اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ نے 26ویں ترمیم کے فیصلے تک فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت موخر کرنے کی درخواست خارج کردی۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق دنیا نیوزکے مطابق سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے 26ویں آئینی ترمیم کے فیصلے تک فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت روکنے کی درخواست دائر کر رکھی تھی،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی،آئینی بنچ نے 26ویں ترمیم کے فیصلے تک فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت موخر کرنے کی درخواست خارج کر دی۔
وکیل درخواست گزار نے کہاکہ 26ویں ترمیم کی درخواستوں کافیصلہ ہونے تک فوجی عدالتوں کا مقدمہ نہ سنا جائے،عدالت نے وکیل سے استفسارکیا کہ کیا آئینی بنچ کو سلیم کرتے ہیں ،وکیل جواد ایس خواجہ نے کہاکہ میں آئینی بنچ کا دائرہ اختیار تسلیم نہیں کرتا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ پھر آپ کمرہ عدالت چھوڑ دیں،کیا 26ویں آئینی ترمیم کالعدم ہو چکی ہے؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ آپ کی طرف سے تاخیری حربے استعمال ہو رہےہیں،ہر سماعت پر ایسی کوئی نہ کوئی درخواست ا ٓجاتی ہے۔
سپریم کورٹ آئینی بنچ نے حفیظ اللہ نیازی کو روسٹرم پر بلایا،جسٹس جمال مندوخیل نے حفیظ اللہ نیازی سے استفسار کیا کہ کیا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں؟حفیظ اللہ نیازی نے کہاکہ میں یہ کیس چلانا چاہتا ہوں،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ جو لوگ جیلوں میں پڑے ہیں ان کا سوچیں ، آپ تو اس کیس میں حق دعویٰ نہیں بنتا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ آئینی ترمیم کا کیس بھی ترمیم کے تحت بننے والا بنچ ہی سنے گا۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی ایکٹ مسلح افواج کیساتھ کام کرنیوالی پرائیویٹ کمپنیز کے ملازمین پر بھی لاگو ہے،یا تو پھر یہ شقیں بھی کالعدم کردیں پھر کہیں سویلینز کا وہاں ٹرائل نہیں ہو سکتا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ وہ تو سویلینز کی الگ قسم ہے جو آرڈیننس فیکٹری وغیرہ میں کام کرتے ہیں،خواجہ حارث نے کہا جی بالکل!آرمی ایکٹ سویلینز کی کیٹیگری کی بات ہی کرتاہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ آپ کا کیس آرمی ایکٹ کی اس شق میں نہیں آتا،
جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ کور کمانڈرز جب اپنے گھر کو بطور دفتر استعمال کریں تو کیا اسے دفتر ڈیکلیئر کرتے ہیں؟یہ بات کتنی درست ہے کہ یہ آئیڈیا بعد میں آیا کور کمانڈر کا گھر بھی دفتر تھا، وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ میں ایسے کسی نوٹیفکیشن کی طرف نہیں جا رہا، جسٹس نعیم افغان نے کہاکہ یہ بتائیں!اے ٹی سی نے ملزمان کی ملٹری کو حوالگی کیسے دی؟کیا اے ٹی سی کورٹس کا وجوہات پر مبنی کوئی آرڈر موجود ہے؟آپ یہ سوال نوٹ کرلیں بیشک آخر میں اس کا جواب دیں۔