خاموش بکرا
آپ نے زندگی میں کئی بکرے دیکھے ہوں گے اور کھائے بھی ہوں گے۔ بڑی عید پر تو ہر پاکستانی بچہ اور بڑا بکروں کی جملہ صفات سے آگاہ ہو ہی جاتا ہے، جیسے دو دانتوں والا، چار دانتوں والا، چھ دانتوں والا اور دودھ کے دانتوں والا بکرا۔ مزید برآں پہاڑی، میدانی، چھوٹے کانوں والا، بڑے کانوں والا، پستہ قد، قد آور، سینگ والا، بغیر سینگ والا، دنبے، چھترے، نرینہ اوصاف والے اور بغیر نرینہ اوصاف کے لیکن صاحب ان سب بکروں میں وہ صفت نہیں جو ہمارے خاموش بکرے میں ہے۔ یہ سب بکرے جہاں من پسند چارہ دیکھتے ہیں ٹوٹ پڑتے ہیں۔ دوسرے بکروں کو ٹکریں مار مار چارے سے دور بھگاتے ہیں اور چارے کو سونگھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کھانے لائق ہے یا نہیں جبکہ ہمارا خاموش بکرا خود چارہ کھائے یا نہ کھائے بکری اور میمنوں کے لئے ضرور لے جاتا ہے۔ صبح سے شام تک کئی چراگاہوں میں کئی د شوار گزار گھاٹیوں اور مُنہ زور دریاؤں سے گزر کر چارہ اکٹھا کرتا ہے۔ ظاہر ہے جلدی میں وہ فرق نہیں کر پاتا کہ چارہ کھانے لائق ہے یا نہیں۔ کھاتے سب ہیں پر حساب اسی کو دینا ہو گا۔ دیگر بکرے تو بارش، سردی، گرمی میں ’’مَیں، مَیں‘‘ کر کے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں پر ہمارا خاموش بکرا چُپ چاپ ان موسموں کا مقابلہ کرتا ہے۔ دوسرے بکروں کے برعکس ہمارا خاموش بکرا کھیلوں کا پروموٹر ہے۔ قومی کھیل مثلاً لانگ مارچ، ٹرین مارچ، جلسہ، دھرنا، انقلاب، کافر مسلم، مقامی لسانی، بڑا صوبہ، چھوٹا صوبہ سب میں یہی بکرا کام آتا ہے۔ گھریلو سطح پر والدہ، ساس، بیگم اور نندوں کی چومکھی ٹیبل ٹینس میں بال یہی ہوتا ہے۔ دوسرے بکرے تو ایک بار چھری تلے آتے ہیں اور کام ختم، جبکہ یہ بکرا کئی بار چھری، ٹوکے، تلوار، کلہاڑی اور بعض اوقات بلڈوزر تلے آتا ہے، مگر اس کا جرم معاف نہیں ہوتا۔ اِسی لئے غالب نے اس کے حق میں آواز بلند کی تھی: ’’مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا‘‘ کیا ہوا اس خاموش بکرے کی دم نہیں۔ کیا ہوا اس کے سینگ نہیں، کیا ہوا اس کی صرف دو ٹانگیں ہیں، لیکن جناب اس کے دانت تو بتیس ہیں، جنہیں یہ اکٹھے دکھانا بھول گیا ہے۔ اس کی فراخدلی ملاحظہ کریں کہ ہر ملک، ہر قوم، ہر علاقے، ہر زبان اور ہر نسل میں پایا جاتا ہے، لیکن اس نے آج تک اپنے حقوق کے لئے کوئی تنظیم نہیں بنائی۔ کوئی عالمی دن اس کے نام سے منسوب نہیں۔ اقبال نے جب کہا ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ اس نے اپنی روایتی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو بھی قبول کر لیا، حالانکہ اس سے زیادہ کردار شاید ہی کوئی نبھاتا ہے اور اگر یہ دنیا میں نہ ہوتا تو نہ کوئی شوہر ہوتا نہ بیٹا ہوتا، نہ افسر ہوتا نہ ماتحت، نہ لیڈر ہوتا نہ ورکر، نہ راشی ہوتا نہ مرتشی، نہ امام ہوتا نہ مقتدی، نہ دولہا ہوتا نہ باراتی، جورو ہوتی پر غلام نہ ہوتا، نہ فوجی ہوتا نہ سپہ سالار، نہ مزدور ہوتا نہ تاجر۔ غرض اس کائنات میں اسکے رنگوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ہمارے ایک دوست سلیم الدین شیخ نے اس بکرے کی خاموش قربانی کی داستان کچھ یوں رقم کی ہے ’’لڑکا / مرد کون ہے؟ یہ وہ ہے جو چھوٹی سی عمر میں سمجھوتے شروع کر دیتا ہے۔و ہ اپنی چاکلیٹ اپنی بہن کے لئے قربان کر دیتا ہے، پھر اپنی محبت اپنے والدین کی ایک مسکراہٹ کے لئے قربان کر دیتا ہے، اپنی انا ان سب کی بقاء کے لئے، اپنی پوری جوانی اپنے بچوں کے لئے کسی شکایت کے بغیر قربان کر دیتا ہے۔ یہ اللہ کی وہ مخلوق ہے، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا‘‘۔ دوستو! اس بکرے نے خاموشی سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور ابھی تک حالت جنگ میں ہے۔ آئیے اس خاموش ہستی کا احترام کریں اور یہ مطالبہ کریں کہ پوری دنیا میں کوئی عالمی دن اس کی خدمات کے نام بھی ہو۔ (کالم نگار بیکن ہاؤس سکول میں اردو کے استاد ہیں)