کہاں سے لائیں تیری کھلی ہوائیں

کہاں سے لائیں تیری کھلی ہوائیں
کہاں سے لائیں تیری کھلی ہوائیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملت روڈ فیصل آباد ایک نجی بینک کی اے ٹی ایم سے رقم نکالنے کے بعد کنپٹی پہ ہوتی ٹِک ٹِک اور رقم بمعہ اے ٹی ایم کارڈ وپن نمبر دو موٹر سائیکل سوار جوانانِ ملت کے سپرد کیے تو جان میں جان آئی کہ ڈر کے مارے منہ سے نکلی بینک اکاؤنٹ کی پن ہم سے غلط بتائی گئی تھی۔ خوش و خرم اپنی گاڑی میں لوٹے کہ سستے میں جان چھوٹ گئی ، ملت روڈ کافی مصروف شاہراہ ہے اور یہ نہیں کہ واردات کے وقت وہاں کوئی نہیں تھا ، لوگ آ جا رہے تھے لیکن ہر کوئی تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو کے مصداق وقوعہ سے لا علم تھا۔ ہم تو پہلے بھی مال روڈ لاہور پہ ایک عدد موبائل فون ایسے ہی دے چکے تھے ا ور اس کے بعد تھانے میں دیے گئے سوالات کے جوابات سے ہی گھبرا گئے تھے کہ خرید کے بعد اتنی قریب سے کبھی موبائل فون دیکھا ہی نہیں تھا تو اعتماد کے ساتھ کیا کیا بتاتے۔ سو اس دفعہ فیصلہ کیا کہ اس بکھیڑے میں نہ ہی پڑا جائے اور خدا کا شکر بجا لایا جائے ۔
ماشااللہ تبدیلی حکومت کے بعد تو عوام مہنگائی کے مارے ہر طرف سے لوٹے جارہے ہیں ۔ وہ تو چھ روپے بڑھا اور دو روپے سستا ہوا پٹرول۔ ریل گاڑی کے کرایوں میں اضافہ۔ بجلی صارف کی چیخیں ۔ سکول کی فیس کے طمانچے ۔ صاف پانی کو ترسے سڑک پہ پڑیکھانچے کو بلڈوزر پہ اٹھایا دیکھ رہے ہیں ۔ انہیں شاید معلوم ہی نہیں کہ ان کا کھانچہ یا سر چھپانے کے لئے چھت اسی صورت میں بچ سکتی ہے اگر وہ حکمرانوں کے فلیٹس کے درمیان اسلام آباد میں واقع ہو۔ قانون تو اس ملک کی اشرافیہ نے یوں بنا یا ہے کہ نہ وہ سفید ہے اور نہ سیاہ۔ اس گرے سکیل پہ لکھے اس قانون کو غریب کے خلاف تو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اگر آپ ان دولت مندوں میں سے ہیں کہ جو کروڑوں کا وکیل کر سکتے ہیں تو آپ کا بال بھی بیکا نہیں ہو سکتا ۔ مکھن سے بال کی طرح آپ پاک و پاکیزہ ایسے معصوم بنائے نکالے جاتے ہیں کہ آپ کے نعرے ہر طرف گونجتے ہیں۔ کسی کے ڈرائیور کے اکاؤنٹ میں اربوں روپے ہیں تو کسی کے گارڈ کی ملکیت بھی اربوں میں ہے ان کے محل بھی سامنے ہیں اور وہ جیل سے فون پہ دھمکیاں دیتے کاروبار بھی کرتیہیں۔ ملوں سے اربوں کی چینی غائب تو کہیں اسٹیل مل کی مشینری گم ۔ کہیں ائرلائنوں میں منشیات کی بین الاقوامی ترسیل تو کسی کی ماڈل گرل ایسی سجی سجائی کہ کوئی ہوا نہ چھو سکے۔ بھائی اس ملک کے کھیل تو سب اونچے ہیں اور کھیلنے والے تو سب سے بلند مرتبت ؛ ان کی تو ہر حرکت وی آئی پی اور ان کی سکون گاہ پہ سب کی نظر کہ کہیں مرچ مصالہ سے بھرپور شہ سرخی مس نہ ہو جائے ۔جیل میں وہ سوئے جاگے یا کچھ پڑھتے رہے ۔ صبح دودھ کا گلاس ، ٹوسٹ اور انڈے کا ناشتہ۔ ڈاکٹر صاحب کی تجویز کہ انہیں کھلی فضاؤں میں رکھا جائے سب زبان زدِ عام ہے، ہم نے تو اپنی زندگی میں نہ اتنا مہربان ڈاکٹر دیکھا ہے اور نہ ہی کھلی فضائیں کسی غریب کے لئے تجویز ہوتی دیکھی ہیں۔ ہاں اپنی مدتِ ملازمت میں ہسپتال آئے پائے بہ زنجیر قیدی ضرور دیکھے ہیں کہ جن کی زنجیر صرف موت کے بعد بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ڈاکٹر سے موت کی تصدیق پہ اتاری۔ میں تو اپنے قارئین سے پوچھتا ہوں کہ دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیں جرم قتل ہے یا غریب ہونا۔ جرم چوری ،ڈاکہ ہے یا غریب ہونا ، جرم لوٹ مار ہے کہ غریب ہونا ، میں تو اس نتیجے پہ ہی پہنچا ہوں کہ ہمارے معاشرے کا جرم اور المیہ غربت ہے ۔
قیصر امین بٹ صاحب کے بیان کے بعد تو میں یہ سوچنے پہ مجبور ہو گیا ہوں کہ ایک لمبا ہاتھ مارو اور اگر اس میں بچ گئے تو غربت دور اور پھر مال سے مال بناتے جاؤ اور اس جگہ پہ جا پہنچو کہ تم ہر ہاتھ سے دور ،ہر دسترس سے باہر وہ لوہے کے چنے بن جاؤ کہ چبانا ہی ناممکن ہو جائے۔ پھر آسمان بھی کھلے ہیں اور کھلی فضائیں بھی ہیں۔ جیل سے ہی علاج کے لئے بیرونِ ملک بھی جاؤ گے اور فلاح ہی فلاح پاؤ گے۔ احتساب کا نعرہ لگانے والے احتساب تو کریں گے کیونکہ یہ ان کا کام ہے ، کام نہ کریں گے تو کمائیں گے کیا اور کھائیں گے کیا۔ سب کی جائیدادوں کے پیچھے پڑے ہو صاحب کبھی ایل ڈی اے کے کلرک کا بھی رہن صحن دیکھو جو رمضان میں بھی سائل سے مٹھائی مانگتا ہے۔ کسٹم آفیسر کے بھی اثاثوں کو دیکھو۔ ایف بی آر کے ایک ملازم کی جائیداد کا بھی نوٹس لو ،کبھی احتساب کرنے والوں کے بھی جاہ و جلال اور شان و شوکت کو جانچو لیکن اگر جانچنے کو نہ اشرافیہ ہے اور نہ اس ملک کے ادارے تو صاحب ہم کہاں سے لائیں وہ کھلی فضائیں جہاں ہم سب مل کے چین پائیں۔ میرے ملکی وزیراعظم چیف جسٹس صاحب کے روبرو بات کرتے فرما رہے تھے کہ ان کی یہ ملاقات سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک کی بجائے اس ہال میں ہو رہی ہے تو بھری محفل کشتِ زعفران بن جاتی ہے ۔اسی محفل میں اگر وزیراعظم نظر دوڑائیں تو وہ بھی انہیں نظر آنا چاہیے تھے جن سے چیف جسٹس صاحب کی ملاقات واقعی کمرہ نمبر ایک میں ہوتی اگر وہ حاکم نہ ہوتے۔ کل تک نیب کے قانون کو کالے قانون اور پگھڑیاں اچھالنے کے طعنے دینے والے آج خود اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ اس نیب کو اب چلنا چاہیئے کیونکہ وہ بھگت چکے ہیں ۔میرا سوال تو یہ ہے کہ اگر وہ نہ بھگتے ہوتے تو شاید یہ قانون کالا ہی ہوتا لیکن ان کے بھگتنے کے بعد کیونکہ اب یہ سفید ہو چکا ہے تو سب کو اس میں سے گذرنا چاہیئے۔ صاحب اس قانون نے تو بیگناہ بھی لٹکائے ہیں اور نہ کردہ جرم میں اٹھارہ سال بھی جیلوں کو دان کئے ہیں تو کیا ان کا نظریہ بھی کچھ یہی ہونا چاہیئے۔ کسان اپنے گنے کی فصل لئے ایک دفعہ پھر پریشان دہائی دے رہا ہے لیکن چینی کے کارخانے صاحب ثروت کی ملکیت حکومت سے سبسڈی مانگ رہے ہیں۔ ایسے میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ کھلی فضاؤں کے صرف وہ حق دار ہیں جن کی جیب میں پیسہ اور عہدہ ہے ۔اے غریب عوام کہاں سے لائیں ہم تیرے لئے بھی کھلی فضائیں۔

۔

نوٹ:یہ بلاگر کاذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔

مزید :

بلاگ -