وہ خود کو ایک پرندے کی طرح آزاد محسوس کر رہاتھا جو طوفان سے اونچا نکل گیا تھا
مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط:101
وہ ایک دیہاتی آدمی تھا اور پچھلے3 سال سے اس نے کسی گاؤں کی شکل اور اس کی مانوس آوازیں نہیں سنی تھیں سوائے ایک بار کے جب وہ جیل سے رہا ہوا تھا لیکن تب وہ اتنا پریشان تھا کہ اس نے کسی چیز پر دھیان ہی نہیں دیا تھا یا پھر بے روزگاری کے دنوں میں وہ کبھی کبھی شہر کے پارک میں جا بیٹھتا تھا لیکن سردیوں کے ٹھٹھرتے موسم میں اس نے کبھی کوئی درخت بھی توجہ سے نہیں دیکھا تھا۔ اب وہ خود کو ایک پرندے کی طرح آزاد محسوس کر رہاتھا جو طوفان سے اونچا نکل گیا تھا۔ وہ جگہ جگہ رک کر حیرت سے چیزوں اور منظروں کو دیکھتا، گائیوں کے ریوڑ، وادی میں کھلے ڈیزی کے پھول، گلاب کے پھولوں سے ڈھکی جھاڑیاںاور درختوں میں چہچہاتے ننھے پرندے۔
ایک فارم ہاؤس دکھائی دینے پر اس نے ایک چھڑی پکڑ لی اور فارم ہاؤس کی طرف بڑھا۔ کسان اپنے گودام کے باہر ایک ویگن کو گریس دے رہا تھا۔ یورگس سیدھا اس کے پاس گیا اور کہا ” مہربانی کر کے مجھے ناشتا کروادو۔“
”کیا تمھیں کام چاہیے ؟ “ کسان نے سوال کیا۔
” نہیں، مجھے کام نہیں چاہیے۔“ یورگس نے جواب دیا۔
” پھر تمھیں یہاں سے کچھ نہیں ملے گا۔“ کسان نے ترش لہجے میں کہا۔
” میں کھانے کی قیمت دوں گا۔“ یورگس نے کہا۔
” اچھا !“ کسان نے کہا لیکن پھر سرد مہری سے بولا ” ہم صبح 7 بجے کے بعد ناشتا نہیں دیتے۔“
” میں بہت بھوکا ہوں۔“ یورگس نے منت بھرے لہجے میں کہا ” میں چیزوں کے پیسے دوں گا۔“
اس عورت سے پوچھ لو۔ “ کسان نے ایک عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ عورت نرم خُو تھی۔ اس نے چند پیسوں کے عوض اسے 2 موٹے موٹے سینڈوچ، ایک پائی کا ٹکڑا اور 2سیب دےدئیے۔ وہ پائی کھاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ وہ ایک ندی پر پہنچا، باڑ پھلانگ کر کنارے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ ایک آرام دہ جگہ دیکھ کر اس نے کھانا کھایا اور ندی کے پانی سے پیاس بجھا لی۔وہ کافی دیر لیٹا مزہ لیتا رہا پھر اسے نیند آنے لگی اور وہ ایک جھاڑی کے سائے میں سو گیا۔
اس کی آنکھ کھلی تو دھوپ چڑھ آئی تھی۔ وہ اٹھ بیٹھا اور انگڑائی لے کر بہتے پانی کو دیکھنے لگا۔ پاس ہی ایک گہرا تالاب سا تھا۔ اچانک اس کے دل میں نہانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ یہاں پانی مفت تھا۔ لیتھو اینیا سے آنے کے بعد یہ اس کے لیے کھلے پانی میں نہانے کا پہلا موقع تھا۔
وہ پہلے پہل سٹاک یارڈ آیا تھا تو بالکل صاف ستھرا تھالیکن بعد میں بیماری، ٹھنڈ، غربت، غلیظ کام اور گھر کی گندگی کے باعث اس نے سردیوں میں نہانا بالکل ترک کردیا تھا اور گرمیوں میں بھی اتنے پانی سے نہاتا تھا جتنا ایک ٹب میں آجائے۔ جیل میں وہ شاور سے نہایا تھا لیکن اس کے بعد سے اب تک ایک بار بھی نہیں۔۔۔ اور اب وہ کھلے پانی میں ڈبکی لگانے جا رہا تھا۔
پانی گُنگُنا تھا۔ اس نے ایک کم عمر لڑکے کی طرح خوشی سے چھینٹے اڑائے۔ پھر کنارے کے قریب اتھلے پانی میں بیٹھ کر خود کو رگڑ رگڑ کر صاف کرنے لگا۔ اس نے جسم کا ایک ایک انچ ریت سے رگڑا، حتیٰ کہ اس نے اپنا سر بھی ریت سے مانجھا۔ پھر جوئیں مارنے کے لیے اس نے اپنا سر جتنی دیر ممکن تھا پانی میں ڈبوئے رکھا۔ سر ابھی کافی گرم تھا چناں چہ اس نے اپنے کپڑے بھی دھونا شروع کر دئیے۔ مٹی اور گریس کو پانی میں بہتا دیکھ کر اسے بہت خوشی ہوئی اور وہ امید کرنے لگا کہ شاید ان میں سے کھاد کی بُو بھی نکل جائے۔
کپڑے دھوپ میں پھیلا کر وہ پھر لمبی تان کر سو گیا۔آنکھ کھلی تو اسے بھوک لگ رہی تھی۔ کپڑے اوپر سے سوکھ کر اکڑ گئے تھے لیکن اندر سے ابھی گیلے تھے۔ اس نے انھیں ایسے ہی پہنا اور آگے چل دیا۔اس کے پاس چھری وغیرہ تو نہیں تھی لیکن اس نے اپنے زور سے ایک موٹی ٹہنی توڑ لی اور مسلح ہوکر سڑک پر چلنے لگا۔
جلد ہی وہ ایک بڑے فارم ہاؤس کے پاس سے گزرااور اس راستے پر ہولیا جو فارم ہاؤس کی طرف جاتا تھا۔ رات کے کھانے کا وقت ہو گیا تھا اور کسان باورچی خانے کے دروازے پر ہاتھ دھو رہا تھا۔” محترم جناب ! “ یورگس نے کسان سے کہا ” کچھ کھانے کو مل جائے گا؟ “ پھر اس کے چہرے کا تاثر دیکھ کر فوراً کہا” میں پیسے دے دوں گا۔“ کسان نے ماتھے پر بل ڈال کر کہا ” ہم آواروں ( tramps ) کو کھانا نہیں دیتے۔ نکلو یہاں سے!“( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔