فولنگ
گزشتہ رات کو تقریباً 7بجے کے قریب ایک لڑکی (جس کا مَیں نام یہاں پر ظاہر نہیں کروں گا) کی طرف سے میری فیس بُک (id) جو کہ (Malik Muhammad Jamshaid Azam Official) کے نام سے ہے پر اس کی طرف سے (Friend Request) آئی۔ مَیں اس کو جانتا تو نہیں تھا، لیکن پھر بھی (Accept)کر لی،وہ لڑکی میری کالم ریڈر نکلی۔ پہلے تو اس نے مجھے کالم نویسی شروع کرنے پر مبارکباد دی، پھر اس نے کہا کہ ملک صاحب مَیں نے آپ کے تمام کالم پڑھے ہیں، جو کہ بہترین ہیں اور ہر کالم میں ایک نئی بات ہوتی ہے، پھر اس نے ایک فقرہ کہا جو بہت معنی رکھتا تھا، جس پر مَیں سوچتا گیا اور تحریریں خود بخود بنتی گئیں۔ اس نے کہا ملک صاحب آپ کے کالم بے شک نصیحت آمیز ہیں، لیکن کوئی بھی کالم نگار کالجوں میں ہونے والی ’’فولنگ‘‘پرکالم نہیں لکھتا، اس کی باتوں سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ ’’فولنگ‘‘کو بہت فضول کام سمجھتی تھی اور بقول اُس کے اُس نے اس فضول کام میں ٹائم ضائع کر کے اپنا بہت نقصان کیا ہے اور پڑھائی کی بجائے ایسے مشاغل میں ٹائم ضائع کر کے اپنی تعلیم کا بھی بہت ہرجانہ کیا ہے۔
مجھے اس کا شکوہ صحیح لگا اور اس کی بات میں کافی وزن محسوس ہوا، کیونکہ حالات وواقعات کے تناظرمیںیہ بات100فیصد ٹھیک تھی۔ واقعی آج کل ’’فولنگ‘‘ کالجوں میں بہت کثرت سے پھیل چکی ہے۔مَیں جس کالج میں پڑھتا تھا وہ بالکل نیا سٹارٹ ہوا تھا اور تمام کلاسز پہلی بار شروع ہونے کی وجہ سے ہم سے کوئی سینئر تو تھا نہیں اس لئے ہماری توکبھی ’’فولنگ‘‘ نہیں کی گئی تھی، لیکن آس پاس کے تجربات سے واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس پر صرف ایک نہیں کئی کالم لکھنے چاہیں، کیونکہ اس کا سدباب بہت ضروری ہے ۔پاکستان میں بے شمار کالج ہیں،جن میں بے شمار طالب علم زیرِتعلیم ہیں۔اگر اس چیز کو ختم کر نے کے لئے اقدامات نہ کئے گئے تو یہ معاشرے میں اُس لڑکی کی طرح مزید طالب علموں کی تباہی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
ہمارے ملک میں بے شمار اخبارات ،کالم نگار، الیکٹرانک میڈیا ہے، جن کی شہ سرخیاں چیخ چیخ کر حکومت کی کارکردگی کے بارے میں تو بتا رہی ہوتی ہیں کہ فلاں فردکرپشن کررہاہے اور فلاں فرد لوٹ مار کرنا اپنا حق سمجھتا ہے، لیکن کوئی بھی ایسے تعمیری کاموں کی طرف توجہ نہیں دلاتا۔ کالج اور تعلیمی ادارے ایک بچے کی زندگی کو بناتے اور سنوارتے ہیں۔تمام والدین بچوں کو کالجوں میں اس لئے بھیجتے ہیں تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں، لیکن اگر بچے ایسی فضول سرگرمیوں کو اپنا کر اور پڑھائی کی بجائے ’’فولنگ‘‘جیسے فضول مشاغل میں ٹائم ضائع کریں تو یہ ایک بہت خطرناک بات ہے۔طالب علم ایسے فضول مشاغل سے نہ صرف اپنا ٹائم ضائع کرتا ہے، بلکہ اپنے دوسرے کلاس فیلوز کے وقت کا بھی ضیاع کرتاہے۔
تمام اساتذہ کو بھی چاہئے کہ وہ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسی تعلیم سے بھی طلبہ کو ہمکنار کروائیں اور کلاسوں میں اس موضوع پر روزانہ پانچ یا دس منٹ کا لیکچر دینے کے ساتھ ساتھ ایسے تمام طالب علم جو ان عناصر کا حصہ بن رہے ہیں ان کی نشاندہی کر کے ان کی سختی سے ڈانٹ ڈپٹ کریں اساتذہ کے اسطرح کے اقدامات سے 50فیصد ’’فولنگ‘‘کی روک تھام میں مدد ملے گی۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ایسے لڑکے جو نالائق اور پڑھائی میں کمزور ہوتے ہیں خود تو اس لعنت میں مبتلا ہوتے ہی ہیں،لیکن وہ اپنے ساتھ ایسے لڑکے کا مستقبل بھی تباہ کرتے ہیں جوپڑھائی میں اچھے ہوتے ہیں۔ کالجوں کا آج کل رزلٹ اچھا نہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالب علم پڑھائی پرکم اور ایسے فضول کاموں پر زیادہ دلچسپی سے توجہ دیتے ہیں۔ طالب علموں کی ایسی لاپرواہیوں سے والدین کے پیسے کا ضیاع بھی ہوتا ہے اور اُنہیں اچھے رزلٹ بھی نہیں ملتے۔