ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا، ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر تھی،کبھی کبھار کسی بھاگتے ہوئے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دے جاتی تھی، سارا شہر سو رہا تھا

  ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا، ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر تھی،کبھی کبھار کسی ...
  ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا، ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر تھی،کبھی کبھار کسی بھاگتے ہوئے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دے جاتی تھی، سارا شہر سو رہا تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:86
رات کو کھانے کے بعد نیل کنارے سڑک پر چہل قدمی شروع کی اور فوراً ہی تنہائی کا بڑا عجیب سا احساس ہوا اور میں نے فوراً واپسی کا فیصلہ کیا، کیونکہ حیران کن طور پر اسوان شہر سارے دن کی مصروفیات اور بھاگ دوڑ کے بعد یکدم خاموش ہوگیا تھا اور 9بجے کے قریب تو یہاں ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر تھی،کبھی کبھار کسی بھاگتے ہوئے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دے جاتی تھی۔ سارا شہر سو رہا تھا۔
ادھورا ستون
اگلی صبح ہوٹل والوں سے بات کی تو انہوں نے ایک معقول معاوضے کے عوض مجھے دس بارہ امریکی سیاحوں کے ایک گروپ میں شامل کر دیا۔ ان کے ساتھ روانی سے امریکی لہجے میں بات کرنے والا ایک نوجوان گائیڈ تھا، جس نے بس میں بیٹھتے ہی سب سے مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا اور پھر مختصراً آج کے پروگرام بارے میں بتایا۔
 اس نے سب سے پہلے ہمیں اسوان شہر سے باہر ان چٹانوں پر لے جانا تھا، جہاں سے فرعون اپنے مقبروں، محلوں اور معبدوں کیلئے دیو قامت پتھر تراشتے تھے اور پھر انہیں کشتیوں میں ڈال کر دریا کے ذریعے تھبیس، اور گیزہ وغیرہ پر پہنچاتے تھے، جہاں ان کی پہلے سے طے شدہ مقامات پر تنصیب کی جاتی تھی۔ ان میں سب سے حیران کن وہ جناتی ستون تھے جن کی لمبائی ستر اسی فٹ تک ہوتی تھی اور وزن ڈیڑھ دو سو ٹن سے کیا کم ہوتا ہوگا۔ یہ پتھر کے ایک ہی ٹکڑے سے بغیر کسی جوڑ کے تراشے جاتے تھے اور بعدازاں قدیم مصری زبان میں ان کے چاروں طرف صاحب ستون کی تاریخ کندہ کی جاتی تھی۔ مغرب والے ایسے دیوقامت ستونوں کو Cleapatra Needle  یعنی قلوپطرہ کی سوئی کہتے ہیں۔ اس طرح کے کئی ستون قاہرہ اور الأقصر کے مندروں میں نصب ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے چند اور بڑے شہروں، لندن، پیرس، نیویارک میں بھی ان کو لے جا کر کھڑا کیا گیا ہے۔ جو مصر سے واپس آتے ہوئے سائنس اور تاریخ دان اٹھوا کر اپنے اپنے ملکوں میں لے گئے تھے۔ یہ ستون اتنے وزنی تھے کہ ان کو بذریعہ کشتی لے جانا ایک بہت بڑا سر درد تھا۔ بعض دفعہ تو کشتی ان کے وزن سے ڈوب بھی جاتی اور یہ دریا برد ہو جاتے۔ ایسا ہی ایک پینسٹھ فٹ اونچا اور کوئی دو سو ٹن وزنی ستون دریائے نیل کی تہہ میں دریافت کیا گیا جو ابھی تک وہاں سے نکالا نہیں جاسکا۔
اس مقام کا فاصلہ ہوٹل سے کچھ زیادہ نہیں تھا۔ گاڑی پندرہ منٹ میں ہی وہاں پہنچ گئی یہاں بھوری سی گرینائیٹ چٹانوں کا ایک سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ جس کو جگہ جگہ سے تراش کر قدیم مصری کاریگر اپنی مرضی کے مطابق ستون یا دوسرے پتھر گھڑتے تھے۔ ان منصوبوں پر اس خوبصورتی اور نفاست سے کام کیا جاتا تھا کہ مطلوبہ ستون، چبوتروں کے لئے مستطیل یا چوکور پتھر اور دیوہیکل مجسمے وغیرہ ایک ہی چٹان سے اور بغیر کسی جوڑ کے حاصل کر لئے جاتے تھے۔ پتھروں پر نقش کاری اور تحریر وغیرہ بھی یہیں کی جاتی تھی۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -