کرپشن کی سزا موت ہو تو ملک کی آبادی کم ہوجائے، چیئرمین نیب

کرپشن کی سزا موت ہو تو ملک کی آبادی کم ہوجائے، چیئرمین نیب
کرپشن کی سزا موت ہو تو ملک کی آبادی کم ہوجائے، چیئرمین نیب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ نیب سزاؤں کیلئے قانون سازی نہیں کرتی یہ پارلیمنٹ کا کام ہے، اگر کرپشن پر سزائے موت کا قانون آیا تو ملک کی آبادی کم ہوجائے گی۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں انسدادکرپشن کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ہر قدم پاکستان اور عوام کی بہتری کیلئے اٹھایا جاتا ہے۔ وفاداری صرف پاکستان کے ساتھ ہونی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ 70 سی سی موٹر سائیکل پر گھومنے والے آج دبئی میں ٹاور کے مالک ہیں ، اگر ان ٹاورز کے بارے میں پوچھ لیا تو کیا برا کام کیا ہے، نیب اپنا کام کرتی رہے گی۔ چیئرمین نیب کا کہنا ہے کہ نیب کا احتساب سے بالاتر ادارہ تصور کیا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، نیب جیسے ہی عدالت میں کیس داخل کرتی ہے نیب کا احتساب شروع ہوجاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججزنے اپنی زندگی قانون کو سمجھتے ہوئے گزاری ہے ، وہ سماعت میں ہر چیز پر قانون کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں چاہتاہوں لوگوں کوپتہ چلے نیب اپنے اختیاراستعمال کررہاہے۔پروپیگنڈاکریں نہ کریں نیب نے اپناکام جاری رکھناہے۔ چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ملک 95ارب ڈالر کا مقروض ہے جو بہت خطیر رقم ہے نیب نے اگر یہ پوچھ لیا95ارب ڈالرکیسے خرچ ہوئے توکیاگستاخی ہوگئی؟۔کسی کی عزت ونفس کوٹھیس نہ پہنچے یہ سامنے رکھ کرپوچھاگیاہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ہماری جتنی بیوروکریسی ہے اس میں قابل افسرموجودہے۔سابق اورموجودہ حکمرانوں کو پیغام دےدیا کہ جو کرے گاوہ بھرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہماری جتنی بیوروکریسی ہے اس میں قابل افسرموجودہے،اب وہ دور نہیں جب کوئی غلط حکم دیتاتوآپ کہتے تھے ٹھیک ہے۔سپریم کورٹ بھی وہی حکم دےگاجو قانون کے مطابق ہے، جب کوئی ناانصافی ہوئی ہے توسپریم کورٹ نے اس کانوٹس لیاہے۔ بیوروکریسی میں کسی بھی غلط کام پرسپریم کورٹ نے ازخودنوٹس لیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ادارے مضبوط ہیں،اپنا کام کررہے ہیں۔اچھاکام کرنی والے ادارے کوسیاست میں ملوث کرناٹھیک نہیں۔
بزنس کمیونٹی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ڈھائی سو کے قریب تاجروں سے ملاقات کی ، کسی نے بھی نہیں کہا کہ نیب کے اقدامات سے کاروبار پر برا اثر پڑا ہے۔بزنس کمیونٹی کویقین دلایاگیانیب ایسااقدام کیوں اٹھائےگاجس سے ملکی معیشت کو نقصان ہو۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ایک تاجر نے کہا تھاکرپشن کی سزاموت مقررکردیں، جس پر میں نے کہایہ سزامقررہوئی توملک کی آبادی کم ہوجائے گی ویسے بھی سزامقررکرنامیرانہیں پارلیمنٹ کاکام ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ نیب سے متعلق ان سےنہ پوچھاجائے جن کےخلاف ریفرنس ہیں۔ حکومت کو اپنا دل بڑا رکھنا چاہیے۔نیب اپنا کام جاری رکھے گا آپ پروپیگنڈا کریں یا نہ کریں ، پاکستان کے عوام اتنے معصوم اور سادہ نہیں کہ اچھے برے میں تمیز نہ کرسکیں۔ موجودہ حکومت نے نیب کو ایک خود مختار ادارہ تسلیم کیا ہے۔
چیئرمین نیب نے یہ بھی بتایا کہ مضاربہ کیس میں ملکی اداروں کو لوٹا گیا۔یہ پہلاکیس تھا جس میں اس کیس میں10ارب جرمانہ کیاگیا،اس سال تین ارب64کروڑوصول کرکے مستحقین میں تقسیم کئے گئے۔بیورو کریسی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ نظام حکومت میں بیورو کریسی ریڑھ کی ہڈی ہے،ریڑھ کی ہڈی خراب ہو جائے تو پھرتھراپی کرنا پڑتی ہے۔ریاست میں قانون کی حکمرانی ہے، ادارے موجودہیں اورقانون اپناکام کررہاہے۔