حسین حقانی کے مغالطے!
گزشتہ سوموار (2فروری2015ء) حسین حقانی کا ایک مضمون ہمارے پریس میڈیا کے علاوہ انٹرنیشنل پریس میڈیا میں بھی شائع ہوا۔ انگریزی زبان میں کوئی کالم یا مضمون لکھنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی تشہیر وسیع پیمانے پر ہو جاتی ہے اور حقانی تو ویسے بھی امریکہ میں پاکستان کے ایسے سفیر رہے کہ اُن جیسی متنازعہ شخصیت آج تک امریکہ جیسے بڑے مُلک میں کبھی اتنے وقیع منصب پر فائز نہیں رہی۔ وہ2008ء سے لے کر2011ء تک پیپلزپارٹی کے دور میں واشنگٹن میں اسلام آباد کی سفارت کاری کے فرائض ادا کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے دورِ سفارت میں پاکستان کی دفاعی افواج اور خصوصاً آئی ایس آئی کے خلاف جو محاذ آرائی کی اُس کی خبر ہر قاری کو ہے۔ اگر زرداری صاحب کا ایوانِ صدارت ان کو پناہ نہ دیتا تو ان کا ٹھکانہ آج امریکہ کی بجائے کہیں اور ہوتا۔
حقانی بنیادی طور پر ایک صحافی تھے جو مبدّل بہ سفارت کار ہو گئے۔ ان کے سیاسی علم و فضل اور طلاقتِ لسانی سے انکار نہیں۔ وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کی تحریر و تقریر میں ایک خاص مقام کے حامل ہیں۔ لیکن افسوس کہ اُن کی غلط سوچ نے ہمیں ایک اچھے پاکستانی لکھاری، مقرر اور سفارت کار سے محروم کر دیا۔ پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس کے جوہرِ قابل کا ایک حصہ اس کی تعمیر کی بجائے اس کی تخریب میں ضائع ہو جاتا ہے۔جب جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دورِ سپہ سالاری میں حقانی کو زرداری صاحب نے بچا لیا تو پاکستان کے ایک معروف میڈیا ہاؤس نے یہ سمجھا کہ وہ بھی پاک فوج اور آئی ایس آئی کی تضحیک کر کے بچ نکلے گا۔ لیکن جب اُس میڈیا ایمپائر کے فرمانروا نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو جنرل کیانی کی جگہ جنرل راحیل شریف نے لے لی تھی۔ انہوں نے اس معروف میڈیا گروپ کو بارِ دگر ایسا کرنے کی اجازت نہ دی۔
آج حسین حقانی کے ایک ایسے مضمون کا تذکرہ مقصود ہے جو امریکی صدر اوباما کے حالیہ دورۂ بھارت کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اوباما بھارت آئے اور پاکستان نہیں آئے۔ اس پر پاکستانی میڈیا پر بہت کچھ بولا اور لکھا جا چکا ہے۔ خود وزیراعظم نے بھی اوباما کی وزٹ پر تبصرہ کر کے اُن کو کلین چٹ دے دی اور کہا کہ انہوں نے اِس دورے سے ایک ماہ قبل مجھے اپنے پروگرام سے مطلع کر دیا تھا اور پاکستان نہ آنے کی وجہ (یا وجوہات) بتا دی تھی۔ لیکن حسین حقانی نے اس وزٹ پر، پاکستان کی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ دفاع کو جو نصیحتیں کیں وہ بہت ’’دلچسپ اور معلومات افزاء‘‘ ہیں۔ حقانی صاحب کا خیال ہے کہ وہ ایک سابق سفارت کار ہونے کے ناطے شائد پاکستان اور بھارت کے سٹرٹیجک تعلقات و معاملات پر بھی ایسا تبصرہ کرنے کے اہل ہیں جو اہلِ نظر کی نظر میں سرا سر محلِ نظر ہے۔ مَیں ان کے مضمون کے بعض حصے یہاں نقل کر کے سفیرِ موصوف کے دل کا غبار قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ فرماتے ہیں:
’’پاکستان اور بھارت قوموں کی برادری میں برابر اور ہمسر ہیں۔ لیکن وہ ایک دوسرے سے ان معنوں میں برابر ہیں جس طرح بیلجیم اور فرانس برابر ہیں یا بیلجیم اور جرمنی برابر ہیں۔ بھارت کی آبادی پاکستان سے چھ گنا زیادہ ہے اور اس کی اکانومی پاکستان سے دس گنا بڑی ہے۔ ہر چند کہ بھارت میں غربت بھی ہے اور کرپشن بھی، لیکن اس کا سامنا تو پاکستان کو بھی ہے۔ بھارتی اکانومی کا حجم2000ہزار بلین ڈالر ہے، لیکن پاکستان کا حجم محض 245بلین ڈالر ہے‘‘۔
’’انڈیا، اپنی قومی قوت کے بہت سے پہلوؤں میں پھل پھول رہا ہے جبکہ پاکستان صرف جوہری وار ہیڈز اور ان کے ڈلیوری سسٹم بنانے ہی کو بھارت سے ہمسری سمجھ رہا ہے۔ پاکستانیوں کو یہ تک نہیں بتایا جاتا کہ ان دونوں ملکوں کے مابین ایجوکیشن اور سائنسی تحقیق و ایجاد کے میدانوں میں کتنا بڑا فرق موجود ہے۔‘‘
تعجب ہے کہ حسین حقانی جیسا پڑھا لکھا اور تاریخ عالم کا طالب علم یہ بھی نہیں جانتا کہ کسی ملک کی آبادی کی کثرت اور اس کی مالی ثروت مندی اس کی عظمت کی امین نہیں بن سکتی۔ ان کو بھارت کی تاریخ پر اگر ایک سرسری نظر ڈالنے کاموقع ملے تو انہیں معلوم ہو گا کہ ایک ہزار برس تک جن مسلمانوں نے برصغیر پر حکومت کی ان کی نہ آبادی کثیر تھی اور نہ ان کی معیشت مضبوط تھی۔ گیارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں سلطان محمود غزنوی کیا تھا اور اس کی ریاست کا رقبہ کتنا بڑا تھا؟ حسین حقانی نے بھارت کی آبادی کو پاکستان کی آبادی سے چھ گنا زیادہ بتایا ہے۔ ان کو سوچنا ہو گا کہ ریاست غزنی کی آبادی بمقابلہ ہندوستان جنت نشان1001ء میں کتنی تھی اور جب محمود نے 1024ء میں سومنات پر سترھواں حملہ کیا تھا تو تب بھی دونوں ملکوں کی آبادیوں کا تناسب کیا تھا؟
پھر حقانی معیشت کی بات کرتے ہیں۔۔۔ وہ اس بات کا جواب دیں کہ غزنویوں، غوریوں، مغلوں (بابر) اور افغانوں (نادر اور ابدالی) کی معیشت کا تناسب بمقابلہ ہندوستانی معیشت کیا تھا؟ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ صرف آبادی کی کثرت اور مال و دولت کی ریل پیل کسی مُلک کی عظمت کی دلیل نہیں ہوتی۔ اس ’’عظمت‘‘ کے اسباب کچھ اور ہوتے ہیں جو ایک دوسرا اور وسیع مضمون ہے۔ اقبال یاد آ رہا ہے:
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال، بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر حقانی مسلمانوں کی مثال دینے سے کتراتے ہیں تو ان کو یہ تو معلوم ہو گا کہ سترھویں صدی عیسوی میں افرنگیوں کی آبادی اور ان کی معیشت کا باہمی تناسب کیا تھا۔ کیا برطانویوں نے جب ایک وقت میں کینیڈا، امریکہ، برصغیر، آسٹریلیا اور افریقہ کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کیا ہوا تھا تو ان کے اپنے مُلک (برطانیہ) کا رقبہ کتنا تھا؟۔۔۔ اس کی آبادی کتنی تھی؟۔۔۔ اور اس کی معیشت (اکانومی) کتنی مضبوط تھی؟۔۔۔ مسلمانوں نے برصغیر کو ایک ہزار برس تک زیر نگیں رکھا، برطانیہ نے دو سو برس تک دنیا کے ایک بڑے حصے کو زیر تسلط رکھا اور بیسویں صدی کی دونوں عالمی جنگوں میں جرمنی نے سارے یورپ کو دس برس تک زیر اقتدار رکھا تو اس کی وجہ یا وجوہات کیا تھیں؟
چلو اگر یہ ماضی کا قصہ ہے تو حال کے امریکہ کو دیکھ لیتے ہیں۔۔۔۔ امریکہ کی آبادی30کروڑ ہے اور بھارت کی آبادی امریکہ سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے تو کیا بھارت، امریکہ کا مقابلہ کر سکتا ہے؟۔۔۔ رہی اکانومی کی بات تو سعودی عرب اور دوسرے’’شیوخ ممالک‘‘ کی اکانومی کی طرف نظر دوڑائیں۔ جاپان اور جرمنی کی اکانومی دیکھ لیں۔ یہ تینوں ممالک (سعودی عرب، جاپان اور جرمنی) مل کر بھی آج امریکہ کے مقابل نہیں ٹھہر سکتے!
اگر اکانومی کی فراوانی اور آبادی کی کثرت کسی قوم یا مُلک کی قوت کا بیرو میٹر نہیں بن سکتی تو پھر کیا فوجی قوت میں یہ راز پنہاں ہے؟۔۔۔ لیکن آپ کو دیکھنا ہو گا کہ امریکہ سے زیادہ طاقتور دوسری قوم آج کون سی ہے؟ اور اگر امریکہ کے ساتھ یورپ کی28دوسری جدید اقوام (ماسوائے روس) کو شامل کر لیں تو تصور کیجئے کہ ان کی مشترکہ فوجی قوت کا گراف کیا ہو گا؟۔۔۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہی امریکہ تھا جو ننگ دھڑنگ ویت نامیوں کے ہاتھوں رسوا ہو کر ویت نام سے نکلا اور اگر کوئی قاری یہ کہیں کہ ویت نام کی جنگ میں ویت نامیوں کی پُشت پر چین اور روس دونوں کھڑے تھے تو یہ بتائیں کہ افغانستان کی پُشت پر کون سے ممالک کھڑے تھے؟ کیا افغانستان جوہری قوت تھا؟ کیا اس کی کوئی فوج ایسی مضبوط تھی جو ناٹو اور ایساف کا مقابلہ کر سکتی تھی؟ تو پھر تیرہ برس تک ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے بعد بھی یہ سارے افرنگی، افغانستان سے کیوں بھاگے؟۔۔۔ حسین حقانی کو ان سوالوں کا جواب ضرور سوچنا چاہئے۔
اس کے بعد اپنے آرٹیکل میں حقانی صاحب آگے چل کر ایک اور ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’اوباما کے حالیہ دورۂ بھارت کے بعد پاکستان کی ناراضگی کا سارا فوکس اس اس بات پر ہے کہ ہاں ہاں امریکہ نے بھارت کو سیکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی حمایت کیوں کی ہے اور نیو کلیئر سپلائرز گروپ (NSG) کا ممبر بنائے جانے پر بھی غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان ان دونوں مراعات کا مطالبہ امریکہ سے اپنے لئے تو نہیں کر سکتا تھا، اس لئے اس کا اصرار ہے کہ یہ مراعات بھارت کو بھی نہ دی جائیں!‘‘۔۔۔ یعنی نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے!
حقانی صاحب بھارت کی محبت میں اتنے ریشہ خطمی کیوں ہوئے جاتے ہیں اور اوباما کو اتنا عظیم اور فیاض صدر امریکہ تسلیم کرنے پر کیوں مصر ہیں تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ واشنگٹن میں بیٹھے ہیں اور ہڈسن انسٹیٹیوٹ میں ساؤتھ اور سنٹرل ایشیاء چیئر کے ڈائریکٹر ہیں؟۔۔۔ ان کو شائد اپنی کرسی کی فکر ہو گی، لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ جس مُلک کو بھارت کے مقابلے میں نیچا دکھانے اور ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، اسی کی خاک سے پیدا ہوئے، اُسی نے ان کو پال پوس کر جوان کیا اور اُسی کا نام اُن کی وج�ۂ شہرت بنا۔ تو آج اُسی ارضِ پاک کی خاکِ پاک پر طعن و تشنیع کے ’’ڈونگرے‘‘ برسا کر وہ کس طرح کا کفرانِ نعمت کر رہے ہیں؟پچھلے دِنوں ان کی ایک کتاب ’’عظیم الشان مغالطے‘‘ ( Magnificent Delusions) بھی شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے جی بھر کر پاکستان کا ’’حقِ نمک‘‘ ادا کیا ہے۔ اس پر تبصرہ کسی اور وقت پر اٹھا رکھتا ہوں۔
تاہم اس کالم کے آخر میں یہ ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حسین حقانی نے صحافی ہوتے ہوئے ایک غیر صحافیانہ حرکت کا ارتکاب بھی کیا ہے۔ انہوں نے جو آرٹیکل پاکستان کے پریس میڈیا کے لئے بھیجا ہے وہ اور ہے اور جو بھارت کے میڈیا کے لئے بھجوایا ہے وہ اور ہے۔ اگرچہ دونوں کا تھیم (Theme) ایک ہے تاہم بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والے مضمون کی ’’کاٹ‘‘ زیادہ ’’اینٹی پاکستان‘‘ اور ’’پرو انڈیا‘‘ ہے۔
حقانی صاحب کا وہ مضمون کہ جس کے حوالے اوپر دیئے گئے ہیں وہ پاکستانی اخباروں میں شائع ہوا ہے (دیکھئے ’’ڈان‘‘ لاہور صفحہ اول مورخہ2فروری 2015ء) اس کا عنوان رکھا گیا ہے ’’ ایک نئی خارجہ پالیسی کا نمونہ‘‘ (A New Foreign Policy Paradigm) اور جو بھارتی اخباروں میں ایک روز پہلے شائع ہوا اس کا عنوان ہے:’’پاکستان کی بھارت سے برابری کی کوشش ناکام‘‘ (Pakistan\'s Elusive Quest For Parity) (دیکھئے روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ نئی دہلی مورخہ یکم فروری2015ء)
اس موخر الذکر مضمون کے بعض حصے تو وہی ہیں جو پاکستانی اخباروں میں شائع ہوئے جبکہ بعض ایسے ہیں جو انتہائی اشتعال انگیز اور پاکستان مخالف ہیں۔ مَیں اختصار کی خاطر صرف ایک دو فقروں کا ترجمہ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔’’ دی ہندو‘‘ والے آرٹیکل میں حسین حقانی لکھتے ہیں: ’’یوں تو چین پاکستان کا ایک قریبی اتحادی ہے، لیکن چین اگر چاہے بھی تو توازنِ قوت کو پاکستان کے حق میں تبدیل نہیں کر سکتا۔ چین اپنی یوغر مسلم اقلیت کی بڑھتی ہوئی پرابلم کی وجہ سے پاکستان کے بارے میں اُس عالمی تاثر کو زیادہ متاثر نہیں کر سکتا کہ پاکستان دنیا بھر میں اسلامی دہشت گردی کا گڑھ ہے‘‘۔
حسین حقانی کراچی میں پیدا ہوئے، والدین کا تعلق پڑھے لکھے متوسط گھرانے سے ہے، کراچی یونیورسٹی ہی سے بی اے اور ایم اے کیا۔ آٹھ برس تک صحافی رہے ۔اسلامی جمعیت طلباء سے تعلق رہا۔ محمد نواز شریف کے عہدِ وزارتِ عظمیٰ میں سری لنکا میں پاکستان کے سفیر رہے۔ پھر پینترا بدلا اور پی پی پی میں چلے گئے اور بے نظیر صاحبہ کے ترجمان بن گئے۔ پہلے لکھ آیا ہوں کہ زرداری صاحب کے دورِ صدارت میں واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے اور میمو گیٹ قضیے میں ملوث ہونے کی وجہ سے پاک فوج کے لئے شخصِ نامطلوب ٹھہرے اور2011ء سے لے کر اب تک امریکہ میں بظاہر جلاوطنی کے دن گزار رہے ہیں، لیکن جب بھی موقع ملتا ہے امریکہ کی مدح سرائی اور بھارت کی طرف داری اس لئے کرتے ہیں کہ امریکی ایڈمنسٹریشن بھی خوش رہے اور پاکستان کے مخالفین بھی دلشاد ہوں!