اس قوم کا ساربان کون ہے؟

اس قوم کا ساربان کون ہے؟
 اس قوم کا ساربان کون ہے؟

  

 ”اتحاد، ایمان، تنظیم“ فی الحال پہلے دو کا ذکر رہنے دیں، لیکن کیا اس قوم میں ” تنظیم “ نام کی کوئی چیز پائی جاتی ہے؟کیا ہم کوئی منظم قوم ہیں؟ دیگر باتوں کو جانے دیں، اگر آپ شادی میں کھانے کی میز پر مہمانوں کا ”پلٹنا جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا “ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ معاملہ لہوگرم رکھنے کے بہانے سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔معززین کی اس ہڑبونگ سے کچھ شک ہوتا ہے کہ عزیزی ڈارون کی تھیوری میں شاید تھوڑی بہت صداقت بھی ہے۔ اگر ہم ”ارتقا“ کی ابھی اُسی منزل پر ہیں تو دیگر اہم انسانی معاملات کو درست کرنا یقینا ہمارے بس میں نہیں ہے، چنانچہ ہماری سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک، گلیوں میں بکھرا ہوا کوڑا کرکٹ اور سرکاری محکموں میں ہونے والی بدعنوانی سے سب کچھ واضح ہے ، اور یہی حقیقت ہے ،لیکن غصہ تب آتا ہے ،جب ہر کوئی رات دن انقلابی تبدیلیوں کی باتیں کرتے نہیں تھکتا۔ ہم ان معمولی مسائل کو حل کرنے کے قابل تو ہیں نہیں، لیکن آفاقی معاملات کو سدھارنے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ شیر شاہ سوری نے بہت سی اصلاحات نافذ کیں ۔ اکبر نے سب سے پہلے زرعی اصلاحات نافذ کیں،پھر زمین سے حاصل ہونے والے محصوصلات کی مدد سے اُس نے بہتر نظام ِ حکومت کی بنیاد رکھی، فوج کو مضبوط بنایا اور شاہی دربار کے معاملات کو سدھارا۔اب ہمارے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ پی پی پی حکومت زرعی ٹیکس نافذ کر سکتی ہے اورنہ ہی کراچی کے معاملات کو درست کر نا اس کے بس میں ہے۔ پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کسی بھی قیمت پر ہال روڈ یا لبرٹی مارکیٹ کے تاجروں پر ٹیکس لگانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ چاہے پٹوارخانے کا بگڑا ہوا نظام ہو، توانائی کا بحران ہو یا سڑکوں کی تعمیر کے مسائل ہوں، ہمارے اندر ان سے نمٹنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ اس کے باوجود ہم تبدیلی کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اب جبکہ انتخابا ت سر پر ہیں.... اور اس میں دو رائے ہوہی نہیں سکتیں کہ انہیں وقت پر ہونا چاہیے .... ہمارے پاس کرنے کے لئے بہت سے کام باقی ہیں۔ ہمارے ہاں امن و امان کا مسئلہ ہے، معیشت کی حالت ابتر ہے اور سیاسی افہام و تفہیم کی فضا بنتی نظر نہیں آتی ۔ ان سب کو سدھارنے کے لئے تنظیمی صلاحیتوں کی ضرورت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ڈی این اے میں یہ چیز شامل ہونے سے رہ گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیںہے کہ ہمارے اندر خلوص کی کمی ہے، ایسا نہیںہے ، لیکن خلوص اُن جگہوں پر ملتا ہے، جہاں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا اس میںکسی کو شک ہے کہ طالبان اپنے مقصد ، چاہے وہ جتنا بھی قابل ِ مذمت ہو، کے ساتھ نہایت مخلص ہیں۔ فوجی تنصیبات پر نہایت بے جگری سے حملے، جن میں واپس بچ کر آنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے، کرنے کے لئے اپنے مقصد سے غیر معمولی وابستگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ان میں اس مقصد کے ساتھ لگن باقی رہتی ہے یا ہمارے دفاعی ادارے ان سے نمٹنے کے لئے اس لگن کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ہمیں ان کو شکست دینے کا خواب نہیں دیکھنا چاہیے۔ اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ فوج نے بہت قربانیاں دی ہیں اور قوم ان کے جذبے کو سراہتی ہے اور کسی کو اپنے دفاعی اداروں کی لگن پر بھی شک نہیں ہے ،لیکن خدا کے لئے یہ تو بتائیں کہ اب جب کہ ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں تو اس نازک وقت میں اداروںکو کمرشل معاملات میں الجھ کر اصل مقصد سے توجہ بٹانے کی کیا ضرورت تھی؟کیا پنجاب حکومت کی طرف سے راولپنڈی ڈیفنس ہاﺅسنگ سوسائٹی بل منظور کرنے اور پھر اسے وفاقی پارلیمنٹ کے پاس بھیجنے کے لئے یہ کوئی مناسب وقت تھا؟ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹیز کے قیام کی جو بھی خوشنما وجوہات بیان کی جائیں، ان کے ذریعے کچھ مخصوص افراد ہی جیبیں بھرتے ہیں۔ ان ”مقاصد“ سے باہرآنے کے لئے بھی پاکستان کو مخصوص قسم کی لگن کی ضرورت ہے اس کا بھی ہمارے ہاں فقدا ن ہے۔ اب یہ دومعاملات ایک دوسرے سے متصادم ہیں طالبان سے لڑنا اور پراپرٹی کے کاروبار میں الجھے رہنا دو مختلف باتیں ہیں۔ اب طالبان سے جنگ اس نہج پر ہے کہ ہمیں مکمل ارتکاز کی ضرورت ہے، لیکن ان معاملات کی وجہ سے ہماری توجہ بٹی ہوئی ہے، جبکہ ہمارا دشمن اپنی کارروائیوں میں نہایت پُر عزم ہے۔ طالبان کے مقابلے میں ہماری منتشر خیالی ہماری منقسم قومی نفسیات کی غمازی کرتی ہے۔ 

2005ءکے تباہ کن زلزے کے دوران مظفر آباد گیا۔ مجھے یاد ہے کہ مَیں ایک پہاڑی ، جس کا ایک حصہ پھٹ کر دریائے نیلم میں گرگیا تھا، کے نزدیک کھڑ ا تھا، جب مجھے کچھ جوانوںکی قطار نظر آئی جو بڑے منظم طریقے سے اُس خطرناک ڈھلوان پر چڑھتے ، تقریباً بھاگتے ہوئے ، آرہے تھے۔ جب وہ نزدیک آئے تو مَیں نے دریافت کیا کہ وہ کون ہیں؟ تو ایک نوجوان نے میری طرف دیکھے بغیر جواب دیا کہ اُن کا تعلق جماعت الدعوہ سے ہے۔ وہ اتنے چاک و چوبند تھے کہ کسی بھی ”جہاد “ میں حصہ لے سکتے تھے ۔ اس کے بعد مَیں نے جماعت الدعوہ کی طر ف سے قائم کردہ ایک عارضی ہسپتال دیکھا، جس میں طبی امدا د کے نہایت عمدہ انتظامات موجود تھے۔ اس میں دیگر سہولتوں کے علاوہ ایک آپریشن ٹیبل اور ماہر سرجن بھی تھے ان میں سے ایک کا تعلق انڈو نیشیا سے تھا۔ مجھے اس تنظیم سے زیادہ ہمدردی نہیں،کیونکہ کشمیر میں جہاد کبھی بھی پاکستان یا خود کشمیریوںکے مفاد میں نہیں تھا، لیکن جب بھی مَیں زلزلے کے موقع پر حافظ سعید کے تربیت یافتہ جوانوں کو کام کرتے یاد کرتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ ہم ایک سست اور کام چور قوم ہیں، لیکن مناسب تر بیت اور تنظیم سازی سے ہم اپنی فعالیت تبدیل کرتے ہوئے بہت سے مسائل سے بآسانی عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔ جماعت الدعوہ ، اور اسی طرح دیگر انتہا پسنداسلامی تنظیموں، کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر وجود میں آئی ہیں ، اس لئے ان کا کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ناممکن نظر آتاہے۔بہرحال ایسی ہی تنظیم سازی نے مجھے تحریک ِ منہاج القران کے اسلام آباد دھرنے کے دوران متاثر کیا تھا۔ اُن کے نظم و ضبط پر کوئی بھی منظم فوج رشک کر سکتی تھی۔ اس سے قطع ِ نظر کہ پروفیسر ڈاکٹرطاہرالقادری نے کیا کہا، اُن کا ایجنڈا کیا تھا یا کنٹینر کتنا گرم تھا؟ آدمیوں، عورتوں اور نوجوان لڑکیوں نے جس طرح تین چار روز تک باہر موسم کے شدائد برداشت کئے، وہ کبھی سوچ سے محو نہیں ہوگا۔ جب مَیں پی ایم اے میں تھا تو ہم نے بھی ایسی مشقیں کی تھیں اور انتخابی سیاست بھی کوئی بچوں کا کھیل نہیںہے اور مَیں اس میں کچھ مہارت حاصل کرتا جارہا ہوں، لیکن جناح ایونیو میں کھلی جگہ پر شدید سردی میں رات گزارنا ” این حکایت دیگر است “اور یہ من پسند مشروب کا گلاس تھامے مدہم روشنیوں میں صوفے پر بیٹھ کر انقلاب کی باتیں کرنے کے مترادف نہیںہے، چنانچہ اگر آج کے پاکستان میں ایسے مرد اور عورتیں موجود ہیں جو دور دراز کے مقامات سے سفر طے کر کے اسلام آباد میں دھرنا دے سکتے ہیں تو آ پ چاہے اُن کے نظریات سے اختلاف کرلیں، لیکن اُن کی غیر معمولی لگن کی داد دیناپڑے گی۔ کیا ہم پاکستان کو ایک بہتر ملک بنانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم بدعنوانی اور جاری افراتفری کا خاتمہ چاہتے ہیں؟ اسے چاہے بری پیشین گوئی کہہ لیں، یہ کام لگن اورتنظیم سازی کے بغیر نہیںہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے مفکرین بے عمل منصوبے بناتے ہوئے صرف بے پر کی اُڑانے کے ہی ماہر ہیں۔ ان کے لئے ”گفتار کے غازی “ کی اصطلاح مناسب ہے۔ اب سیاست کوئی بچوں کا کھیل نہیںہے ، اس کے لئے جن بہت سی خوبیوںکی ضرورت ہے، اُن میںسب سے اہم تنظیم سازی اور نظم و ضبط ہے، لیکن ہماری روایتی سیاسی جماعتوں سے ان باتوں کی توقع نہیں کی جاتی، بلکہ ان کو منظم کہنا ، ان پر الزام لگانے کے مترادف ہے۔ وہ اپنی من پسند راہوں پر اس طرح گامزن ہیں کہ کسی فکری تبدیلی کی روادار ہی نہیںہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے حامیوںکی تعداد بہت ہو لیکن، ان کے اندر تنظیم نامی کوئی چیز نہیں ملے گی اور نہ ہی وہ کسی کومتاثر کر سکیںگے۔ اس ”صنف “ میں طالبان ہم سے بہت آگے ہیں۔  اس بات کو ایک اور پہلو سے دیکھیں .... پنڈت روی شنکر (بھارت کے مشہور ستار نواز) شروع میں ایک رقاص اور اداکار تھے، پھر وہ فرنچ کتھولک سکول پیرس میں داخل ہوگئے۔ وہ اپنے بڑے بھائی اودے شنکر کی رقص کی ٹیم کے رکن تھے۔ اس کے بعد انہوںنے اس کو چھوڑ کر مدھیہ پردیش میں استاد علاﺅ الدین خان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ روی شنکر لکھتے ہیں” مجھے وہاںرہنے کے لئے ایک ایسا چھوٹا ساگھر ملا، جس میں چوہے اور سانپ بکثرت تھے۔ رات کی تاریکی میں الو کے بولنے کی آواز ماحول کو مزید پُراسرار بنا دیتی۔ میرا خیا ل ہے کہ ان نا مساعد حالات میں گزارہ کرنا میری بے پناہ قوت ِ ارادی اور لگن کی وجہ سے تھا۔ مجھے اس جگہ، جو میری پہلے والی رہائش سے بہت مختلف تھی، بہت مشقت کرنا پڑی۔ یہاں رہ کر مَیں گھنٹوں ستار نوازی کی مشق کرتا اور سربہار کے سبق دہراتا۔ مَیںنے یہاں سات برس تک استاد کے ساتھ ریاضت کی۔“ سات برس! ذرا تصور کریں کہ اس مشکل جگہ پر سات برس تک ریاضت نے ایک رقاص کو دنیا کا عظیم ترین ستار نواز بنا دیا۔ عظیم شاعر نرودا (Neruda) رہنما کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں....”وہ قوت ِ ارادی سے مالا مال ہوتا ہے اور وہ ریاضت سے اپنی روح کی قوت کو دریافت کرتا ہے ۔ وہ تیز طوفانوں کا مقابلہ کرتے کرتے سخت جان بن جاتا ہے۔ وہ لہو کے آخری قطرے تک لڑتا ہے، تب کہیں جا کر عوام کی رہنمائی کے لائق ہوتا ہے“....اور دوسری طرف ہم سمجھتے ہیں کہ محض بیان دینے سے ہی ہم رہنما بن گئے ہیں۔ نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔

مزید :

کالم -