علم وہ جو کردار سے جنم لے اور یہ کردار کیا چیز ہے؟ آپ بھی جانئے
ذرا غورکریں کہ دنیاکے ساڑھے سات ارب لوگوں میں سے بہت کم کوعلم تک رسائی حاصل ہے۔ اللہ نے علم والوں میں سے درجہ بندی کی کہ کچھ علم والوں کوعقل بھی دی۔پھران کی مزیددرجہ بندی کی اورکچھ لوگوں کوفہم دی۔سوچنے کی صلاحیت دی کہ وہ خود کسی بات کاتجزیہ کرسکیں۔پھران لوگوں کی مزیددرجہ بندی کی اورکچھ لوگوں کوادراک دیا۔ادراک کامطلب یہ ہے کہ دوامورکوجان کر تیسرا پیدا کر لیا جائے۔ اللہ نے ہمیں اس قدرآسانی دی کہ اللہ نے ہمیں ادراک پہنچادیا۔اللہ تعالیٰ نے علم کابہت بڑااحسان انسانیت پرکیا جس کی بنیادی شرط کردارہے۔اس کے بغیرعلم،آپ کاوسیلہ نہیں بن سکتا۔63سال کی زندگی میں نبی اکرمﷺ نے 40برس تمام لوگوں کودعوت دی،اورجب کہاکہ اگرمیں کہوں کہ کوہ صفاکے پیچھے فوج ہے تومان لوگے توسب سے پہلے اللہ کے رسولﷺ کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل نے کہاکہ ہم تمہاری بات مان لیں گے۔اورمجھے اجازت دوکہ میں گھرسے تلوارلے آﺅں کیونکہ میں توگھرسے کھانا کھانے آیاتھا ،اس لیے کہ مجھے تمہاری بات پریقین ہے۔یہ بات اس شخص نے کہی جس کانام جہالت کاباپ یعنی ابوجہل تھا۔یہ اس بدبخت شخص کاکردارہے جواللہ کے رسولﷺ کابدترین دشمن ہے۔
اللہ کے رسولﷺ نے کہا”اے ابوجہل،اگرتوتلوارلے کرواپس آیااورتجھے فوج نظرنہ آئی توپھرتوکیاکرے گا؟“
اس پرابوجہل نے کہا”رب کعبہ کی قسم،جب میں تلوارلے کرواپس آیاتومجھے فوج نظرنہ آئی تومیں اپنی عقل پریقین نہیں کروں گابلکہ تمہاری زبان پریقین کروں گا“یہ ابوجہل کاکردارہے،وہ محمدﷺ کی بات کوتسلیم کرتاہے لیکن ایمان نہیں لے کرآتا۔ہماراکرداریہ ہوگاکہ ہرسنت پرکھڑے اورقائم رہیں۔علیؓ ممبررسولﷺ پرخطاب فرمارہے ہیں کیونکہ رسول اکرم ﷺپردہ فرماچکے تھے۔کہہ رہے ہیں کہ تم اپنی صورت اپنی زندگی میں دیکھ نہیں سکتے۔آپ جوچہر ہ آئینے میں دیکھتے ہیں،وہ چہرہ نہیں ہوتا،وہ عکس ہوتاہے۔
حضرت علیؓ موت کامنظربیان فرماتے ہوئے کہتے کہ مرنے کے بعد جب لوگ تمہیں کفن پہنائیں توتم دیکھ رہے ہوگے،جب وہ تمہیں قبرستان لے کرجارہے ہوں گے توتم، چیخ وپکارکروگے کہ کہاں لے جارہے ہو لیکن لوگ تم کولے جائیں گے۔تم یہ سب دیکھ رہے ہوگے۔پھرتم کہو گے کہ مجھے قبرمیں آہستہ آہستہ اتاروکہ مجھے اس دنیامیں کچھ دیراوررہنے کاموقع مل جائے۔اس پرحضر ت علیؓ سے استفسارکیاگیاکہ آپ تواس طرح بیان کررہے ہیں جس طرح خود مرکردیکھاہو۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ خداکی قسم اگرعلی ستردفعہ بھی مرتاتواسے موت پریقین نہ آتا،جتنایقین علی کورسول اللہﷺ کی بات پرہے۔مجھے اپنے تجربے پرنہیں،مجھے محمدکی بات پریقین ہے۔یہ کردار ہے جس سے علم فہم و فراست اور ادراک جنم لیتا ہے۔
خواجہ اجمیربنگال میں مسلمانوں میں تبلیغ کرکے واپس آئے تووالدہ کوکہا،ماں،تیرابیٹاکس قدربڑاکام کرکے آیاہے،نوے ہزارلوگوں کومسلمان کرکے آیاہے۔ماں نے کہا،تیری کیااوقا ت کہ تولوگوں کوکلمہ پڑھاﺅ۔کسی غلط فہمی میں نہ رہنا،جب تم بچے تھے توتم دودھ مانگتے تومیں سینے سے نہیں لگاتی تھی،بلکہ تمہیں زمین پرلٹادیتی تھی،پہلے وضوکرکے آتی تھی،پھرمیں نماز پڑھتی اورفارغ ہوکرتمہیں سینے سے لگاتی۔جوتونوے ہزارلوگوں کومسلمان کرکے آیا ہے، یہ میرے بازﺅں سے گرتے ہوئے وضوکے پانی کاصدقہ ہے۔
جب کردارپیداکرناہوتوپہلے ماں بنناہوگا۔اقبال بڑاآدمی ہے،لیکن جب نورمحمدپیداہوگاتوپھراقبال پیداہوگا۔اقبال کی والدہ کھاتے پیتے خاندان سے تھیں لیکن نورمحمدمعمولی ملازم تھے۔لاہورمیں اقبال کے گھرکے پیچھے ایک گھاس کامیدان تھا۔کرداریہ تھاکہ صبح کھڑکی کھولتے تھے،قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔وہاں کام کرنے والے ان سے دعاکراتے اورپھرکام پرجاتے تھے،یہ تھاکردار۔ان کی بیوی کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کے رزق میں کوئی لرزش نہ ہو۔جب اقبال پیداہوئے توان کی والدہ نے اپنے باپ کے دیے ہوئے کڑے بیچے،اس سے تین مرلے زمین لی،وہاں پربکریاں پالیں،اوراقبال نے ساری زندگی ماں کادودھ نہیں بلکہ ان بکریوں کادودھ پیاتھا ۔ایسا کردار ماں کا ہوگا تو باکردار اولاد جن لے گی۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔