کچھ تذکرہ سعودی حکمرانوں کا
خادم حرمین شریفین عبداللہ بن عبدالعزیز السعود حرم مکہ شریف کی جاری شدہ توسیع مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔ حرمین شریفین کی یہ مبارک سرزمین جو مملکت سعودی عرب کے نام سے جانی جاتی ہے، تقریباً سواسوسال قبل اس ریگستانی خطۂ زمین پر آل سعود کی حکومت قائم ہوئی جس کے پہلے حکمران شاہ عبدالعزیز السعود بنے، اس مملکت ریگستانی میں ان کو جو سب سے قیمتی اور بابرکت خطہ عطا ہوا، حرمین شریفین ہے، باقی سارا ملک ریت کے ٹیلوں ، خشک پہاڑوں اور غریب عوام پر مشتمل تھا۔ آبادی کم، رقبہ زیادہ وہ بھی خشک اور غربت کا مارا، اس خطۂ زمین پر حکومت کرنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ ایک بہت بڑی آزمائش تھی جو شاہ عبدالعزیز نے قبول کی اور اس بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھایا۔ غربت کے مارے بدوعوام پیٹ بھرنے کے لئے روٹی کے محتاج تھے اور چوری کرکے پیٹ بھرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ لوٹ مار بھی ہوجاتی تھی اور قتل وغارت تک بھی نوبت پہنچ جاتی تھی۔ ایسے حالات میں شاہ عبدالعزیز نے اسلامی قانون پر سختی سے عمل کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اپنے شاہی اعلان میں کہا کہ مَیں حکم باری تعالیٰ کے مطابق چور کے ہاتھ بھی کاٹوں گا اور قاتل کی گردن بھی کاٹوں گا۔ محنت اور خوشحالی کے راستے تلاش کرتے ہیں تاکہ روٹی میسر آئے اور ہاتھ اور گردنیں کٹنے سے بچ جائیں۔ قوم کے لئے روٹی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے وہ بیت اللہ شریف میں جاتے ، میزاب رحمت کے نیچے کھڑے ہوکر اللہ کریم کے حضور گریہ زاری کرتے اور قوم کے لئے خیراورخوشحالی کی بھیک مانگتے۔ وہ اپنی فریاد میں کہتے رب العزت مَیں کتنے لوگوں کے ہاتھ کاٹوں گا ۔ ان کو روٹی دے دے تاکہ یہ چوری سے باز آجائیں اور میری مملکت سے ڈاکے اور قتل ختم ہوجائیں۔
قوم کی فلاح وبہبود کے علاوہ انہوں نے حرمین شریفین میں جہاں مرمت کی ضرورت تھی، وہاں مرمت کی اور جہاں توسیع کی ضرورت محسوس کی، اس کارخیر کو بھی شروع کرایا۔1999ء میں مجھے سعودی عرب کے دارالخلافہ الریاض جانے کا موقعہ ملا۔ وہاں مملکت سعودیہ کے قیام کی سوسالہ تقریبات منائی جارہی تھیں، ہرطرف چراغاں ، سجاوٹ تھی اور ٹیلیویژن مسلسل اس سوسالہ تاریخ کو دہرا رہا تھا۔ ان سوسالوں میں جو تعمیرات، جو ترقی اور جو خوشحالی اس خطۂ زمین کو میسر آئی اس کی دنیا میں بہت کم مثالیں ملیں گی۔ شاہ عبدالعزیز کی ٹیلیویژن پر ایک تصویردکھائی جا رہی تھی اور اس تصویر میں ایک عمر رسیدہ امریکن کو دیکھاجو اپنے بیٹے کو گود میں لئے بادشاہ کے ساتھ بیٹھا ہے ۔ 1999ء میں یہی لڑکا سوسالہ جشن کے موقع پر بوڑھا ہوکر اپنے باپ شاہ عبدالعزیز سے رفاقت ، تعلق، اعانت اور حکومت چلانے کے طریقے اور مالی تعاون کی باتیں سنا رہا تھا۔ ظاہر ہے قیام مملکت کے وقت انہیں ان سب چیزوں کی ضرورت تھی۔ اس وقت کے اسلامی ممالک اور دنیا کے امیر مسلمانوں نے بھی ان سے مالی حالات بہتر بنانے کے لئے تعاون کیا، مَیں دہلی کے ایسے دوسوداگروں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے مالی تعاون کیا۔ ان میں ایک حاجی علی جان تھے جن کے نام پر مکہ معظمہ میں محلہ علی جان تھا۔ جو محلہ بنی ہاشم کی طرف شہر کی توسیع کا شکار ہوچکا ہے ۔ دوسرے صاحب جامع مسجد کے سامنے ایک حویلی میں رہتے تھے۔ ان کی حویلی کے بالکل ساتھ پرائمری سکول میں میں چارسال تک پڑھا اور اس بزرگ شخصیت کو دیکھتا رہا، ہم انہیں مکی صاحب کہتے تھے۔ بلکہ زیادہ لوگ انہیں اسی نام سے جانتے تھے۔
1953ء میں شاہ عبدالعزیز کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے شاہ سعود نے اقتدار سنبھالا۔ اپنے دور حکومت میں انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کا بھی دورہ کیا۔ ہندوستان کے دورہ پر گئے تو حکومت ہند کو پوچھنا پڑا کہ آپ کا فلیگ کس سائز کا ہونا چاہئے ، نیز آپ کھانے میں کیا پسند فرمائیں گے؟ فلیگ کے سائز کے ساتھ جو جواب دیا گیا وہ یہ تھا کہ ہم کھانا اپنا ہی کھائیں گے۔ اس دورے کے جواب میں ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ شاہ سعود بن عبدالعزیز سے ملاقات کے بعد وزیراعظم نہرو نے حرمین شریفین کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو شاہ سعود نے جواب دیا کہ مَیں معذرت چاہتا ہوں۔ ایسا کرنے سے میرے اللہ اور اس کے نبی ؐ نے منع فرمایا ہے۔
شاہ سعود بن عبدالعزیز نے پاکستان کا دورہ اس وقت کیا جب عنان حکومت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ہاتھ میں تھی۔ دارالخلافہ کراچی تھا۔ صدر میں وکٹوریہ روڈ (عبداللہ ہارون روڈ) اور الفنسٹن سٹریٹ (زیب النساء سٹریٹ) سے سعودی فرمانروا کی سواری گزری اور مجھے بڑے قریب سے انہیں کار میں دیکھنے کا موقعہ ملا۔ انہیں ٹرین میں حیدرآبادکا بھی دورہ کرایا گیا۔ واپسی پر ریلوے سٹیشن پر لوگوں کا ہجوم امڈ آیا۔ وہ بادشاہ کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے تھے۔ ہجوم سے آگے ایک مرغی پھڑ پھڑاتی ہوئی آگئی اور ریلوے لائن پر گر کر کٹ گئی۔شاہ سعود کے علم میں یہ بات آئی اور انہوں نے مرغی کے مالک کا پتہ چلایا۔ جب مطلوبہ فرد مل گیا تو بادشاہ نے اسے تین ہزار ریال دیئے۔ کراچی میں شاہ سعود نے غربا کے لئے ایک کالونی بنانے کا اعلان کیا۔ ان کے نام پر کوارٹروں کی ایک کالونی سعود آباد کے نام سے وجود میں آئی، جس میں ہزاروں خاندانوں نے رہائش اختیار کی۔ حرمین شریفین کی توسیع کے لئے بھی انہوں نے بڑا کام کیا۔ شاہ سعود کو ان کی زندگی میں ہی منصب سے ہٹا دیا گیا۔
فیصل بن عبدالعزیز السعود نے سعودی حکومت چلانے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی۔ وہ شاہ سعود کی طرح لمبی چوڑی شخصیت کے مالک نہیں تھے، مگر فیصلے کرنے میں مرد آہن ثابت ہوئے ۔ فلسطین کی جنگ میں انہوں نے پٹرول کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرکے امریکیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو متحد اور مضبوط کرنے کے لئے اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرائی۔ پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو میزبان بنے اور لاہور کے اسمبلی ہال میں یہ عظیم الشان کانفرنس 22فروری 1974ء بروز جمعۃ المبارک منعقد ہوئی۔ تقریباً 50ممالک کے مسلمان سربراہان اس کانفرنس میں شریک ہوئے ، نتیجہ یہ دکھائی دے رہا تھا کہ مستقبل میں شاہ فیصل کا پیسہ اور ذوالفقار علی بھٹو کا دماغ عالم اسلام کو ایک عزت دار مقام دلانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ یہ اتحاد کفار کے وارے میں نہ آیا اور انہوں نے دونوں کو منظر عام سے ہٹانے کے منصوبے بنائے ۔ جب اسلامی کانفرنس شروع ہوئی تھی تو پہلے تمام سربراہ نماز جمعہ پڑھنے شاہی مسجد گئے ، کوئی ایک سو کاروں کا قافلہ تھا تمام سربراہان کوکار میں سے عوام کو ہاتھ ہلاتے دیکھنے کا قریب سے موقع ملا، دودن بعد تمام مہمانان گرامی کا شالیمار باغ میں استقبالیہ تھا، مجھے بھی اس میں شریک ہونے کا موقع ملا ۔ شاہ فیصل نیزدیگر سربراہان کو مزید نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا۔ سربراہان کی شکلیں آج بھی ذہن پر نقش ہیں۔
کفار کا اتحاد شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو کو کسی بھی طریقے سے راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوگیا۔ 1975ء میں شاہ فیصل شہید کی حکومت ختم ہوگئی اور ان کے تیسرے بھائی شاہ خالد نے عنان حکومت سنبھالی۔ یہاں کچھ اور اضافہ کروں۔ جب شاہ سعود اقتدار میں تھے تو ہمارے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے سعودی عرب کا پہلا دورہ کیا، وہ ماہر اقتصادیات تھے۔ انہوں نے بادشاہ اور ان کی تیل سے متعلق ٹیم سے امریکہ کو بیچے جانے والے تیل کا طریقہ کار پوچھا۔ وہ طریقہ کسی طرح بھی مناسب نہیں تھا۔ خریدنے والا ہوشیار تھا اور بیچنے والا ناتجربہ کار، لہٰذا سعودی حکومت کو پیمائش کے حساب سے ریٹ طے کرنے کے بعد تیل بیچنے کا مشورہ دیا، بلکہ طریقہ سکھایا، جس کو شاہ سعود نے اتنا سراہا کہ ملک غلام محمد کو مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کے بالکل سامنے ایک بڑی عمارت ہدیہ کی۔ ملک غلام محمد نے اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا اور اس عمارت کو ’’پاکستان ہاؤس‘‘ کا نام دے کر پوری پاکستانی قوم کے لئے وقف کردیا۔ یہ عمارت بھی توسیع کی زد میں آگئی ہے اور اب نئی عمارت کچھ فاصلے پر تعمیر کردی گئی ہے جس پر پاکستان ہاؤس کے حوالے سے پاکستانی پرچم لہراتا رہتا ہے۔
1975ء میں شاہ فیصل شہید کی شہادت کے بعد مجھے بحرین سے سعودی عرب کے شہردہران کا سفر کرنا پڑا۔ رات کی فلائٹ تھی اور سمندر میں کئی جگہ آگ لگی ہوئی تھی۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ تیل کے جن کنوؤں سے نفع بخش تیل نکلنے کی امید نہیں ہوتی، انہیں آگ لگادی جاتی ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اگر آگ نہ لگائیں تو تیل پانی پر پھیل کر پانی کو آلودہ کردیتا ہے جس سے آبی جانوروں کے علاوہ اور نقصانات کا بھی احتمال ہوتا ہے۔ دہران سے مجھے دمام اور الخوبر جانے کا بھی موقع ملا۔ دمام میں تیل نکلنے اور تیل کے جہاز بھرتے دیکھنے کا موقع ملا اور الخوبر میں ایک شاندار یونیورسٹی دیکھی جس کا نام کنگ فیصل پٹرولیم یونیورسٹی تھا، جہاں ماہرین نے تحقیق کر کے 300بائی پروڈکٹس تیار کر لئے تھے۔1980ء میں مجھے ریاض میں شاہ خالد کے محل کے بالکل ساتھ خوبصورت مسجد میں نماز مغرب پڑھنے کا موقع ملا۔ کسی نے خبر دی کہ شاہ خالد محل سے باہرآنے والے ہیں۔ کچھ دیر انتظار کے بعد ہم تو آگے چل پڑے۔ شاہ خالد نے بھی پاکستان کا دورہ کیا ، جیسا کہ غیرملکی سربراہان کو شالیمار میں استقبالیہ دینے کا رواج چلا آ رہا تھا، ان کے اعزاز میں بھی راستوں اور شالیمار باغ کو خصوصی طور پر سجا کر شاہی استقبالئے کا اہتمام ہوا۔
مجھے اس پارٹی میں بھی شرکت اور سرخ قالین پر چلتے شاہ سعودی عرب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ شاہ فیصل شہید سے ذرا دراز وفربہ تھے۔ مہمانوں سے گزارش کی گئی تھی کہ محفل میں نظم وضبط تو اپنی جگہ، چائے کی پیالی میں چمچی چلانے کی بھی آواز نہ نکلے۔ شاہ خالد بن عبدالعزیز شالیمار کی بالکونی سے اپنا دیدار کرائیں گے۔ مہمان اپنی جگہ کھڑے کھڑے ہاتھ ہلاکر ان کا استقبال کریں۔ نظم وضبط اور خاموشی پر بڑا زور تھا۔ لوگوں سے بڑی تاکید کی جارہی تھی کہ جب تک مہمان گرامی تشریف نہیں لے جاتے وہ اپنی نشستوں پر تشریف فرما رہیں۔ شاہ خالد السعود کی وفات کے بعد ان کے سوتیلے بھائی فہد بن عبدالعزیز السعود سعودی عرب کی حکومت کو چلانے کے ذمہ دار قرار پائے۔ انہوں نے حرمین شریفین کی ناقابل بیان توسیع ، سعودی عرب کی تعمیر وترقی کے ساتھ اپنے آپ کو خادم حرمین شریفین کہلوانا پسند کیا۔ سعودی تاریخ میں شاہ فہد کا نام اس اعتبار سے سونے کے حروف سے لکھا جائے گا۔ 1982ء سے 2005ء تک شاہ فہد نے سعودی عرب میں حیران کن کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ اس عرصے میں مجھے کوئی پانچ بار حج اور عمروں کی سعادت کے لئے سعودیہ جانا پڑا۔ ہربار ہونے والی ترقی پر عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ شاہ فہد کے انتقال پُرملال سے بڑا دُکھ ہوا، ان کا جنازہ اور تدفین براہ راست ٹی وی پر دیکھی۔
شاہ فہد بن عبدالعزیز السعود کے دورِ حکومت میں ان کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ السعود اکتوبر 1998ء کو پاکستان کے دورہ پر تشریف لائے،ان کے اعزاز میں ہمارے وزیراعلیٰ نے شالیمار باغ میں ان کے شایان شان استقبالئے کا اہتمام کیا۔ معززین شہر نے اس شاہی استقبالیہ میں شرکت کی۔ مجھے اس میں شرکت کا موقع ملا اور خوبصورت شہزادے کو سرخ قالین پر چل کر اپنی شاہی نشست تک جاتے دیکھا۔ شالیمار کا نہایت عمدہ اہتمام دیکھنے میں آیا۔ اگلے روز شہزادہ عبداللہ کا عشائیہ شاہی قلعہ میں تھا۔ قلعہ کو سجا کر مغل دور کو لوٹا دیا گیا تھا۔ولی عہد تشریف لائے تو وزیراعظم کے ساتھ بگھی میں بیٹھ کر دیوان خاص تک گئے۔ ہرطرف ایسا لگ رہا تھا جیسے مغل دور حکومت واپس لوٹ آیاہے۔ مغل ماحول پیدا کرنے کی پوری سعی کی گئی تھی۔ولی عہد اپنی نشست پر تشریف فرماہوئے تو گھوڑوں کا رقص ، آتش بازی ، اورمقامی ثقافت کے کئی رنگ ان کی خدمت میں پیش کئے گئے۔ اس کے بعد مہمان گرامی نے میزبانوں کے ساتھ پُر تکلف کھانا نوش فرمایا۔ سرخ و سفید، لمبے ٹرنگے، خوبصورت ولی عہد عبداللہ کو دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ انہوں نے بھی حرمین شریفین کے خادم کی حیثیت سے حرمین کی بڑی توسیع کرائی مکہ، منیٰ ٹرین چلائی، سعودی عرب کی ترقی، حاجی حضرات کی سہولت اور خدمت پرہم جتنا فخر کریں کم ہے۔ ابھی کام جاری تھا کہ وہ 23 جنوری 2015ء کو ہمیں داغ مفارقت دے کر اپنے خالق حقیقی سے بروز جمعۃ المبارک کو جاملے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون