نیب قوانین میں ترمیم پر حکومت کی آمادگی

نیب قوانین میں ترمیم پر حکومت کی آمادگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وفاقی کابینہ نے نیب کو مزید طاقتور کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ احتساب شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوتا نظر آنا چاہئے۔ ایکٹ ’’بیلنسنگ‘‘لگے تو اداروں پر اعتماد باقی نہیں رہتا اور اس طرزِ عمل سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بریفننگ دیتے ہوئے بتایا کہ عبدالعلیم خان کی گرفتاری کابینہ اجلاس میں زیر بحث نہیں آئی، ’’آپ ہر معاملے میں، اِدھر کا ایک پکڑا ہے تو ادھر کا بھی ایک پکڑ رہے ہیں‘‘ نیب کو موثر اور آزاد بنانے کے لئے ہر ممکن ترامیم کرنے کے لئے بھی تیار ہیں اس کے کام میں شفافیت اور غیر جانبداری بہت ضروری ہے۔نیب کا موجودہ ادارہ جنرل پرویز مشرف نے اس وقت قائم کیا تھا جب انہوں نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر بطور ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ اقتدار سنبھالا،ابتدا میں اس کے سربراہ حاضر سروس فوجی افسر ہوا کرتے تھے اور اُن ایاّم میں بہت سے سیاست دانوں کو مختلف الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا، ان میں ایسے بھی تھے، جن کے سیاسی معاملات جنرل پرویز مشرف کے ساتھ طے پا گئے تو اُن کی تحقیقاتی فائلیں بند کر دی گئیں، اِس امر کی شہادت خود نیب کے ایک چیئرمین نے دی اور کہا کہ دو نامور سیاست دانوں کے بارے میں جب انہوں نے تحقیقات شروع کی تو اُنہیں بُلا کر کہا گیا کہ یہ ہمارے ساتھ ’’تعاون‘‘ پر آمادہ ہو گئے ہیں اِس لئے ان کے خلاف مزید انکوائری نہیں ہو گی، نیب کے اس چیئرمین نے اس پر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا اور دُنیا نے دیکھا کہ جو سیاست دان لاہور کے سرور روڈ تھانے میں بدسلوکی کی شکایتیں کرتے پائے گئے تھے وہ شریکِ حکومت ہو گئے۔ ایک نامور سیاست دان نے بیرون مُلک اپنی دولت کے بارے میں یہ بیان دیا کہ یہ اس کے اپنے پیسے ہیں اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اُس نے انہیں بیرونِ مُلک رکھا ہوا ہے تو کسی کو کیا اعتراض ہے اور پھر واقعی کسی کو اعتراض نہ ہوا۔ یہ سیاست دان بھی چند دن گرفتار رہنے کے بعد کلین چٹ کے ساتھ باہر آ گئے اور خود جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں اہم وزارت اُن کے حصے میں آئی،پھر نیب نے ان کی جانب رخ انور نہیں کیا، ایسے ہی واقعات کی وجہ سے نیب پر یہ الزام لگا کہ یہ ادارہ دراصل سیاست دانوں کو ’’راہِ راست‘‘ پر لانے کے لئے بنایا گیا ہے، اس طرح سے جو بھی سیاست دان اپنا قبلہ بدلنے پر تیار ہوا اُسے بعد میں آج تک نیب نے نہیں پوچھا ،بلکہ تبدیلی قِبلہ کی وجہ سے بہت سی برکتیں اور سعادتیں اُن کے حصے میں آئیں۔
جنرل پرویز مشرف کا عہدِ اقتدار اختتام کو پہنچا اور پیپلزپارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو اس دور میں ایک احتساب کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا،جو نیب کی جگہ لیتا، لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھی، کیونکہ اس وقت کی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ(ن) نے کمیشن کی تشکیل میں زیادہ دلچسپی نہ لی، چنانچہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اس کمیشن کی تشکیل کے بغیر ہی اپنے پانچ سال پورے کر لئے، اس کے بعد مسلم لیگ(ن) کی حکومت آئی تو اس نے بھی احتساب کمیشن کی تشکیل کا منصوبہ بنایا، لیکن اب کی بار ’’عدم تعاون‘‘ کی باری پیپلزپارٹی کی تھی، اس حکومت میں بھی احتساب کمیشن نہ بن سکا اور نیب بیورو ہی جیسے تیسے کام کرتا رہا، اب دونوں جماعتوں کے چیدہ چیدہ رہنما یہ کہتے سُنے گئے ہیں کہ انہوں نے اپنے اپنے دور میں احتساب قوانین میں تبدیلی نہ کر کے غلطی کی تھی،لیکن اب کیا ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی احتساب قوانین میں ترمیم پر راضی ہے اور اسے ’’مزید سخت‘‘ بنانے پر تیار ہے تو اس کی تفصیلات بھی سامنے آنی چاہئیں کہ کِس قسم کی تبدیلی مطلوب ہے اور کِس قسم کی ’’سختی‘‘ درکار ہے۔ کیونکہ کئی ماہرین قانون تو نیب قوانین کو آئین سے متصادم گردانتے ہیں۔
نیب کے بارے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان کے وہ تمام ریمارکس اگر جمع کئے جائیں،جو انہوں نے اس ادارے کے بارے میں وقتاً فوقتاً دیئے تو ایک ضخیم جلد تیار ہو سکتی ہے فاضل ججوں نے افسروں کی جس انداز میں سرزنش کی یہ سارے ریمارکس اور واقعات اس امر کی شہادت دینے کے لئے کافی ہیں کہ اعلیٰ عدالتیں نیب کی کارکردگی کے بارے میں مطمئن نہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے تو نیب کے چیئرمین کو اپنے چیمبر میں بھی طلب کر لیا تھا وہ تو اُنہیں کمرۂ عدالت میں بلانا چاہتے تھے، لیکن سپریم کورٹ کا سابق جج ہونے کی رعایت سے انہیں صرف چیمبر میں طلب کرنے پر اکتفا کیا گیا۔نیب کے بارے میں عام شکایت یہ ہے کہ وہ ادارے کے قواعد و ضوبط پر غیر جانبداری سے عمل نہیں کرتا اور ’’پک اینڈ چوز‘‘ کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، بہت سے لوگوں کے خلاف انکوائری بغیر گرفتاری کے چلتی رہتی ہے،لیکن شہباز شریف، خواجہ برادران(سعد رفیق اور سلمان رفیق) اور عبدالعلیم خان کے معاملے میں یہ طرزِ عمل نہیں اپنایا گیا۔موخرالذکر کی گرفتاری پر تو اِس لئے بھی حیرت ہوئی کہ وہ سینئر وزیر اور چھ صوبائی وزارتوں کے انچارج تھے، بلکہ ایک زمانے میں وزارتِ اعلیٰ کے لئے بھی زیر غور رہ چکے تھے، خود ان کے اپنے بقول اگر اُن کے ’’بعض مہربان‘‘ آڑے نہ آئے تو وہ وزیراعلیٰ ہوتے،اُنہیں تو اب بھی یقین تھا کہ عملاً وہی وزیراعلیٰ ہیں اور کل کلاں اگر وزارت کا ہُما عثمان بزدار کے سر پر سے اُڑ جاتا ہے یا کوئی تالی مار کر اُڑا دیتا ہے تو پھر وہی وزیراعلیٰ بنیں گے۔اُن کا یہ خیال اِس لحاظ سے بھی غلط نہیں تھا کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے بہت قریب ہیں۔ وسطی پنجاب میں الیکشن لڑنے کی ذمے داری بھی انہوں نے نبھائی اور ان علاقوں میں پی ٹی آئی کی شکست کے باوجود اُنہیں وزیراعظم عمران خان کا اعتماد نہ صرف حاصل رہا،بلکہ اُنہیں شروع شروع میں پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کا خاکہ بنانے اور اسے ’’اڑتالیس گھنٹوں میں‘‘ وزیراعظم کو پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی،لیکن بعد میں شاید بعض عملی مشکلات کی وجہ سے یہ پتھر چوم کر رکھ دیا گیا۔ تاہم عبدالعلیم خان کی پارٹی کے لئے اہمیت کم نہ ہوئی،اب انہوں نے اپنی گرفتاری کے بعد کہا ہے کہ اُن کے وکلا نے چیئرمین نیب کے نام ایک سخت خط لکھ دیا تھا،جس کی وجہ سے اُنہیں گرفتار کر لیا گیا۔اگرچہ نیب نے اِس الزام کو تو نہیں مانا تاہم عبدالعلیم خان کہتے ہیں کہ دورانِ تفتیش اُن سے پوچھا گیا تھاکہ اُن کے وکلا نے چیئرمین کے نام سخت خط کیوں لکھا۔
اگرچہ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے تو ایک چینل پر یہ تک کہہ دیا کہ عام تاثر یہ ہے کہ علیم خان کی گرفتاری’’بیلنسنگ ایکٹ‘‘ ہے اور ’’ایک اِدھر اور ایک اُدھر‘‘سے گرفتاری کا تاثر نہیں بننا چاہئے، لیکن محض علیم خان کی گرفتاری سے تو ’’بیلنس‘‘ نہیں ہو جاتا، اگر ایسا کرنا ہے تو کم از کم تعداد تو برابر کرنا پڑے گی۔ کیونکہ اپوزیشن کے زیادہ سیاست دان گرفتار ہو چکے ہیں اور مزید گرفتاریوں کا اندیشہ ہے،بلکہ سابق قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے تو کہا ہے کہ دوسرے سیاست دانوں کو گرفتار کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لئے ہی علیم خان کو گرفتار کیا گیا ہے اگر ایسا ہے تو یہ نامناسب ہے، اب حکومت نے نیب قوانین کو مزید سخت بنانے کا عندیہ دیا ہے، تو یہ بہت ضروری ہے کہ احتساب کے قوانین پر اس طرح نظرثانی کی جائے کہ نیب افسران انہیں اپنی مرضی سے موم کی ناک نہ بنا لیں، ابھی گزشتہ روز ہی لاہور ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ کیا تفتیش ہے جسے چاہا پکڑ لیا، جسے چاہا چھوڑ دیا۔ لیکن عملاً تو ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہ شکایت عام ہے اگر نیب قوانین پر نظرثانی کرنی ہے تو اسے ’’سخت‘‘ کی بجائے ’’منصفانہ‘‘ اور ملکی آئین کے مطابق بنانا چاہئے اور افسروں کے صوابدیدی اختیار ختم ہونے چاہئیں۔ تاکہ وہ قانون کے نفاذ کے پردے میں اپنا کھیل نہ کھیل سکیں۔ قانون سب کے لئے یکساں ہونا ضروری ہے اور احتساب بھی قانون کے مطابق منصفانہ ہونا چاہئے اس سے انتقام کی بو نہیں آنی چاہئے۔

مزید :

رائے -اداریہ -