ایکسٹینشن ریٹنشن 

 ایکسٹینشن ریٹنشن 
 ایکسٹینشن ریٹنشن 

  


 تحریک عدم اعتمادکی کامیابی اتحادی جماعتوں کے لیے پیامِ نویدسحر لے کر آئی۔ اُن کی سیاست کے صحرا میں گلشن آرائی ہو گئی۔دوسری طرف فریق ِ ثانی کے لیے یہی تحریک آتش فشاں کے پھٹنے اور اس کے لاوہ میں جھلسنے سے کم نہیں تھی۔ان کے لیے صورت حال یہی تھی:
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
رجیم چینج  سے نفرتوں میں مزیداضافہ نہیں ہوا۔وہ تو پہلے ہی نکتہ  ئ کھولاؤ پر تھیں۔ سیاست سدا بہارپیشہ، کام اور کارِ حیات ہے۔ سیاستدان بوڑھا ہو جاتا ہے۔ سیاست کے جوبن اور بانکپن میں فرق نہیں آتا۔ سیاست سدا سہاگن رہتی ہے۔ کئی تو ”جماندرو“ سیاستدان ہوتے ہیں۔ سیاست میں ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی، یہ چشمہ بہتا رہتا ہے، جھرنے کی جلترنگ جاری رہتی ہے، گلاب مہکتا، خوشبوئیں بکھیرتا رہتا ہے۔ سیاستدان کبھی ریٹائر نہیں ہوتا، سابق نہیں ہوتا لہٰذا اُسے ایکسٹینشن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایکسٹینشن کی بات ہو تو اس کے گرد ہماری سیاست کے ساتھ معیشت اور معاشرت بھی گھومتی ہے۔ کچھ ایکسٹینشنیں ایسی بھی ہوئیں کہ اُن کے ہونے سے سیاست اور ملک میں کسی کی نظر میں ترقی و خوشحالی کے در ”کھل جا سم سم“ کی طرح ہوا ہوئے اور کچھ کی نظر میں بربادی کا سامان کر گئیں۔کچھ ایکسٹینشنیں نہ ہونے سے کئی سیاست دانوں کی اُمیدوں کے دیے بجھ گئے۔  پولیس،ایف آئی اے، کسٹمز اور ایسے کئی محکموں کے افسر خوش قسمت ہیں جو اپنے اپنے محکموں میں اعلیٰ ترین عہدے پر جاکر ریٹائر ہوتے ہیں۔ نیب، پی آئی اے، الیکشن کمیشن جیسے محکموں کے سربراہان امپورٹ کرنا پڑتے ہیں،کیوں؟
فوج میں ہر افسر چیف نہیں بن سکتا، تین سال بعد ایک کو چیف بنائے جانے کا کبھی اصول طے نہیں ہوا تھا، سینئر موسٹ کی شرط نہیں تھی۔آرمی چیف کی تعیناتی جس کے اختیار میں رہی اُس نے مرضی کی، کبھی پہلے کو پہلے نمبر پر آنے دیا تو کبھی ساتویں نمبر والے کو بھی چیف لگا دیا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل قمر جاوید باجوہ سے سینئر  چھ جرنیل تھے۔ اُن سے قسمت روٹھی، اِن کے سروں پرہما بن کر بیٹھ گئی۔ ایکسٹینشن کے ”سر چشمے“ ایوب خان دور سے پھوٹنا شروع ہوئے۔ایوب خان، موسیٰ خان، ضیاء الحق،پرویز مشرف، اشفاق پرویز کیانی اور قمر جاوید باجوہ پاکستان کی 75 سال کی فوجی تاریخ میں 36سال ”توسیعاتی“ چیف رہے۔ 


جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کی اس کے باوجود اُن کی ریٹائرمنٹ کے آخری دنوں تک چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کہ وہ بار بار ایکسٹینشن نہ لینے کا اعلان کرتے رہے۔ کیا وہ ایکسٹینشن لینا چاہتے تھے؟ وہ ایکسٹینشن لینے میں کس حد تک چلے گئے تھے اِس کی ایک جھلک شاید بیرسٹر عثمان چیمہ کے ایک ”ٹوئٹر تھریڈ“ میں موجود ہے۔اُن کے بقول اُن کی میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے قربت رہی۔ وہ کہتے ہیں:”22 نومبرکی شام کو وزیراعظم شہباز شریف کو پیغام پہنچایا گیا کہ اگر چھ ماہ کی ایکسٹینشن نہ دی گئی تو۔۔۔وزیر اعظم نے  مشاورت کا وقت لے کر بات کو آنے والے وقت پر ڈال دیا، اِس دوران وزیراعظم کی نواز شریف سے بات ہوئی تو وہاں سے جواب دیاگیا کہ ہم سے ایکسٹینشن کی توقع نہ رکھی جائے۔ یہ پیغام من و عن اُسی طرح آگے پہنچا دیا گیا تو ایک نئی ڈیمانڈ آ گئی کہ پھر سیکنڈ سینئر موسٹ کو پروموٹ کیا جائے جس پرلندن سے پیغام ملا، یہ بھی نہیں ہو گا۔ اِسی دوران حکومتی اتحادی کو وزیراعظم کے پاس بھجوایا گیاکہ آپ سینئر موسٹ کو چھوڑ کر ہمارے نامزد کردہ بندے کو یا پھر کسی اور کو بنا دیں جس پر بھی دوٹوک جواب تھا کہ اِس بار سینئر موسٹ ہی پروموٹ ہو گا۔یہ سننا تھا کہ واپس پیغام بھجوایا گیا کہ ہم سمری روک دیں گے  اور اس طرح سینئر موسٹ ریٹائر ہو  جائے گا۔ لندن سے جواب ملا کہ آپ کو جو کرنا ہے کریں۔ساتھ ہی  حکومت نے کہہ دیا، وزیر اعظم سمری کے بغیر ہی اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے اگلی صبح نئے عہدیداران کا اعلان کر دیں گے، پھرآدھی رات کو سمری بھجوا دی گئی۔ اس دوران حکومت نے حفظ ماتقدم کے طور پر ریٹنشن کردی تھی“۔


ایکسٹینشن کے حوالے سے تگ و دو میں اگر کوئی شک ہے تو پھر عرفان صدیقی صاحب کا کالم ”ایکسٹینشن“ پڑھ لیں۔ جہاں سے مختصراً متعلقہ اقتباسات نقل کرتے ہیں:”ابھی اکتوبر میں لندن جانا ہوا توخیال تھا کہ نوازشریف، نئے آرمی چیف کے انتخاب کے لئے زائچے بنا رہے ہوں گے۔ ملاقاتیں ہوئیں تو پتہ چلا کہ نہیں!  ریٹائرمنٹ کے اعلانات کے باوجود جنرل باجوہ کی مزید آٹھ ماہ کی توسیع کے لئے منہ زور ہوائیں ”ایون فیلڈ“ کی دیواروں سے سر پھوڑ رہی ہیں“۔
عرفان صدیقی تھوڑا سا ماضی میں لے جاتے ہوئے 19 مئی کو ایک ملاقات کا احوال لکھتے ہیں۔میاں صاحب  کے چہرے کی روایتی بشاشت قدرے سنولائی ہوئی تھی۔ خیر وعافیت معلوم کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ذاتی ملازم عابد کو بلوایا اور میرا  سیل فون اٹھا کر اُس کے حوالے کر دیا۔ پھر میز پر سجے دو تین فون سیٹس کی تاریں نکالیں، ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کیا  اور آواز قدرے اونچی کی۔ پھرنوازشریف بولے جا رہے تھے اور میں تصویر ِحیرت بنا سن رہا تھا۔ انہوں نے دو تین بار مجھ سے رازداری کا عہد لیا۔
”میں جانتا ہوں پانامہ کا ڈرامہ کیوں رچایا گیا ہے؟ 2014ء کے دھرنوں سے ناکام ہو کر ایک بار پھر یہ لوگ عمران خان کو استعمال کر رہے ہیں۔ فساد کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔ عدالتوں پر دباؤ ڈال کر مجھے منظر سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ نشانہ صرف میری ذات ہے۔میرے پاس  مصدقہ اطلاعات آرہی ہیں کہ ان کی نیت ٹھیک نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ مستعفی ہو جاؤں تاکہ ملک کسی نئے عذاب سے بچ جائے“۔آہنی اعصاب کے مالک نوازشریف کے لہجے میں بلا کی شکستگی تھی۔ میں نے پوچھا: ”میاں صاحب آپ کی ذات سے ایسا کیا مسئلہ ہے؟ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟“ وزیراعظم نوازشریف اپنی کرسی سے اٹھے۔ دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور سرگوشی کے انداز میں بولے۔”ایکسٹینشن“۔
عرفان صدیقی  یہ انکشاف بھی کرگئے کہ2013ء  میں چھ برس بعد بھی جنرل پرویز کیانی کے دل میں تیسری ایکسٹینشن کی آرزو زِندہ تھی۔ راحیل شریف ہزار جتن کرنے کے باوجود بے ثمر رہے۔

مزید :

رائے -کالم -