گلشن راوی پولیس نے زیر حراست دو نو عمر لڑکوں کو جعلی مقابلہ میں ہلاک کیا ،ورثا کا الزام
لاہو ر(رپورٹ۔محمد یونس باٹھ ،جمیل گجر) گلشن راوی میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے دونوں نوعمر لڑکوں کے جسم کی ہڈیاں بازو، گردن اورٹانگیں ٹوٹی ہوئی تھیں ۔ جسم پر تشدد کے واضح نشانات تھے، دونوں کی کلائیوں پر ہتھکڑیاں اور بازوں پر ر سے کیساتھ لٹکائے جانے کے نشانات ہیں۔مبینہ مقابلے سے دوروز قبل انھیں گھرسے اٹھایاگیاایک کا نام عبدالعظیم عمر 15سال اور دوسرے کا نام فیصل خان عمر 17 سال ہے ۔ دونوں کے ورثا انتہائی غریب اور محنت مزدوری کرتے ہیں ۔ ایس ایچ اوگلشن راوی ان سے لڑکوں کی رہائی کے عوض مبینہ طور پر بھاری رشوت لینا چاہتے تھے نہ دینے پر اس نے انھیں جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا۔ متاثرین نے چیف جسٹس پاکستان سے از خود نوٹس لینے کامطالبہ کیاہے۔ تفصیلات کے مطابق ستائیس اور اٹھائیس نومبر کی درمیانی شب ایس ایچ اور گلشن راوی سب انسپکٹر حسین فاروق اور ان کی ٹیم نے رستم پار ک میں ایک مبینہ پولیس مقابلے کے دوران دونوعمر لڑکوں کو ہلاک کردیا اور موقف اختیار کیا کہ ان کی ٹیم گشت پرتھی کہ موٹرسائیکل سوار دوڈاکو آئے جنہیں انہوں نے رکنے کا اشارہ کیا توانہوں نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کردی ،پولیس کی جوابی فائرنگ سے دونوں ڈاکو ہلاک ہوگئے ۔اس مبینہ مقابلے کے اصل حقائق جاننے کیلئے جب پاکستان اخبار کی ٹیم انکے گھر پہنچی تو معلوم ہوا کہ فیصل خاں ولد غنی محمد جوکہ چمن کالونی شاہدرہ کا رہائشی تھا ۔اس کے ورثا سے اس مقابلے کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو فیصل کے والد نے بتایا کہ اس کے چھ بیٹے اور آٹھ بیٹیاں ہیں فیصل چوتھے نمبر پر تھا وہ شوزبنانے کی ایک فیکڑی میں کام کرتاتھا جبکہ وہ خود محلے کی چوکیداری کرکے بچوں کا پیٹ پالتاہے اس کے بیٹے کی عمر 17سال تھی جبکہ مقابلے میں ہلاک ہونے والے دوسرے نوعمر لڑکے عبدالعظیم سے ان کے بیٹے کا کسی قسم کا کوئی خونی تعلق یا رشتے داری نہیں دوستی کی حد تک ایک دوسرے کو ملتے تھے۔ لاہور پولیس نے عبدالعظیم کے خلاف چند ایک جھوٹے مقدمات کا اندراج بھی کررکھا ہے۔ جوکہ مقامی عدالت نے مقدمات جھوٹے ثابت ہونے پر خارج بھی کردئیے ہیں۔ اس وقوعہ سے دوروز قبل گلشن راوی پولیس نے اسکے بیٹے کوموبائل پر فو ن کرکے دھوکے سے گھرکے باہر بلوایا اور اس کو گرفتارکرلیا،اس گرفتاری کے بارے میں وہ بے خبرتھے کہ اسی دوران انہیں ایک مخبر شخص نے بتایاکہ ان کے بیٹے کو اس کے ساتھی سمیت گلشن راوی پولیس لے گئی ہے اگر آپ ایک لاکھ روپے کا بندوست کرلیں تووہ اس کو پولیس سے رہائی دلواسکتاہے۔ ہمارے یہ کہنے پر کہ ہم غریب ہیں اور ان کا بیٹابھی بے گناہ ہے وہ کس جرم کے پیسے دیں تو وہ خاموش ہوگیااور کہنے لگاتمہیں خود ہی معلوم ہوجائے گاوہ اپنے بیٹے کئی تلاش میں گلشن روای تھانے بھی گئے مگروہاں سے پتہ چلاکہ یہاں نہیں ہے ۔بعدازاں وقوعہ کی صبح انہیں معلو م ہوا کہ ان کے بیٹے کو گلشن راوی پولیس نے ایک جعلی مقابلے میں ہلاک کردیاہے جو کہ ان کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے اور یہ پو لیس گر دی ہے ۔ وہ اس اطلاع کے بعد تھا نہ گلشن راوی گئے تو ایس ایچ اونے ہمیں اپنے کمرہ میں بٹھایا چائے وغیرہ پوچھی ہمارے اس اصرار پر کہ ہمارا بیٹاکہاں ہے ایس ایچ او اورکچھ بتائے بغیروہاں سے چلے گئے اور اگلے روز آنے کوکہاجب ہم وہاں سے واپس آئے تو کال آئی کہ آپ کے بیٹے کی نعش مردہ خانہ میں پڑی ہے جب ہم نے وہاں پہنچ کرنعش دیکھی تووہ منظر ہمارے لئے کسی قیامت سے کم نہیں تھا ہم نے اپنے بیٹے کی نعش پوسٹمارٹم کے بعد جب وصول کی توجسم پر تشدد کے واضح نشانات نظرآرہے تھے جسم کی ہڈیاں بازو ،ٹانگیں ،گردن اور پنڈلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں ہم پچیس تیس سال سے اس کالونی کے رہائشی ہیں ہم بہت عزت داراورپٹھان قوم سے تعلق رکھتے ہیں علاقے کا کوئی بھی شخص ہماری شرافت سے انکار نہیں کرسکتا۔پولیس نے میرے نوعمر بیٹے کو ایک جعلی مقابلے میں ہلاک کرکے ہمارے ساتھ بہت ظلم کیاہے ۔ہمارے خاندان میں سے کسی نے آج تک تھانہ نہیں دیکھا ،ہمار ابچہ بے قصور ماراگیاہے اب میں کس ظالم کے ہاتھ پر اپنے بیٹے کا خون تلاش کروں میرے بیٹے کو دماغ کے اوپررکھ کر تین گولیاں ماری گئی ہیں مقامی لوگوں نے فیصل کے بارے موقف اختیار کیاہے کہ وہ ایک شریف اور ایماندار لڑکا تھا پولیس نے اس خاندان کے ساتھ بہت ظلم کیاہے ۔ پولیس کے مبینہ مقابلے میں جاں بحق ہوینوالے فیصل خاں کے والد غنی محمد، بھائی عبدالسلام ،بہنیں ،والدہ اور دیگر قریبی رشتے داروں نے چیف جسٹس پاکستان سے اس وقوعہ کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ ہے اور آئی جی پولیس پنجاب سے اپیل کی ہے کہ یہ جعلی مقابلہ ہے اس کے ذمہ داروں کے خلاف قتل اور دہشت گردوں کی دفعات کے تحت مقدمہ در ج کیاجائے ورنہ وہ پنجاب پولیس کے خلاف احتجاج کریں گے۔گلشن راوی کے علاقہ میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونیوالے فیصل کے دوسرے ساتھی عبدالعظیم کے گھروالوں سے رابط کرنے پر معلوم ہواکہ اس کی عمر 15 سال اور وہ اپنے آٹھ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھاعبدالعظیم کے والد عبدالمطلب ،چچا عبدالوھاب اور دیگر رشتے داروں نے بتایاہے کہ ان کے بیٹے کوکچھ عرصہ قبل ساندہ پولیس نے ڈکیتی کے جھوٹے مقدمات میں جیل بھجوایا تھااور دودرجن سے زائد ڈکیتی کے مقدمات میں اسے ملوث کردیاجن میں سے پندرہ مقدمات مقامی عدالت نے خارج کرکے اسے رہائی دیدی۔ ان کے بیٹے کو موٹرسائیکل پرکرتب دکھانے کا شوق تھا ان کابیٹاڈاکو نہیں، پولیس نے وقوعہ کے دوروز قبل دھوکے سے اسے گرفتار کیا اور تشدد کرکے اس کے جسم کی ساری ہڈیاں توڑدیں اور بعدازاں ایک جعلی مقابلے میں پارکردیا۔ وہ امین پارک بند روڈ کے رہائشی اور شریف شہری ہیں محنت مزدوری کرکے اہل خانہ کی کفالت کرتے ہیں پہلے بھی گرفتاری کے دوران پولیس ان سے لاکھوں روپے رہائی کے عوض بٹورنا چاہتی تھی اب بھی پولیس رہائی کے عوض مبینہ طورپر رشوت لینا چاہتی تھی نہ دینے پر انہوں نے ان کے بیٹے کو جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا ہے جوکہ پولیس گردی ہے اور ارباب اختیار کو اس کا نوٹس لیناچاہیے ۔ گلشن راوی پولیس کے ہاتھوں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونیوالے فیصل خاں اورعبدالعظیم کے ورثا،قریبی رشتے داروں اور محلے داروں نے پولیس گردی کے خلاف احتجاج بھی کیاہے اور ماورائے عدالت قتل کرنے پر چیف جسٹس پاکستان اورچیف جسٹس ہائی کورٹ سے سوموٹو نوٹس لینے کا مطالبہ کیاہے او ردھمکی دی ہے کہ اگر ان کے بچوں کی ہلاکت کا مقامی ایس ایچ اور دیگر زمہ دار اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج نہ ہوا تو وہ آئی جی، اسمبلی ہال اور ڈی آئی جی لاہورکے دفاتر کا گھیراؤکریں گے ۔ڈی آئی جی لاہور ڈاکٹر حیدراشرف نے اس مبینہ مقابلے کے بارے میں موقف اختیار کیاہے کہ مقابلہ اصلی تھا دونوں ملزموں کی مقابلے سے قبل گرفتاری والی بات میں صداقت نہیں ہے۔ وقوعہ کی جوڈیشنل انکوائری جاری ہے اگر مقابلہ جعلی ہوا تو ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔