ساڑھے گیارہ بجے تک فیصل آباد شہر کُھلا تھا

ساڑھے گیارہ بجے تک فیصل آباد شہر کُھلا تھا
ساڑھے گیارہ بجے تک فیصل آباد شہر کُھلا تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
                      تماشائیوں کا تو کبھی کچھ نہیں بگڑا، لیکن جس ماں کے لختِ جگر کے سر پر بیس روز بعد سہرہ سجنے والا تھا کوئی اس کے دکھ کا بھی اندازہ کرسکتا ہے ؟ کہ اب سہرے کے یہ پھول اس نوجوان کی تربت پر سج گئے ہیں۔ جس کسی نے گولی چلائی اس کے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہوئی اور جس نے نہیں چلائی وہ بھی اس کی زد میں آگیا۔ پستول کی گولی چلانے والا تو فوٹیج میں ایک ہی نظر آرہا ہے لیکن ایف آئی آر میں دس لوگ نامزد ہوگئے ہیں کیا پستول بردار بھی دس ہی تھے تین سو نامعلوم افراد بھی لپیٹ میں آگئے ہیں گویا ثابت یہ کیا جارہا ہے کہ اس نوجوان کو تین سو دس افراد نے مل کر مارا، خیر یہ تو قانون جانے اور اس کی تفتیش کرنے والے جانیں، میرا دکھ تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس نوجوان کو تو واپس نہیں لاسکتا جو گولی کا نشانہ بن گیا۔ دھرنے کامیاب ہوں یا ناکام اس جیسے لوگوں کے حصے میں تو پھر بھی محرومیاں ہی لکھی ہیں۔
اطلاع کے مطابق فیصل آباد شہر معمول کے مطابق کھلا اور گیارہ ساڑھے گیارہ بجے تک کھلا رہا، اس وقت تک سڑکوں پر ٹائر وغیرہ جلانے کی وارداتیں ہورہی تھیں، ٹولیوں میں بٹے ہوئے لوگ ٹریفک کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کررہے تھے لیکن شہرپوری طرح کھل چکا تھا، دفاتر اور تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز اور دکانیں سب کھلی تھیں، ٹریفک میں بھی بظاہر رکاوٹ نہ تھی، اگر نوجوان حق نواز کا خون نہ ہوتا تو شاید سب کچھ نارمل ہی رہتا لیکن ایسا نہ ہوسکا، نوجوان کے مرنے کی دیر تھی کہ شہر بند ہونا شروع ہوگیا، کاروباری لوگ اس خوف کی زد میں آگئے کہ اب ردعمل ہوگا اور دکانیں زبردستی بند کرانے کی کوشش کی جائے گی، چنانچہ لوگوں نے کھلی ہوئی دکانیں خود ہی بند کرنا شروع کردیں۔
جو لوگ سڑکوں پر ٹائر جلاکر ٹریفک بند کرانے کی کوشش کررہے تھے، انہیں چند پولیس والے بڑی آسانی سے روک سکتے تھے، لیکن انہوں نے تعرض نہ کیا، سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے جو حکمت عملی اپنائی کیا وہ کسی وقتی ردعمل کا نتیجہ تھی یا باقاعدہ سوچ بچار کے بعد تحریک انصاف کو جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، یہ جو بھی تھی، دانش اور سوچ بچار سے خالی نظر آئی، اور یہ محسوس کیا گیا کہ اگر دھرنے کی طرح اس احتجاج سے بھی آنکھیں بند کرلی جاتیں تو زیادہ بہتر ہوتا اور یہ دن بھی امن سے گزر جاتا۔
فیصل آباد کا احتجاج کیوں پرامن نہ رہ سکا ؟ کیا اس کی ذمہ داری ان اشتعال انگیز بیانات پر عائد کی جائے گی جو گزشتہ کئی دن سے دیئے جارہے تھے یا ان شعلہ بارزبانوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا جو کئی ہفتوں سے جلاﺅ گھیراﺅ کا ذکر اس انداز میں کررہی تھیں کہ جیسے یہ چاند ماری کی کوئی مشق ہو، ایسے لگتا ہے کہ پرامن دھرنوں کی طوالت سے بھی کچھ شخصیتیں اکتا گئی تھیں، ان دھرنوں سے کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا، بلکہ یہ چند گھنٹوں کی ایک روٹین بن کررہ گئی تھی، مقررہ وقت پر کچھ لوگ سج سجا کر دھرنے میں پہنچ جاتے عمران خان بھی بنی گالہ کے پر فضا محل سے نکل کر کنٹینرپر آتے جوشیلی تقریر کرتے تھے جواب محض چند الفاظ کے دھرانے پر محدود ہوکر رہ گئی تھی لیکن ان کا نتیجہ تو کچھ نہیں نکل رہا تھا۔اور کسی کی حسب خواہش تو بالکل بھی نہیں، اسلام آباد سے نکل کر اگر مختلف شہروں میں جلسے بھی کئے گئے تو وہ بھی محض اس امر کا اظہار تھا کہ تحریک انصاف جہاں چاہے، جب چاہے جلسہ کرسکتی اور طاقت کا اظہار کرسکتی ہے لیکن جب پلان سی کا اعلان ہوا تو کچھ لوگوں کا ماتھا ٹھنکا کہ اب شاید امن قائم نہ رہ سکے اس لئے کہ اگر شہر کو بند کرنے کے لئے کچھ لوگ نکل کھڑے ہوں اور بعض دوسرے لوگ انہیں روکنے کی کوشش کرتے دکھائی دیں تو پھر کہیں نہ کہیں جذبات بے قابو تو ہوجاتے ہیں،فیصل آباد میں یہی ہوا جس طرح کا صبروتحمل گزشتہ چارماہ سے دکھایا جارہا تھا اگر ایسا ہی مظاہرہ یہاں بھی کیا جاتا تو یہ دن بھی امن وسکون سے گزر سکتا تھا، لیکن شاید کچھ لوگوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تھا کہ انہوں نے کچھ کرنے کی ٹھان لی، اور یوں شہر کو بند کروانے کا باعث بن گئے، اب عمران خان نے آج (منگل ) ملک بھر میں یوم سوگ کا اعلان کردیا ہے دیکھیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے لیکن اس آگ کو پھیلنے سے روکنا ہوگا، اس کا دائرہ پھیل گیا تو تشدد کا مزید کھیل بھی کھیلا جائے گا۔ جو لوگ گھیراﺅ ،جلاﺅ مارڈالو اور ماردو کی تلقین کررہے تھے ان کے جذبات کو تو جلاﺅ گھیراﺅ سے شاید کچھ تسکین ہو جائے لیکن اس آگ کو اسی جگہ ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے فیصل آباد کے واقعات سے وقتی طورپر کچھ لوگوں کی سیاست کو مہمیز لگ جائے لیکن زندگی کے چراغ گل کرکے سیاسی تماشا دیکھنے والوں کو بالآخر مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فیصل آباد کے واقعات میں جلاﺅ گھیراﺅ کی تقریروں کا بہرحال ایک کردار ہے۔


مزید :

تجزیہ -