کیا واقعی ”اونٹ پہاڑ تلے“ آ گیا ہے؟

 کیا واقعی ”اونٹ پہاڑ تلے“ آ گیا ہے؟
 کیا واقعی ”اونٹ پہاڑ تلے“ آ گیا ہے؟

  


ہم نے ماضی میں کئی سیاسی تحریکوں کی کوریج کی، متعدد سیاسی اتحاد بنتے اور ٹوٹتے دیکھے، پھر اسی پنجاب میں 18اراکین کی حمایت سے وزارتِ اعلیٰ کا منصب حاصل کرنے کا نظارہ بھی کیا، پھر ان کے خلاف بغاوت بھی رپورٹ کی۔اُس کے باوجود اِن ادوار اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے، اُس زمانے میں اعتماد زیادہ اور بد اعتمادی کی کیفیت کم ہوتی تھی۔ نوابزادہ نصر اللہ (مرحوم) بابائے اتحاد کہلائے کہ اُن کو آگ اور پانی جمع کرنے کا  فن آتا تھا۔ وہ ماضی کے حریفوں کو حال کا حلیف بنا لیتے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کی حمایت اور ایوب خان کے مخالف ”کوپ“ کمبائنڈ اپوزیشن پارٹنر اور پھر ڈیک(ڈیمو کریٹک الیکشن کمیٹی) بنوانے میں بھی اُن کا کردار نمایاں تھا۔ بعدکے سیاسی اتحاد تو بنتے ہی اُن کی کاوش سے رہے۔یہ ذکر اِس لئے کر رہا ہوں کہ وہ سیاست دان ایسے تھے جو گفتگو بھی کرتے اور راز محفوظ بھی رکھتے تھے حتیٰ کہ پاکستان قومی اتحاد بن چکا تھا، ہر بات طے پا چکی تھی لیکن اعلان اچانک کیا گیا، وہ بھی مرحوم رفیق باجوہ کے گھر پر عشائیہ کے دور ان جہاں سب صحافی دوست بھی موجود نہیں تھے، و ہ جان بوجھ کر نہ آئے کہ ابھی فیصلہ نہیں ہوا لیکن نوابزادہ نصر اللہ خان نے اِسی موقع پر اتحاد کا اعلان کیا، نام، جھنڈا اور نو جماعتوں کی شرکت بھی بتا دی۔ مرحوم سے میں نے ذاتی طور پر دریافت کیا کہ ُان میں کیا کمال ہے کہ وہ یہ سب کر لیتے ہیں حالانکہ بظاہر اختلافات ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں تو انہوں نے بتایا تھا کہ میٹنگوں میں تو رائے طلب کی جاتی اور گفتگو ہوتی ہے، اصل معاملات الگ الگ ملاقاتوں میں گفتگو سے طے کر لئے جاتے ہیں۔


یہ تو ماضی کا قصہ ہے آج کا دور تو بہت مختلف ہے۔ ایک تو یہاں ظاہر کچھ ہو رہا ہوتا ہے تاہم اس کا پس منظر چھپا نہیں رہتا۔ اس کی مثال تازہ حالات کی روشنی میں سامنے ہے، تحریک انصاف اور اتحادی حکومت کے درمیان محاذ آرائی شدید تر ہے۔عمران خان اپنا موقف برملا بیان کرتے اور اسے بیانیہ قرار دیتے ہیں۔وہ واضح طور پرگزشتہ چار سال سے بقول خود ”چوروں، ڈاکوؤں“ سے ہاتھ ملانا تو دور کی بات، گفتگو بھی پسند نہیں کرتے، حالات کی جب مجبوری ہو تو پھر وہ تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔اُن کے ساتھی مفاہمت، مفاہمت بھی کھیلنا شروع کر دیتے ہیں،اِسی لئے بیل منڈھے نہیں چڑھتی۔اس کی مثال آج ہی کی ملاقاتوں اور گفتگو کی دی جا سکتی ہے۔زمان پارک میں جمعرات کو تحریک انصاف کا اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا،باہر آ کر شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کی دونوں اسمبلیاں تحلیل کرنا چاہتے ہیں اور وہ چند روز میں کر دیں گے۔ اسی مقام پر فواد چودھری پنجاب کابینہ میں خیال کاسترو کی وزیر کی حیثیت سے شمولیت پر معترض ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ غلط ہوا، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، بھولے بادشاہ کو علم ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اسمبلی فوراً تحلیل کر دینے کا وعدہ کر کے بھی کپتان کو قائل کر رہے ہیں کہ یہ اسمبلیاں کم ازکم نئے سال کے بجٹ تک چلنے دیں تاکہ آئندہ آنے والے عام انتخابات کے حوالے سے فضاء سازگار بنائی جا سکے، نہ صرف ترقیاتی کام ہوں بلکہ حلقوں کے حوالے سے ترقیاتی فنڈز بھی خرچ کئے جا سکیں جبکہ تحلیل سے وہ تمام فوائد ختم ہو جائیں گے جو حمایت کے لئے کئے جا سکتے اور اب حاصل ہیں،جن میں زمان پارک کو ”نوگو ایریا“ بنانا اور خیبرپختونخوا کی فورس بھی متعین کرنا ہے۔


گزشتہ روز اجلاس کے بعد شاہ محمود قریشی نے کہا کہ صدرِ مملکت نے کوشش کی تھی لیکن حکومت کے رویے کے باعث بات نہیں بنی، پسِ پردہ مذاکرات کی بات فواد چودھری نے بھی تسلیم کی تھی۔ جس وقت شاہ محمود قریشی ناکامی کی بات کر رہے تھے اُس وقت الیکٹرانک میڈیا پر صدرِ مملکت سے اسحاق ڈار کی میٹنگ کی ویڈیو سمیت خبر چل رہی تھی اور یہی وہ پسِ پردہ کوشش ہے جس کا اعتراف کر کے شاہ محمود قریشی نے ناکامی کی اطلاع دی حالانکہ یہ نئی ملاقات تھی، اِس سے قبل صدرِ مملکت سرخ لکیر کے حوالے سے بات کر چکے تھے اور اُن کی ہدایت یا اطلاع کے بعد رویے بھی تبدیل ہوئے۔فواد چودھری نے کہا کہ تحریک انصاف عدلیہ اور اداروں سے تعلقات بہتر بنانا چاہتی ہے۔عمران خان نے اپنی جماعت اور سوشل میڈیا کو ہدایت کی کہ نئی عسکری قیادت کے بارے میں مہم جوئی نہ کی جائے، اِس کے باوجود بعض حضرات کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔اگرچہ زور زیادہ نہیں، البتہ جانے والے باجوہ صاحب کے خلاف محاذ جاری ہے۔


اسحاق ڈار اور صدرِ مملکت کی ملاقات کے  حوالے سے جاری پریس نوٹ تو مناسب ہی ہے، سنجیدہ فکر حلقے اور ہم جیسے لوگ ایک بار پھر مثبت توقعات لگا بیٹھے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خود صدرِ مملکت واضح نہیں ہیں،انہوں نے اس ملاقات کے بعد پھر فرما دیا کہ عوام کو مینڈیٹ پراعتماد ہوتا ہے اور عوامی مینڈیٹ کو احترام دینا چاہیے۔میرے خیال میں انتخابات سے مینڈیٹ ملتا ہے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ بلاشبہ عمران خان مقبول لیڈر ہیں، میرے جیسے مفاہمت ہی کے قائل ایک دوست نے کہا، جماعتی تعلق اور وفاداری اپنی جگہ لیکن اسحاق ڈار سے ملاقات کے بعد یہ کہہ دینا مناسب نہیں تھا۔صدرِ مملکت کو حوصلہ مند ہونا چاہیے اور نتائج حاصل کرنے تک خاموش رہنا چاہیے، وفاداری ظاہر کرنا تو ضروری نہیں تھا،اِس طرح اتحادی حکومت بھی ہتھے سے اُکھڑتی ہے۔یہ جو حالات ہیں جن کا ذکر میں نے کیا ہے، سب کے سامنے ہیں،اُن سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جو مفاہمت اور مذاکرات کی بات یہ کسی کو مطمئن کرنے کے لئے ہے وگرنہ ٹیسٹر تو وہی ہے جس کا اظہار کپتان خود کرتے ہیں۔ بہتر کیا بہترین عمل یہ ہے کہ غیر مشروط مذاکرات کی حامی بھر لی جائے اور شروعات کی جائے، جب فریقین میز پر آئیں گے تو بات اپنے اپنے موقف ہی سے شروع کریں گے اورسلسلہ جُنبانی ہو گا تو بات بن بھی جائے گی، موجودہ حالات سے یہ تو واضح ہے کہ انتخابات کے لئے وقت درکار ہے اور جلد سے جلد انتخابات بھی چار ماہ سے پہلے ممکن نہیں،اس حوالے سے اپریل 2023ء بنتا ہے لیکن ساتھ ہی بجٹ کا موسم ہو گا۔ یوں جلد والی بات بنتی نہیں، اِس لئے مذاکرات ہی سے کوئی قابل عمل حل تلاش کیا جا سکتا ہے کہ فریقین اپنا اپنا موقف بیان کر کے دلائل دے سکتے ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی شاید ممکن نہ ہو کہ کوشش میں حل طلب سنجیدگی نظر نہیں آتی۔دوسری طرف ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب اونٹ پہاڑ تلے آ چکا اور احساس ہو گیا کہ سیاست کیا ہوتی ہے، چودھری پرویز الٰہی بلاشبہ مسلم لیگ(ن) سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں،اِس مسئلے پر تو مسلم لیگ(ق) بٹ چکی ہے،چودھری واضح طور پر اپنا موقف بھی بتا چکے ہوئے ہیں اور خیال کاسترو کے حلف کے حوالے سے عمران خان کو اعتماد میں نہ لینے کا مطلب بھی یہی ہے کہ وزیراعلیٰ کو اپنے موقف کی حمایت کا یقین ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ کپتان اُن کے دلائل سے قائل ہو چکے ہوئے ہیں۔
یہ ہمارے ملک کے عمومی حالات ہیں،اِسی دوران باجوہ صاحب ریٹائر ہو کر خاموشی اختیار کر چکے، اُن کی طرف سے کسی نے بھی الزامات کا جواب نہیں دیا،اتحادی شکوہ نہیں کرتے حالانکہ دیکھا جائے تو کپتان نے جو کچھ کہا اور چودھری صاحب نے صاحبزادے سمیت جو وضاحت کی وہ تو سرا سر اتحادیوں کے خلاف بنتی ہے، اس لئے اونٹ تو پہاڑ تلے آ گیا لیکن کون سا یہ بعد میں پتہ چلے گا۔

مزید :

رائے -کالم -