’’ انجینئرنگ یونیورسٹی سے محبت کے ساتھ‘‘
میں انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخل ہوا تو وہ بادلوں اور دھند میں چھپی ہوئی تھی، یہ وہ بادل نہیں تھے جو ملکہ کوہسار مری کو چومنے کے لئے فلک سے اترتے ہیں اور یہ وہ دھند بھی نہیں تھی جس کی وجہ سے ہماری موٹر وے انہی دنوں اکثر بند ہوتی ہے، یہ دھندلاہٹ اس مٹی اور دھول کی وجہ سے تھی جواورنج لائن کی تعمیر کے لئے اڑ رہی تھی۔مجھے برادرم رانا تنویر قاسم نے یونیورسٹی میں باقاعدہ طور پر منعقد ہونے والے پہلے کتاب میلے میں مدعو کیا تھا ۔ جب میں گیٹ نمبر تھری سے مین آڈیٹوریم کی طرف جا رہا تھا تو میرے ذہن میں انجینئرنگ یونیورسٹی کی ایک وہ تصویر بھی تھی جس میں یہاں جمعیت، ایم ایس ایف اور پی ایس ایف کے باقاعدہ مورچے لگا کرتے تھے، فائرنگ ہوا کرتی تھی اور مائیں اپنے ہونہار بچوں کی گھر محفوظ واپسی کے لئے امام ضامن باندھ کر بھیجا کرتی تھیں۔ یقینی طور پر آج میر اموضوع تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس یونینوں کے حق یا مخالفت میں بحث نہیں لیکن جب میں پاکستان کے اس عظیم الشان ادارے کے بارے میں پہلی مرتبہ لکھ رہا ہوں تویہ ممکن ہی نہیں کہ میں اس کے سابق وائس چانسلر جنرل ریٹائرڈ محمد اکرم خان کاذکر نہ کروں جنہوں نے سیاست ہی نہیں بلکہ غنڈہ گردی کے لئے بھی بدنام اس یونیورسٹی کو تعلیم اور امن کا گہوارہ بنا دیا۔ یہ موضوع آج بھی زیر بحث رہتا ہے کہ ہمیں پروفیشنل اداروں کے سربراہ نان پروفیشنل لوگ لگانے چاہئیں یا نہیں، جیسے ہماری ڈاکٹروں کی برادری قائل کرتی ہے کہ کسی ہسپتال کا سربراہ کسی ڈاکٹر کو ہی ہونا چاہئے، نان پروفیشنل سربراہ اس پروفیشنل اداروں کی ضروریات نہیں سمجھتے اور بیڑہ غرق کر دیتے ہیں، یوں بھی جمہوریت پسند کسی جرنیل کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا مارشل لاء کی راہ ہموار کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں مگر بہرحال جنرل ریٹائرڈ محمد اکرم خان اس بارے میں ایک قابل تقلیدمثال اور قابل فخر استثنیٰ ہیں، میں ان سے کبھی نہیں ملامگر یہ دونوں باتیں ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہیں۔
کتاب میلہ واقعی اتنا ہی زبردست تھا جتنا کوئی کتاب میلہ ہو سکتا ہے۔ میں اس سے تو اتفاق نہیں کرتا کہ ہمارے نوجوانوں میں مطالعے کا شوق کم ہو رہا ہے کہ انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے والوں کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ان بچوں کو پڑھنے کے سوا کوئی دوسرا کام ہی نہیں ہے، جتنے نمبر لے کروہ کامیاب ہوتے ہیں اتنے میں تو بھلے وقتوں میں دو، دو طالب علم پاس ہوجایا کرتے تھے ، پڑھنے والے تو انٹرنیٹ پر بھی کتابیں ڈھونڈ اور پڑھ لیتے ہیں جہاں ای بُکس کے خزانے موجود ہیں مگرا سکے باوجود جسے کتاب خریدنے اور پڑھنے کی عادت پڑ جائے، اس کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ اس امر سے تو انکار ممکن نہیں کہ کتاب مہنگی ہو چکی ہے ، بابا اشفاق احمد کی بات کا حوالہ دیاجاتا ہے کہ ہم اس قوم سے ہیں جو ہزار روپے کا جوتا تو سستا سمجھ کے خرید لیتی ہے مگر ہزار روپے کی کتاب خریدنے سے پہلے سو بار سوچتی ہے۔اسی پر گرہ لگی کہ ایسی قوم کو جوتے پڑیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ میں نے تنویر قاسم سے پوچھا کہ نئے وائس چانسلر بھی اتنے ہی قابل اور بہتر منتظم ہیں تو جواب ملاکہ برطانوی دور میں قائم ہونے والے یہ ادارہ آج اقوام عالم کی 281 ویں بڑی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے طور پر قوم کا اہم ترین اثاثہ ہے، نئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فضل احمد خالد یوای ٹی کے ہی گریجوایٹ ہیں، آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کی اورغلام اسحاق خاں انسٹی ٹیوٹ میں ریکٹر رہے۔ سائنس اکیڈمی پاکستان کی طرف سے گولڈ میڈل جبکہ انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے میدان میں وسیع خدمات پر حکومت پاکستا ن کی طرف سے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا جا چکا ہے۔ عالمی سطح کے مستند تحقیقی جرائد میں ان کے سو سے زائد مقالات شائع ہوچکے ہیں۔ میں نے ان کی بات سن کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنرل ریٹائرڈ محمد اکرم خان جیسا ہی اچھا منتظم بھی ثابت کرے۔ ان کے دور میں یونیورسٹی ایک قلعہ بن گئی تھی جس میں سوائے تعلیم کے کسی بھی دوسری سرگرمی کا داخلہ مکمل طور پر منع تھا۔ شائد یہ اس کے ماضی کا ردعمل تھا جو نیوٹن کے قانون کے مطابق اتنا ہی شدید تھا۔ میری طرف سے دوسرا استفسار یہ تھا کہ کیا یونیورسٹی کو اب غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے بھی کھولا جا رہا ہے یانہیں، جواب ملا، کتاب میلہ تو آپ نے دیکھ ہی لیا،فارغ التحصیل گریجوایٹس کو ان کی دہلیز پر ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے لئے جاب فیئر کا انعقاد کیا گیا ۔ یہ ملکی تاریخ کاسب سے بڑا جاب فیئر تھا جہاں مختلف منصوبوں کے حوالے سے تقریبادوہزار پوسٹر نمائش کے لیے لگائے گئے ہیں۔ادارے انجینئرنگ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا و طالبات کو ملازمت دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یو ای ٹی کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کے کھیلوں کے مقابلے ہوئے ، اسی طرح سکائی لینٹرینز کا عظیم الشان مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں ہزاروں طلبہ وطلبات نے حصہ لیا جس کا تھیم ’’ریڈ اینڈ رائز‘‘تھا۔آل پاکستان تقریری مقابلے ،مشاعرہ کا انعقاد،آئی بی یم ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام سٹوڈنٹس کی تیارہ کردہ مصنوعات کی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ انہوں نے یقین دلایاکہ غیر نصابی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ انہوں نے کتاب میلے کا وزٹ کرتے ہوئے میرے استفسار پرکہا،ا نجینئرنگ یونیورسٹی میں آپ کو وائس چانسلر سے لے کر نیچے عام کارکنوں تک ہر جگہ میرٹ ملے گا، میں ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہوں اوراسلامک سٹڈیز ڈپیارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کرنے کے ساتھ ساتھ پی آر او کی ذمہ داریاں بھی سرانجام دے رہا ہوں۔ انہوں نے میرا تعارف چیف لائبریرین ڈاکٹر اعجاز معراج سے بھی کروایا ، وہ بھی فارن کوالیفائیڈ پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔ یونیورسٹی کی فیکلٹی اسے دنیا کی بہترین جامعات میں مزید اوپر لے جانے کی اہلیت رکھتی ہے۔
مجھے اپنی انجینئرنگ یونیورسٹیوں سے ایک شکوہ ہے کہ جب پوری قوم توانائی کے بحران کاشکار ہے،کارخانے بند پڑے ہیں، گھر گھر میں اندھیرے ہیں تو ایسے میں ہماری جامعات کو توانائی کے سستے اور فوری منصوبوں کے لئے تحقیق کرنی چاہئے تھی۔ میرے شکوے کاجواب ملا کہ پنجاب حکومت کے مالی تعاون سے یو ای ٹی کالا شاہ کاکو کیمپس میں انرجی سنٹر قائم کیا گیا ہے جو پنجاب میں توانائی کے علوم کے لیے تدریس کا ایک مثالی ادارہ ثابت ہو گا اورتوانائی کے حصول کے جدید ذرائع پر تحقیق کرے گا۔ اس سنٹر میں سات شعبے ہوں گے ۔ اس کے علاوہ یہاں انرجی کے مضمون میں ایم ایس سی ‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی کلاسز کا اجراء بھی کیا جا چکا ہے ۔ یہ سنٹر نسٹ ‘ غلام اسحق خاں انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘ یو ای ٹی ٹیکسلا‘ اورپی سی ایس آئی آر ا سے باہمی تحقیقی تعاون کو بروئے کار لا ئے گا جوصنعتی شعبے کیلئے بھی ممدومعاون ثابت ہوگا۔ مجھے اس جواب سے کچھ اطمینان ہوا کہ یقینی طور پر تاخیر تو ہوئی مگر ہمارے ادارے اب مثبت طور پر قومی ترقی میں اپنا کردارادا کرنے جا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ابھی ہمارا تمام کام سٹیٹ آف دی آرٹ نہ ہو مگر اب قومی سطح پر ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے ہونے والے کام سے یکسر انکار نہیں کیا جاسکتا۔ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط بنانا ہے اور نتیجہ خیزی کو ٹارگٹ بناتے ہوئے کام کرنا ہے۔مجھے اپنا ایک اچھا ادارہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔ جب میں یونیورسٹی سے باہر نکل رہا تھا تو اس وقت بھی وہاں مٹی کے بادل چھائے تھے، اس مٹی کی وجہ سے پارک تباہ، کلاس روم گندے اور طالب علم مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ میں اورنج لائن کی تعمیر کا حامی ہوں مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہم چھوٹی چھوٹی احتیاطیں مدنظر رکھ لیں، تعمیراتی کام کے دوران تاریخی عمارتوں اور ماحول کی حفاظت کو مدنظر رکھیں تو بڑے بڑے اداروں اور بڑے بڑے منصوبوں بارے چھوٹی چھوٹی شکایتیں بھی پیدا نہ ہوں۔