کراچی ،عالمی اردو کانفرنس ،ضیاء محی الدین نے میلہ لوٹ لیا
کراچی (اسٹاف رپورٹر) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی آٹھ ویں عالمی اردو کانفرنس کے پہلے دن کے آخری اجلاس میں ضیاء محی الدین نے میلہ لوٹ لیا ضیاء محی الدین کو سننے کیلئے آرٹس کونسل میں ان کے سیکڑوں مداح موجو دتھے ۔آرٹس کونسل کا آڈٹیوریم لوگوں سے کچھاکچھ بھر ا ہوا تھا ۔ضیا ء محی الدین نے مختلف اقتباسات سنا کر حاضرین سے بے پناہ داد حاصل کی ۔اجلاس کے آغاز پر ہندوستان سے آئے ہوئے دانشور ڈاکٹر شمیم حنفی نے ضیا محی الدین کو اعتراف کمال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضیا محی الدین اپنے انداز کی وجہ سے ایک جیتی جاگتی داستان بن چکے ہیں وہ ایک ادیب صدا کار اور اداکار کی حیثیت میں ملا جلا کر ایسی رنگینی پیدا کر دیتے ہیں جو غیر معمولی ہوتی ہے میرا بس چلے تو اردو کے ہر کورس میں ضیا محی الدین کا انداز رائج کراواں۔ مجھے فخر ہے کہ میں اس عہد میں سانس لے رہا ہوں جس میں ضیا محی الدین موجود ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ضیاء محی الدین سخن فہم ہیں ۔ان کے انداز اور آواز کی رینج بہت وسیع ہے ۔ہر لہجہ ان کا اپنا لہجہ بن جاتا ہے ۔ان کی پڑھت کی اگر کسی نے نقالی بھی کی تو وہ بے چارہ مارا جاتا ہے ۔ ضیاء محی الدین نے ابتدا میں کہا کہ اابن انشا سے بہتر پیروڈی میری نظر سے گذری جس کے بعد انہوں نے ابن انشاء کا مضمون ’استاد محروم‘ ، ایوب خاور اور ن میم راشدکی نظم اورجوش ملیح آبادی کی تحریر اپنی آواز میں بے مثال شاہکار بنا دیں۔انہوں نے آخر میں مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر کو دلچسپ پیرائے میں پیش کیا ۔جس پر حاضر ین نے کھڑے ہو کر بھر پور تالیا ں بجائیں ۔بعد ازاں آرٹس کونسل کے جنرل سیکریٹری محمد احمد شاہ نے ضیا ء محی الدین کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضیاء محی الدین کی شرکت سے عالمی اردو کانفرنس میں چار چاند لگ جاتے ہیں اگر کانفرنس سے ضیا ء محی الدین کو نکال دیں تو یہ آدھی بھی نہیں رہ جاتی ۔انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم ظرافت کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں اسی طرح ہمیں فخر ہے کہ ہم پڑھت کے عہد ضیاء محی الدین میں جی رہے ہیں ۔آخر میں انہوں نے ضیاء محی الدین کو پھولوں کا تحفہ پیش کیا ۔