’میری بیگم مجھے مارتی تھی اور پھر۔۔۔‘ ایک دُکھی شوہر کی دردناک داستان
نئی دہلی (نیوز ڈیسک) محض ایک سال قبل تک میں ریاست مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والا ایک کامیاب بینکر تھا۔ گزشتہ سال، جب میں 30 سال کا تھا، مجھے دہلی شہر کی ایک خوبرو لڑکی سے محبت ہوگئی اور اسی سال دسمبر میں، میں نے اس سے شادی کرلی۔ وہ ایک آئی ٹی پروفیشنل تھی اور اس شہر میں اپنی ایک نئی زندگی اور پہچان بنانے آئی تھی۔
شادی اور گھر آباد کرنے کے بارے میں روایتی نظریات کا حامل تھا لیکن شادی کے کچھ دن بعد ہی میرے خواب چکنا چور ہونا شروع ہوگئے۔ابھی ہم اپنے بیرون ملک ہنی مون سے واپس آئے ہی تھے کہ میری بیوی نے میرے والدین سے الگ ہونے اور علیحدہ گھر میں رہنے کا مطالبہ کردیا۔ میں نے بھی یہ سوچ کر بات مان لی کہ نئے شادی شدہ جوڑے کے لئے علیحدہ رہنا ان کی نئی زندگی اور انڈرسٹینڈنگ کے لئے بہتر ہے ۔ میں نے نیا گھر خرید لیا اور بیوی کی خدمت کے لئے دو خادمائیں بھی رکھ دیں تاکہ اسے کبھی ہاتھ بھی نہ ہلانا پڑے۔
مزید جانئے: مصر کے آدھے مرد اپنی بیگمات کے ہاتھوں پٹتے ہیں: رپورٹ
بدقسمتی سے مجھے معلوم ہوا کہ میری بیوی ناصرف سگریٹ نوشی کرتی تھی بلکہ شراب بھی بکثرت پیتی تھی۔ وہ جب بھی نشے میں ہوتی تو میرے ساتھ بدکلامی کرتی اور مار پیٹ سے بھی گریز نہ کرتی۔ رفتہ رفتہ یہ کام نشے کے بغیر بھی ہونا شروع ہوگیا اور اس کا مجھ پر ہاتھ اٹھانا معمول بنتا چلا گیا۔ وہ مجھے چھوڑ کر اپنے دوستوں اور بہن کے ساتھ باہر جانا بہت پسند کرتی تھی اور اکثر مجھے اس کی سرگرمیوں کا علم بھی اس کی فیس بک اپ ڈیٹس سے ہی ہوپاتا۔ وہ کہتی کہ وہ ایک آزاد مزاج لڑکی ہے لہٰذا ہر جگہ خاوند کو ساتھ لے جانا مناسب نہیں سمجھتی۔ میں اس کی اور اس کے گھر والوں کی توجہ اور حمایت حاصل کرنے کے لئے انہیں قیمتی تحائف بھی دیتا رہا اور اپنا گھر اجڑنے سے بچانے کے لئے بیوی کی تمام تر سرکشی کو بھی برداشت کرتا رہا۔
پھر ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ اس نے میرے والدین کا میرے ہی گھر میں داخلہ بند کردیا۔ اب میری مایوسی اور نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ کا یہ عالم تھا کہ میں راتیں اپنے بیڈ روم کی بجائے گاڑی میں گزارنے لگا تھا۔ میرے والدین نے میری تربیت روایتی انداز میں کی تھی اور میں سمجھتا رہا کہ گھر کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے مجھے جو بھی تکلیف اٹھانی پڑے اٹھالینی چاہیے۔ اب میں سوچتا ہوں کہ میں کتنا بڑا بے وقوف تھا۔ میں نے خود سر بیوی کی خاطر خود کو تو عذاب میں ڈالا ہی تھا، اپنے شفیق اور شریف النفس والدین کی تذلیل بھی برداشت کر لی تھی۔
مئی کے مہینے میں میری بیوی دہلی کے لئے روانہ ہوئی، اور اگلے دن ہی اس نے میری فون کال یا میسج کا جواب دینا بند کردیا۔ گھر کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ وہ جاتے ہوئے قیمتی اشیاءمثلاً جیولری، لیپ ٹاپ، کیمرہ اور ہارڈ ڈرائیوز وغیرہ ساتھ لے گئی تھی۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ میری ماں کی طرف سے ہمیں ملنے والی جیولری، جو کہ ان کی والدہ کی یادگار تھی، وہ بھی میری بیوی ساتھ لے جاچکی تھی۔
مزید پڑھیں: بیگم سے بحث کرنے کا صرف ایک ہی صورت میں فائدہ ہوتا ہے، ماہرین نے شوہروں کو مفید مشورہ دے دیا
ایک دو روز یونہی گزرے۔ میرا ذہن بالکل خالی ہوگیا تھا اور میں خود پر ڈھائے جانے والے ظلم پر سوچ بچار کررہا تھا کہ کرائم سیل دہلی کی طرف سے مجھے ایک نوٹس موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ میرے خلاف گھریلو تشدد اور ہراساں کرنے کی شکایت درج کروائی گئی ہے۔ مجھے ذہنی، نفسیاتی اور مادی طور پر برباد کردینے والی میری بیوی نے میرے خلاف گھریلو تشدد، مارپیٹ، بدتمیزی اور جان سے مارنے کی دھمکیوں جیسے الزامات کے تحت شکایت درج کروادی تھی۔
شادی جیسے مقدس بندھن سے اب میرا اعتماد ہمیشہ کے لئے اٹھ گیا ہے۔ میری زندگی بھی بالکل بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر میرے ماں باپ، جنہیں میری وجہ سے بہت دکھ دیکھنے پڑے، مجھے پھر سے اپنی پناہ میں نہ لے لیتے اور سہارا نہ دیتے تو شائد میں اب تک خودکشی کرچکا ہوتا۔
(یہ آپ بیتی اخبار ٹائمز آف انڈیا میں شائع کی گئی، بھیجنے والے صاحب نے اپنی شناخت خفیہ رکھی ہے )