سقوط ڈھاکہ کے بارے میں جنرل نیازی کے خیالات
جب سقوط ڈھاکہ کا المناک واقعہ پیش آیا تو ان دنوں مَیں لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ بی بی سی ٹیلی ویژن لندن لگاتار بنگلہ دیش پر بھارت کی بمباری دکھا رہا تھا۔ واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔
جبکہ پاکستان کا پریس عوام کو سبز باغ دکھا رہا تھا۔ بی بی سی لندن پر لندن میں پاکستان کے سفیر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) محمد یوسف خان کا بار بار انٹرویو دکھایا جارہا تھا جس میں سفیر یہی کہتا دکھائی دے رہا تھا کہ مشرقی پاکستان دفاعی لحاظ سے محفوظ ہے اور اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں۔
جب ہماری فوج نے ہتھیار ڈالے تو وہ دردناک منظر بی بی سی پر بار بار دکھایا جارہا تھا۔ پاکستانی طلباء اور عوام لندن میں خون کے آنسو رو رہے تھے۔ سقوط ڈھاکہ تمام پاکستانیوں کے لیے ایک بہت بڑا المیہ تھا۔
1992-1993ء کی بات ہے میں سول سروسز اکیڈمی والٹن لاہور میں جائنٹ ڈائریکٹر / چیف انسٹرکٹر تعینات تھا جہاں سی ایس ایس کے افسران کی ٹریننگ ہوتی ہے۔ ایک دن مجھے جنرل (ر) امیر عبداللہ خان نیازی صاحب کا فون آیا: ’’عزیز! میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔
چونکہ آپ اخبارات میں مضامین لکھتے رہتے ہیں اس لیے میں سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں اپنا مؤقف بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں میری انگریزی کتاب بھی آپ شائع کروادیں۔
‘‘ میں نے جنرل صاحب کو کہا کہ آپ آنے کی تکلیف نہ فرمائیں، میں خود آپ کے پاس حاضر ہوجاتا ہوں۔ طے شدہ وقت اور دن کے مطابق میں جنرل صاحب سے ان کی رہائش واقعہ لاہور کینٹ پر ملا۔
جنرل صاحب نے مجھے بتایا کہ پریس میں میرے خلاف کافی پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ حالانکہ تاریخ میں میرا مرتبہ طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم کی طرح ہے۔ یہ الفاظ کہنے کے بعد جنرل صاحب نے اپنے بریف کیس سے برطانیہ اور امریکہ کے عسکری تربیتی اداروں کے سرٹیفکیٹ دکھائے جو جنرل صاحب کو تربیت کے دوران اعلیٰ کارکردگی پر جاری کیے گئے تھے۔
مجھے جنرل صاحب کی اپنے بارے میں خوش فہمی اور طارق بن زیاد اور محمدبن قاسم سے مماثلت بالکل عجیب لگی۔ اگر جنرل صاحب مشرقی پاکستان میں شہید ہوجاتے تو پھر قوم انہیں ضرور عزت کے الفاظ سے یاد کرتی۔
میں اس ضمن میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جب مغربی پاکستان کی طرف سے مکمل سپلائی بند ہوچکی تھی تو میں اپنی فوج کے ہمراہ کیسے لڑتا؟ میں نے بار بار حکومت پاکستان کو مطلع کیا کہ ہم ایک لحاظ سے قلعوں میں بند ہوکر اپنا دفاع کر رہے ہیں۔
مکتی باہنی فوج اور انڈین فوج کے سامنے ہم ان حالات میں بے بس تھے۔ میں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان ڈھاکہ کی طرف سے عمارت میں رکھی ہوئی پاکستانی کرنسی کو آگ لگوادی تاکہ یہ کرنسی انڈیا کے ہاتھ نہ چڑھ جائے۔
اسی طرح سٹیٹ بینک مشرقی پاکستان کا ذخیرہ شدہ سونا کئی ٹن تھا۔ میں نے ایک کرنل کی ڈیوٹی لگائی کہ آپ اس سونے کے ذخیرے کو ہیلی کاپٹر میں ڈال کر سمندر میں پھینک دیں تاکہ انڈیا اس پر قبضہ نہ کرلے۔ چنانچہ کرنل نے میرے حکم کی تعمیل میں ایسا کیا۔ جنرل صاحب نے مجھے مزید کہا: میں پائلٹ بھی ہوں۔ اگر میں چاہتا تو میں ہیلی کاپٹر کی نچلی پرواز کے ذریعے تاکہ وہ راڈار کی گرفت میں نہ آسکے، میں میانمار (برما) جیسے پڑوسی ملک میں اتر کر سیاسی پناہ لے سکتا تھا۔ میں چاہتا تو ذخیرہ شدہ سونا بھی ساتھ لے جاتا لیکن میں نے اپنی فوج اور پاکستانی عوام کو اکیلا نہیں چھوڑا۔
اگر ہتھیار نہ ڈالے جاتے تو ہماری فوج اور کثیر تعداد میں ہماری خواتین، بچوں اور مَردوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتیں۔ ہماری خواتین کی عصمت دری کی جاتی اور انہیں تکہ بوٹی کر دیا جاتا۔ قصور حکومت پاکستان کا تھا نہ کہ میری فوج کا۔ ہم بغیر اسلحے اور سپلائی کے کس طرح جنگ لڑتے؟‘‘
جب میں سقوطِ ڈھاکہ کے دنوں میں لندن میں تھا تو اس سانحہ کے بعد برطانیہ کے معروف صحافی ڈیوڈ لوشاک (David Loshak) کی کتاب بعنوان ’پاکستان کا بحران‘ (Pakistan Crisis) شائع ہوئی۔ اس کتاب کے مطابق سقوطِ ڈھاکہ کے کئی اسباب تھے۔ مثلاً مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان اقتصادی تفاوت، بنگالیوں کے ساتھ پاکستانیوں کا ناروا اور ہتک آمیز سلوک، ہندو بنگالی اساتذہ کا منفی کردار جنہوں نے کئی سالوں کے دوران میں اپنے طلباء کے ذہنوں میں پاکستان کی جانب سے بنگالیوں کے استحصال کا پراپیگنڈا کیا اور نفرت پیدا کی، بھٹو صاحب کا یہ کہنا کہ ’اِدھر تم اُدھر ہم‘، اس طرح شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت کو تسلیم نہ کیا گیا اور ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ بنگالی ہم سے علیحدہ ہوجائیں، افواجِ پاکستان کی طرف سے بنگالیوں کا سفاکانہ قتل عام، بھارت اور روس کا دفاعی گٹھ جوڑ اور انجام کار بنگالی فوج مکتی باہنی کا پُرتشدد ہونا مغربی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب بنے۔ امریکہ نے بھی ہماری مدد نہ کی اور تماشائی بنا رہا۔
سقوطِ ڈھاکہ تاریخِ پاکستان کا ایک المناک اور خونچکاں باب ہے۔ حکومتِ وقت نے مشرقی پاکستان کا سیاسی حل نہ نکالا اور فوج کو عوام کے خلاف استعمال کیا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے دشمنوں سے ہوشیار رہیں اور بلوچستان جیسے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کریں اور دفاعی لحاظ سے پاکستان کو مضبوط کریں۔
سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے ایک ہزار میل دو رتھا۔
ان حالات میں مشرقی پاکستان کا دفاع جغرافیائی فاصلے کی وجہ سے کیونکر کیا جاسکتا تھا؟ لیکن یہ نظریہ غلط ہے۔ اگر عوام میں حب الوطنی کا جذبہ ہو تو جغرافیائی فاصلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ امریکہ کا صوبہ الاسکا (ALASKA) امریکہ کے دارالحکومت سے 4 ہزار کلو میٹر دور ہے۔ الاسکا اور امریکہ کے درمیان کینیڈا حائل ہے۔
پھر بھی یہ 4 ہزار کلومیٹر کا جغرافیائی فاصلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ امریکن محب الوطن ہیں اور ان کا دفاع اعلیٰ ہے۔ مشرقی پاکستان میں رہنے والے بنگالی پاکستان سے رنجیدہ نہ ہوتے تو کبھی مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔ الغرض سقوطِ ڈھاکہ تاریخ اسلام کا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اس کی تفصیل جنرل (ر) امیر عبداللہ خان نیازی کی کتاب (The Betrayal of East Pakistan) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے جو آکسفورڈ یونیورسٹی نے شائع کی ہے۔
الحمدللہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کاوشوں سے اب پاکستان ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ ہمارے غازیوں اور شہیدوں نے ہمیشہ خونی قبائیں پہن کر وطنِ عزیز کی حفاظت کی۔ ہمیں افواجِ پاکستان پر فخر ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ وطنِ عزیز میں جمہوریت کا عمل جاری رہے اور سیاست کرپشن سے پاک ہو تاکہ وطنِ عزیز مضبوط تر ہو۔ آمین!