی انہیں علی گڑھ یونیورسٹی میں جانے کا مشورہ دیا۔نسیم سوہدروی اگرچہ طب کے طالب علم تھے، لیکن علی گڑھ یونیورسٹی کی ادبی، تہذیبی اور سیاسی فضا نے ان کے دل میں سیاست اور ادب کی شمع روشن کردی۔سیاسی شعور نے ان کی اسلامی حمیت کو بیدار کیا۔
قادیانیت کے خلاف حکیم صاحب کی پہلی مورچہ بندی 21اکتوبر 1933ءکو عمل میں آئی۔ اس مہم میں حافظ فضل الرحمان انصاری، حافظ صدیق احمد صدیق اور محمد شریف چشتی جیسے طلباءان کے معاون تھے۔ ان میں سے جناب فضل الرحمان انصاری بعد میں مولانا شاہ احمد نورانی کے بہنوئی اور مولانا عبدالعلیم صدیقی کے داماد بنے۔
1934ءمیں قادیانیوں نے مسلم عوام کو دھوکا دینے کے لئے سیرت کے نام پر علی گڑھ کی لائل لائبریری میں ایک جلسہ عام کا اعلان کیا تو اس میں خواجہ غلام السیدین اور پروفیسر ایبی حلیم کے نام بھی شامل کئے گئے۔حکیم نسیم اور ان کے رفقاءنے اس باطل کا پردہ چاک کرنے کے لئے مولانا ظفر علی خان کو علی گڑھ مدعو کرنے کا فیصلہ کیا۔ظفر علی خان تشریف لائے تو یونیورسٹی کی فضا تبدیل ہو گئی۔ یونیورسٹی کے انگریز پرووائس چانسلر مسٹر رامزے باتھم گھبرا گئے۔مشہور کانگریسی پروفیسر حبیب نے مولانا ظفر علی خان کو یونیورسٹی کے آفتاب ہال میں تقریر کرنے کی اجازت نہ دی، لیکن اس وقت تک حکیم نسیم سوہدروی طلباءکو اس بات پر آمادہ کر چکے تھے کہ مولانا ہر حال میں تقریر کریں گے، چنانچہ مولانا ظفر علی خان نے مقررہ وقت پر آفتاب ہال میں تقریر کی۔یونیورسٹی میں حکام کی اجازت کے بغیر تقریر کرنے کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔اس سے قبل مولانا محمد علی جوہر نے اجازت کے بغیر تقریر کی تھی۔

اس سلسلے کا ایک اور اہم واقعہ یہ ہے کہ 1937ءمیں علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سرضیاءالدین نے سر ظفر اللہ خان کو، جو وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن تھے، کانووکیشن ایڈریس پڑھنے کی دعوت دی۔ مسلمان طلباءنے ،جن میں نسیم سوہدروی پیش پیش تھے، فیصلہ کیا کہ اس دعوت کو ہر صورت میں منسوخ اور ظفر اللہ خان کی تقریر کی مخالف کی جائے۔ اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے قاری نور احمد صمدانی ، محمد شریف چشتی، سردار عبدالوکیل اور حکیم نسیم سوہدروی پر مشتمل ایک وفد لاہور میں علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے ایک میمورنڈم پر دستخط کرانے میں کامیاب ہوگیا۔یہ میمورنڈم فضل کریم درانی ایڈیٹر ”ٹروتھ“(Truth)نے تیارکیا تھا اور اس پر علامہ کے علاوہ مولانا ظفر علی خان، علمائے امت اور اکابرین ملت نے دستخط کئے تھے۔یہ میمورنڈم ممبران یونیورسٹی کورٹ کو بھیجا گیا اور وسیع پیمانے پر یونیورسٹی میں تقسیم کیا گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ سرظفر اللہ خان کا کانووکیشن ایڈریس منسوخ ہوگیا۔
حکیم نسیم سوہدروی نے 1935ءمیں گوجرانوالہ کی احتجاجی تحریک میں سرگرم حصہ لیا۔1936ءمیں پٹنہ سیشن، 1940ءمیں لاہور سیشن اور 1942ءمیں ولی سیشن میں شریک ہوئے۔1945ءمیں وہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے حلقہ انتخاب میں سرگرم عمل رہے۔14اگست 1947ءکو آزادی پاکستان کا اعلان ہوا تو نسیم سوہدروی صوبہ یوپی میں بلند شہر کے قریب ایک گاﺅں پگدہ میں مقیم تھے۔بلند شہر میں ہندوﺅں نے مذہبی کشیدگی پیدا کردی تو ان پر بھی قاتلانہ حملے کی کوشش کی گئی، لیکن مسلمان میواتیوں کے ایک سرکردہ رکن چھیدا خان میواتی نے اس حملے سے قبل ہندوﺅں کے گھر جلادیئے۔بلوہ کرنے والوں کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ بھاگ گئے۔ حکیم نسیم اپنے بچوں کو لے کر پاکستان آ گئے۔
آزادی کے بعد سیاست اور معاشرے نے جو رخ اختیار کیا، وہ نسیم سوہدروی کے مزاج کے مطابق نہیں تھا۔وہ تحریک پاکستان کے دور میں پکے مسلم لیگی تھے، لیکن آزادی کے بعد وہ جماعت اسلامی سے منسلک ہوگئے۔یہ تعلق زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی راہ الگ کی تو حکیم نسیم سوہدری بھی ان کے ساتھ چلے گئے، لیکن کچھ عرصے کے بعد انہوں نے رسمی طور پر پھر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی، لیکن میرا اندازہ ہے کہ انہوں نے عملی سیاست میں حصہ لینے کی بجائے قلم و قرطاس کے ساتھ مضبوط رشتہ قائم کرلیا اور ملک کے تمام قومی اخبارات میں تحفظ و استحکام پاکستان اور دین مبین کے نفاذ کے لئے مضامین لکھنے لگے۔ان کا آخری مقالہ ان کی وفات کے بعد ”نوائے وقت“ لاہور میں شائع ہوا.... ”علی گڑھ کے تین نامور فرزند“ اور ”ظفر علی خان اور ان کا عہد“ حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی کی یادگار تصانیف ہیں، ان پر ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر مسکین حجازی، ڈاکٹر ظفر علی راجا، مجیب الرحمن شامی، عبدالسلام خورشید، سعدی سنگروری اور متعدد نامور اہل قلم نے تبصرے لکھے۔ ان کی کتابیں سیرت رسول کامل ،قائداعظمؒ اور مردم دیدہ زیرطبع ہیں۔ ٭

مزید :

کالم -