جذباتی سیاست دانوں کی تربیت کے لئے یونیورسٹی!
پاکستان میں اخلاقیات کی سیاست کا سہرا چودھری برادران کے سر ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے ملک میں صحیح معنوں میں سیاسی روایات قائم کرنے کا حق ادا کیا ہے۔1999ء میں جس وقت ملک میں پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا، اگر اس وقت میاں محمد نواز شریف چودھری شجاعت حسین اور چوھری پرویز الٰہی کی بات مان لیتے تو اس وقت بھی ملک میں جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں چودھری ظہور الٰہی شہید نے جو سیاسی اخلاقیات متعارف کروائیں،مخالفین بھی ان کے معترف ہیں۔چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی یہ خداداد صلاحیتیں ہی ہیں کہ انہوں نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کو بہترین قیادت فراہم کی۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں ایک ڈسپلن اور نظم و ضبط تھا اور بڑی تعداد میں لوگوں کا جم غفیر، یہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی حکمت، بصیرت اور دور اندیشی تھی کہ وقت سے پہلے ہی خطرے کو بھانپ لیا اور بڑے پُرسکون انداز میں مولانا فضل الرحمن سے غیر محسوس طریقے سے دھرنا ختم کرا دیا، جو تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کے قائم رہنے میں بھی مسلم لیگ(ق) کی قیادت کا بنیادی کردار ہے۔چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی تو برملا ببانگ ِ دہل کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ جب تک مسلم لیگ(ق) تحریک انصاف کی اتحادی ہے، تحریک انصاف کی حکومت کو کسی صورت ختم نہیں کیا جا سکتا۔
سیاست دانوں کو شائستگی اور نفاست کا پیکر ہونا چاہئے،لیکن موجودہ دور میں جس طرح سیاست دان ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہیں، اسے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ تہذیب و اخلاق ان کے قریب سے بھی نہیں گزری۔ مخالفین کے لئے ایسے توہین آمیز القابات اور نفرت بھرا لہجہ اختیار کیا جاتا ہے کہ الامان والحفیظ…… اسی وجہ سے معاشرے میں بے راہ روی، لاقانونیت اور غنڈہ گردی بڑھتی جا رہی ہے، رہی سہی کسر موبائل فون اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے پوری کر دی ہے،جس کے باعث معاشرہ تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں میں اخلاقیات کا فقدان ہے،دونوں ہی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں، ایسے میں سیاست دانوں کی اخلاقیات کی درستگی کے ساتھ ساتھ ان کی انفرادی تربیت کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ حکومتی اراکین اسمبلی کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی بدولت ہی ایک بکھری ہوئی اپوزیشن متحد ہوئی ہے۔
چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی سیاسی بصیرت کو اگر یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا،
کیونکہ چودھری برادران نے ملکی تاریخ میں جو مصالحانہ کردار ادا کیا، وہ اندھیرے میں روشنی کی مانند ہے۔ کٹھن سے کٹھن حالات اور مشکل سے مشکل وقت میں بھی چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے جس سیاسی بصیرت، حکمت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا،دوست تو دوست، دشمن بھی معترف ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے چودھری مونس الٰہی بھی سیاست میں اپنی خاندانی روایات کی پاسداری کر رہے ہیں۔ چودھری مونس الٰہی جوان خون ہوتے ہوئے بھی شائستگی، تہذیب اور اخلاقیات کو اپنائے ہوئے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ چودھری مونس الٰہی کی تربیت بھی اسی سیاسی یونیورسٹی سے ہوئی ہے،جو اُن کی خاندانی روایات کی امین ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنے وزیروں اور مشیروں کے جذباتی بیانات کی بدولت جن مسائل الجھ چکے ہیں،انہیں سلجھانے کے لئے اپنے اراکین کی تربیت بھی چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی ”یونیورسٹی“ سے کروائیں تاکہ آنے والے وقت میں حکومتی حالات بتدریج بہتر سے بہتر ہو سکیں۔