میڈیا کو کس حد تک کوریج کی اجازت ہے؟ ہائی کورٹ نے عائشہ ممتاز کیس میں صحافی تنظیموں سے وضاحت مانگ لی
لاہور (نامہ نگارخصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے ڈائریکٹر فوڈ پنجاب عائشہ ممتاز کی جانب سے میڈیا کے ہمراہ ریسٹورنٹس اور بیکریوں پر مارے جانے والے چھاپوں کے خلاف دائر درخواست پر پنجاب یونین آف جرنلسٹس اور لاہور پریس کلب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، عدالت نے قرار دیا ہے کہ میڈیا کو کس حد تک کوریج کی اجازت ہے اس حوالے سے ملک میں کوئی قانون موجود ہے تو منظر عام پر لایا جائے۔ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار نجی فوڈ کمپنی کے وکیل پیر مسعود چشتی نے کہا کہ مہذب ممالک میںکسی کاجرم ثابت کئے بغیر اسکی شناخت ظاہر نہیں کی جا تی مگر ڈائریکٹر فوڈ پنجاب اور محکمہ خوراک کے افسران اپنے چھاپوں کی کارروائی اسی وقت اپنے فیس بک اکاونٹ پر چڑھا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عائشہ ممتاز فوڈ فیکٹریوں پرچھاپوں سے پہلے میڈیا کو اطلاع کرتی ہیں اور میڈیا کے ہمراہ چھاپے مار کر فوڈ فیکٹری مالکان کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے اور انہیں حراساں کیا جاتا ہے۔ محکمہ خوراک کے وکیل میاں خورشید نے عدالت کو بتایا کہ میڈیا اپنے ذرائع سے ملنے والی اطلاع پر کوریج کرنے آتا ہے محکمہ خوراک کی جانب سے میڈیا کو چھاپوں کی اطلاع فراہم نہیں کی جاتی۔ عدالتی استفسار پرعدالت میں موجودصحافی عبدالرحمن نے عدالت کو بتایا کہ محکمہ فوڈ کے ہینڈ آوٹ کے مطابق میڈیا اپنی خبر نشر کرتا ہے جبکہ محکمہ خوراک کے چھاپوں کی کوریج ذرائع کی جانب سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور میڈیا کوریج کے دوران ذمہ داری کا مظاہرہ کر تا ہے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ میڈیا کو کس حد تک کوریج کی اجازت ہے اس حوالے سے ملک میں کوئی قانون موجود ہے تو عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ عدالت نے پنجاب یونین آف جنرنلسٹس اور لاہور پریس کلب کو17دسمبر کے لئے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا