جھوٹے انتخابی وعدے

جھوٹے انتخابی وعدے
جھوٹے انتخابی وعدے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان تحریک انصاف جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے وعدے سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہی ہے۔ اس سال الیکشن میں پی ٹی آئی نے انتخابات کے تین مہینے کے اندر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے اقدامات اور ایک سال میں عملی طور پر اس کی تشکیل کا وعدہ کیا تھااور اسی وعدے کے بعد جنوبی پنجاب صوبہ محاذ پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہوگیا تھا۔

تین ماہ میں نئے صوبے کے لئے اقدامات اور ایک سال میں اس کی عملی تکمیل ہر لحاظ (آئینی،سیاسی، انتظامی، مالی)سے ناممکن تھی اور اس وعدے کی حیثیت انتخابی نعرہ سے زیادہ نہیں تھی۔ الیکشن میں جنوبی پنجاب کی بہت اہمیت تھی، کیونکہ پنجاب کی قومی اور صوبائی سیٹوں کے تقریباً 30 فیصد حلقے جنوبی پنجاب میں واقع ہیں اور وہاں زیادہ سیٹیں جیتنے کے لئے اس انتخابی نعرہ کی ضرورت تھی تاکہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سے زیادہ سے زیادہ سیٹیں چھین لی جائیں۔ سب کچھ آناً فاناً ہوا جیسا ایک طے شدہ منصوبہ میں ہوتا ہے۔

پہلے جنوبی صوبہ محاذ تشکیل دیا گیا، جو کچھ ہی عرصہ میں پاکستان تحریک انصاف میں ضم کر دیا گیا۔ ان دنوں میں نے ایک کالم میں جنوبی صوبہ محاذ کو پیٹریاٹ ٹو لکھا تھا،کیونکہ طے شدہ منصوبے ایسی ہی presentations کی منظوری کے بعدعمل میں لائے جاتے ہیں۔ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے نہ صرف بہت سی آئینی اور سیاسی رکاوٹیں عبور کرنا ضروری ہیں، بلکہ مالی اور انتظامی طور پر بھی یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

ملک میں کوئی بھی نیا صوبہ سیاسی اتفاق رائے کے بغیر بنانے کی کوشش کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے، اگر عمران خان جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں صوبہ کے تمام اہم سیاسی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ کرنا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر اس نعرے کی حیثیت محض ایک ٹوپی ڈرامہ کی رہے گی۔

ویسے بھی جس مقصد کے لئے یہ نعرہ لگایا گیا تھا، وہ 2018ء کے الیکشن میں پہلے ہی حاصل کیا جا چکا ہے، اس لئے دکھاوے اور خانہ پری کے علاوہ اس پر کسی قسم کی عملی پیش رفت ہونے کا امکان نہ ہو نے کے برابر ہے۔ حکومت نے جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ بنانے کا جو اعلان کیا تھا، اس پر عمل درآمد بھی کم از کم جون تک کے لئے موخر کر دیا گیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں جون کے بعد بھی صرف گونگلووں سے مٹی جھاڑی جائے گی، کیونکہ جنوبی پنجاب صوبہ بننے کے بعد وسطی پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم نہیں رہ سکے گی اور عمران خان کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی حکومت پنجاب میں سکڑ کر ایک تہائی پر رہ جائے اور باقی پنجاب مسلم لیگ نواز کے پاس چلا جائے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جنوبی پنجاب صوبہ محض ایک سیاسی نعرہ اور جھوٹا وعدہ تھا، جس کے مقاصد پہلے ہی حاصل کئے جا چکے ہیں اور اب آگے اس میں کچھ مزید پیش رفت نہیں ہو گی۔
جہاں تک انتخابی نعروں کا تعلق ہے ،عام انتخابات کے موقع پر سیاسی پارٹیوں کے وعدے کوئی نئی چیز نہیں، پہلے بھی ہوتا رہا ہے کہ لیڈر نے الیکشن پر کئے گئے، وعدوں پراقتدار میں آنے کے بعد توجہ نہ دی ہو یا ترجیحات تبدیل ہو گئی ہوں،لیکن پاکستان تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان کا معاملہ اس سے قدرے مختلف ہے، کیونکہ وہ اور ان کی پارٹی کے دوسرے لیڈر پانچ چھ سال سے لگاتاروعدوں سے زیادہ مختلف دعوے کر رہے تھے۔

ایک دعوی جو عمران خان اور ان کی پارٹی کے دوسرے لیڈر لگاتار پچھلے کئی سال سے لگا رہے تھے اور الیکشن کے موقع پر تو اسے باقاعدہ انتخابی نعرے کی شکل دے دی گئی تھی کہ کرپٹ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے لوٹ مار کا دو سو ارب ڈالر پاکستان سے باہر بینکوں میں رکھا ہوا ہے ۔ عمران خان، اسد عمر اور ان کی پارٹی کے دوسرے لیڈر روز کہتے تھے کہ ہم اقتدار میں آتے ہی یہ دو سو ارب ڈالر واپس لے کر آئیں گے، بلکہ یہاں تک کہا جاتا تھا کہ جس دن عمران خان وزیر اعظم بنیں گے اگلے ہی دن وہ دو سو ارب ڈالر واپس لائیں گے، اس میں سے سو ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ یکمشت پہلے ہی دن واپس کریں گے اور باقی کے سو ارب ڈالر سے پاکستان میں ترقی کا زبردست نیٹ ورک قائم کریں گے، جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی ۔ اسد عمر بھی بہت تواتر سے ان دو سو ارب ڈالر کا ذکر کرتے اور واپس لانے کاوعدہ کرتے تھے،جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بن گئی اور وزیر اعظم عمران خان نے اسد عمر کو وزیر خزانہ کا قلمدان سونپ دیا تو اس کے بعد اسد عمر دو سو ارب ڈالر واپس لانے کے وعدے سے ایسا بھاگے کہ کوئی پوچھتا تو ہنس کر ٹال دیتے اور پھرایک دن ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر تو انہوں نے ہنستے ہوئے صاف صاف کہہ ہی دیا کہ وہ دو سو ارب ڈالر ایک کہانی تھی، جسے اب بھول جائیں۔

پاکستانی قوم جو پہلے دن دو سو ارب ڈالر واپس آنے کا انتظار کر رہی تھی، اسد عمر کی اس ڈھٹائی پر سخت حیران ہوئی کہ کتنے سال قوم کو خواہ مخواہ ایک جھوٹا خواب دکھایا جاتا رہا اورپھر جس جھوٹے انتخابی نعرے کے طور پر بھی خوب استعمال کرکے ووٹ بھی لئے گئے، لیکن اب کیا ہو سکتا تھا، الیکشن 2018ء میں مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا چکے تھے، اس لئے عوام اس نعرے کو سچا سمجھیں یا جھوٹا، اس سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ خیر، پچھلے تین ماہ سے عوام وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر کو اپنی ٹیم اور کچھ وزیروں کے ساتھ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور ملائشیا آتے جاتے دیکھ رہے ہیں، جس میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ دورے بہت کامیاب جا رہے ہیں اور ملک میں کوئی اقتصادی بحران نہیں ہے۔ قوم ان ’’کامیاب‘‘ دوروں پر یقین کرے یا نہ کرے۔ لیکن اسے اتنا ضرور پتہ ہے کہ پیسے آئی ایم ایف سے ، ان ہی کی شرائط کے تحت آئیں گے، جہاں تک ان دو سو ارب ڈالر کا تعلق ہے جو عمران خان نے قرض خواہوں کے منہ پر مارنے تھے تو اس کا تو اسد عمر نے سچ بول ہی دیا ہے کہ اس ٹوپی ڈرامے کو بھول جائیں۔ ظاہر ہے عوام کے پاس جھوٹے انتخابی نعروں کو بھول جانے کے سوا کوئی اور آپشن بھی نہیں ہے، اس لئے اس نے بھول ہی جانا ہے۔

عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد بیرون ملک مقیم یا آباد ایک کروڑ پاکستانیوں نے جو ڈالروں کی ٹرینیں ، جہاز اور بحری جہاز بھر بھر کر بھیجنے تھے، انہیں بھی بھول جانا ہی قوم کی اچھی صحت کے لئے ضروری ہے، کیونکہ عمران خان کو وزیر اعظم بنے ہوئے اب چار مہینے ہونے والے ہیں، لیکن ان ایک کروڑ لوگوں میں زیادہ تر خواب غفلت میں پڑے ہیں، جنہیں ہلکی سی جنبش بھی نہیں ہو رہی۔ ہاں، اگر یہ لوگ جاگ گئے تو شائد ڈالروں سے بھری ٹرینیں اور جہاز پاکستان بھیج دیں۔
پچھلے کئی سال سے پاکستان تحریک انصاف کے لیڈرہمیں بتا رہے تھے کہ عمران خان نے دو سو لوگوں کی ٹیم فائنل کی ہوئی ہے، جو حکومت آنے کے فوری بعد کام شروع کردے گی۔ اس ٹیم میں بہترین اور پروفیشنل دماغ ہیں، جو معیشت، گورننس، صحت، تعلیم، صنعت، تجارت، زراعت سمیت تمام اہم شعبوں میں پالیسیاں تیار کررہے ہیں اور حکومت آتے ہی ملک درست سمت میں چلنا شروع ہو جائے گا ،اب ان دو سو ماہرین کا دور دور تک کوئی سراغ نہیں مل رہا۔

عمران خان کی کابینہ میں تین چوتھائی وہی پرانے گھسے پٹے چہرے ہیں، جو جنرل مشرف یا صدر آصف زرداری کی کابیناؤں کا حصہ تھے۔ اس کے علاوہ جو ٹاسک فورسز یا کمیٹیاں بنائی گئی ہیں ان کے زیادہ تر اراکین بھی جنرل پرویز مشرف دور میں کسی نہ کسی جگہ فٹ تھے، دوسرے ان ٹاسک فورسز اور کمیٹیوں کے اجلاس بھی شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔

یہان دہرا المیہ یہ ہے کہ عمران خان کی بنائی ہوئی refurbished کابینہ اور کمیٹیوں میں نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی انہیں معلوم ہے کہ بیوروکریسی کے ساتھ کیسے ورکنگ ریلیشن شپ میں چلا جاتا ہے، اس لئے تمام کے تما م کام ٹھپ پڑے ہیں اور کوئی فائل اپنی جگہ سے آگے نہیں چل پا رہی۔ اسمبلیوں میں قانون سازی صفرہے اور پارلیمنٹ میں ایک بھی بل (ماسوائے فنانس ترمیمی بل، جو سینٹ میں منظوری کا محتاج نہیں) حکومت پیش نہیں کر سکی ہے۔

آئین کے تحت قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹیاں ایک ماہ کے اندر بنانا لازمی ہے، لیکن یہ اہم ترین آئینی ضرورت چوتھے ماہ بھی حکومت کی طرف سے پوری نہیں ہو سکی ہے۔

اس لئے اگر کہا جائے کہ موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ ہماری تاریخ کی صفر کارکردگی والی پہلی پارلیمنٹ ہے تو غلط نہ ہو گا، جہاں تک دو سو ماہرین کی ٹیم کا تعلق ہے، جس حکومت کے پاس ٹیم میں دو چار بندے بھی ڈھنگ کے نہ ہوں وہ دو سو کہاں سے لائے گی۔

وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ باقی تمام باتوں کی طرح یہ بھی جھوٹا انتخابی نعرہ تھا۔ کسی کو اچھا لگے یا برا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جھوٹے انتخابی وعدوں پر کوئی حکومت اپنے پانچ سال پورے کر سکتی ہے، لیکن اس کے لئے اگر زیادہ نہیں تو کم از کم دس بیس فیصد تو ڈلیور کرنا ہی ہو گا۔

مزید :

رائے -کالم -