’’مجبورستان‘‘
ولی محمد صراف ، عبدالرحمن نورانی اور بعض دیگر ایسے بڑے بڑے تاجر جو پشاور یا اسلام آباد میں رہتے تھے اور بہت مالدار تھے سے پاکستانی اہلکاروں نے بھاری رقم لوٹی اور پھر امریکا کے ہاتھ فروخت کر دیا جو اب بھی گوانتاناموبے میں زندگی کی قبروں میں پڑے ہیں۔ عرب مجاہدین کے ساتھ جو سلوک پاکستان میں ہوا وہ گوانتاناموبے میں بھی نہیں ہوا۔ گوانتاناموبے کے قیدی پاکستان کو ’’مجبورستان‘‘ کہہ کر پکارتے۔
ہر روز نئے نئے سوال:
گوانتاناموبے میں تفتیش کے مراحل بڑے عجیب تھے۔ تفتیش کا محور کوئی خاص ایشو نہیں تھا۔ نہ تفتیش کاروں کے ہدف کا پتہ چلتا اور نہ اس بات کا پتہ چلتا کہ ان کو تلاش کس کی ہے؟ ہر روز نئے نئے سوال پوچھے جاتے ۔ کبھی کبھی پرانے سوالات دہرائے جاتے۔ جرم کی باتیں پیچھے رہ جاتیں۔ ایک بار تفتیش کرنے والے نے کہا کہ یمن میں بحری جہاز تباہ کیا گیا تھا جس میں گیارہ امریکی عہدیدار ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے میں آپ کا ہاتھ تھا اور آپ اس وقت یمن میں موجود بھی تھے۔ میں نے کہا میں یمن کیسے گیا تھا؟ اور کس راستے سے گیا تھا؟ اس نے کہا کہ ایران سے قطر اور قطر سے یمن گئے تھے۔ میں نے کہا کہ آپ کو بحری جہاز کے آنے کا وقت اور جانے کا وقت معلوم تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ میں نے کہا میں دھماکہ خیز مواد اپنے ساتھ لے کر گیا تھا یا نہیں؟ اس نے کہا معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ کو بحری جہاز کے لنگر انداز ہونے کا وقت اور جگہ معلوم نہیں تو میں کس طرح نامعلوم بحری جہاز میں ایران ، قطر اور پھر یمن گیا؟ اگر کوئی یہ ثابت کرے کہ میں نے آج تک ایران، قطر یا یمن دیکھا ہے تو میں آپ کا ہر الزام تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں۔
بیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آپ کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوگی:
شاید یہ سارے تفتیش کار ہم سب قیدیوں کو انتہائی سادہ سمجھتے تھے اور ہم سے ایسے پیش آتے جیسے ہم بچے ہوں۔ ایک دن چھوٹے قد کے موٹے شخص نے آکر انتہائی بدتمیزی سے بات شروع کی۔ میرے جوابات پر طنزیہ انداز میں مسکرا بھی دیتا اور آخر کار اس نے وہ سوال پوچھ ہی لیا جو اس کے دل میں معلوم نہیں کب سے جاگزیں تھا اس نے پوچھا یہ مسلمان آخر کب ہمارے سامنے سر تسلیم خم کریں گے؟ اس سوال سے میرا خون کھول اٹھا مگر میں نے حوصلہ کرکے جواب دیا کہ آپ کی یہ خواہش کبھی بھی پوری نہیں ہوگی۔ مسلمانوں کا ایک گروہ آپ کے خلاف امام مہدی(علیہ السلام) کے ظہور تک جہاد کرے گا اور آخر میں غلبہ مسلمانوں کا ہی ہوگا۔ اس نے پوچھا یہ گروہ کس کا ہوگا؟ طالبان کا یا القاعدہ کا؟ یا کسی اور کا؟ میں نے کہا کہ یہ مجھے معلوم نہیں مگر یہ یاد رکھیں کہ آپ اپنے اہداف تک اس قدر آرام سے نہیں پہنچیں گے۔ اس نے لمبی سانس لی اور کہا کہ کاش یہ امام مہدی جلد سامنے آئیں اور ہم ان سے نمٹیں تاکہ مسلمانوں کی یہ آخری امید بھی ختم ہو۔ میں نے کہا کہ ہمیں بھی ان کے ظہور کا شدت سے انتظار ہے۔
بھوک ہڑتال:
ایک مرتبہ قیدیوں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ بعض قیدی کھانا نہ کھاتے مگر پانی پیتے تھے بعض نے کھانا پینا دونوں ترک کر دیا۔ عرب بھائیوں نے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی۔ اس طرح275افراد کھانے سے محروم تھے۔ وہ صرف اور صرف احترام انسانیت چاہتے تھے۔ بھوک ہڑتال 26روز سے جاری تھی۔ ہر پانچ میں سے چار قیدیوں نے بھوک ہڑتال میں حصہ نہیں لیا۔ کیمپ کے انچارج جنرل نے قیدیوں کو یقین دہانی کرائی کہ جنیوا کنونشن کی بعض شقوں کے تحت قیدیوں کو حقوق دیئے جائیں گے مگر اس کے لی شرط یہ ہے کہ قیدی بھوک ہڑتال ختم کر دیں۔ کیمپ کے انچارج سعودی عرب کے شیخ شاکر جن کے پاس برطانوی شہریت تھی اور جن کو انگلش زبان پر عبور حاصل تھا کو ہر قیدی کے پاس لے جاتے اور ان کے ذریعے قیدیوں کو یقین دہانیاں دے دے کر کھانا کھانے پر راضی کیا جاتا۔ قیدیوں نے ہڑتال ختم کی اور کھانا کھانا شروع کیا۔ قیدیوں کی جانب سے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جسے قیدیوں کے مطالبات ترتیب دینے اور امریکی حکام کے سامنے پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کمیٹی میں شیخ شاکر، شیخ عبدالرحمن، شیخ غسان، شیخ جابر، شیخ ابوعلی اور میں (عبدالسلام ضعیف) شامل تھا۔
(جاری ہے۔ آخری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان مٰیں شائع ہونیوالی تحاریر سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔