سچ کی گواہی
امام احمد بن حنبلؓ نے کہا تھا:’’یہ جنازہ ہی ثابت کرے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون‘‘؟۔۔۔ ہر روز دُنیا میں لاکھوں افراد آتے اور لاکھوں افراد جاتے ہیں۔اِس فانی دُنیا میں اُن کی باتیں اور یادیں ہی باقی رہ جاتی ہیں۔10 برس قبل ہم ایک جنازے میں شامل تھے، جس میں بے پناہ رش کی وجہ سے نمازِ جنازہ کی جگہ تین بار تبدیل کرنا پڑی۔ مرحوم کی نمازِ جنازہ کا اعلان پہلے ان کے محلہ کینال پارک کی مقامی مسجد میں کیا گیا۔ پھر لوگوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر گلبرگ کی سب سے بڑی جامع مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کا عندیہ دیا گیا۔ آہوں، سسکیوں اور آنسوؤں کی پھوار میں گلابوں سے لدا جنازہ جامع مسجد پہنچا تو مرحوم کے چاہنے والے مزید ہزاروں افراد جنازہ میں شامل ہو چکے تھے، جس پر جامع مسجد کی وسیع جگہ بھی نمازِ جنازہ کے لئے کم ہوتی دکھائی دی، تو اعلان کیا گیا نمازِ جنازہ گلبرگ گراؤنڈ میں ہو گی۔۔۔یہ میجر(ر) رشید وڑائچ کا آخری سفر تھا، جس میں ایک عالم امڈ آیا، جنازے میں مذہبی رہنماؤں، سیاست دانوں، صحافیوں، فوج کے جوانوں،وکلا اور سماجی رہنماؤں سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
’’سچ کی گواہی‘‘۔۔۔جنازے میں شریک ہزاروں لوگوں کی آنکھوں سے ساون بھادوں بارش کی مانند برس رہی تھی۔ جنازے کا انتظام لیفٹیننٹ کرنل عدنان حفیظ کے ذمہ تھا۔وہ جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا: ’’جنازے میں رشتہ دار مرنے والوں کے لئے روتے ہیں، مگر مَیں نے یہ پہلا جنازہ دیکھا ہے،جہاں عام شہری بھی دھاڑیں مار رہے ہیں‘‘۔ جن میں چوبرجی چوک کے پارک اور فٹ پاتھوں پر سونے والے کئی مزدور بھی شامل تھے،جنہیں میجر صاحب ایک عرصے سے صبح کا ناشتہ کراتے تھے، ان کا معمول تھا کہ وہ ہر روز300 کے لگ بھگ محنت کشوں کا کھانا گھر میں تیار کراتے،جس میں نان چنے، نان حلوہ،انڈہ چائے اور دیگر لوازمات ہوتے۔ میجر رشید وڑائچ رات بھر یہ پکوان گھر بنواتے اور صبح سویرے ’’حی علی الفلاح‘‘ کی صدا بلند ہوتے ہی اپنے ملازمین کے ہمراہ غریبوں کی پیٹ پوجا کرانے ان کے ٹھکانے پہنچ جاتے۔گو کہ اب پنجاب حکومت نے لاہور اور دیگر شہروں میں کئی مقامات پر بے آسرا غریب مزدوروں کے لئے شامیانیوں میں شیلٹر ہوم بنا دیئے ہیں، جہاں اُنہیں دو وقت کا کھانا بھی فراہم کیا جاتاہے، مگر میجر رشید وڑائچ کا لنگر اب بھی چوبرجی پارک کے مکینوں کے لئے جاری ہے، اب صبح کے وقت ان کے گھر کے باہر بھی دو اڑھائی سو غریب اور نادار جمع ہو جاتے ہیں۔اُنہیں بھی صبح کا ناشتہ کرایا جاتا ہے، مرحوم کی وصیت کے مطابق ان کی اکلوتی بیٹی صوفیہ رشید خدمت خلق کا یہ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میجر(ر) رشید وڑائچ نے انتہائی متحرک زندگی گزاری۔ محاذِ جنگ ہو یا عام زندگی ، وہ ہمیشہ حالتِ جنگ میں رہے۔73 برس قبل وہ سرگودھا کے چک 95 جنوبی کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے، عام دیہاتی بچوں کی طرح بچپن گزرا، بیریوں سے کچے بیر کھانا، چھپڑوں میں نہانا، 6میل پیدل چل کر سکول جانا اور رات کو اپنی ’’جنت‘‘ کے پہلو میں لیٹ کر مجاہدوں اور بہادروں کے قصے کہانیاں سننا اُن کا معمول تھا۔سکول اور کالج کی تعلیم سرگودھا سے حاصل کر کے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔ 1966ء میں پاک فوج کی پنجاب رجمنٹ میں کمیشن لیا۔ 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں تعینات رہے۔ ہندوستان کے بڑے حملے کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ گئے، بہادری کی نئی داستان مرتب کی۔دو دفعہ آگرہ کے جنگی قیدیوں کے کیمپ سے بھاگے۔۔۔پکڑے جانے پر خوب ڈٹ کر مار کھائی، فوج چھوڑنے کے بعد ’’حزب اللہ‘‘ کے نام سے جماعت بنائی، جس کے وہ خود ہی قائد اور خود ہی کارکن تھے، کچھ عرصہ وزیراعظم معائنہ کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔کھنک دار لہجہ، دبنگ جرأت اظہار۔۔۔ ان کے دِل میں پاکستان کی محبت اور غریبوں سے الفت کی خوشبو خون کی گردش کی طرح رواں دواں رہتی تھی۔ ان کی شخصیت، اُمید، سخاوت، انسانیت اور مہمان نوازی جیسے عناصر سے عبارت تھی۔انہوں نے اپنی زندگی میں اپنی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اس کی آمدن دُکھی دِلوں کے لئے وقف کر دی تھی، صرف 7مرلے کا گھر اپنی بیگم اور اکلوتی بیٹی کے لئے چھوڑا۔
حضرت امیر حمزہ سے انہیں عشق کی حد تک لگاؤ تھا، نرینہ اولاد نہ ہونے پر میرے بیٹے کو گود لیا اور نام امیرحمزہ رکھا۔ جنرل امیر حمزہ(ہلال جرات، ستارۂ جرات) ان کے پیر تھے، آدھی رات کو اُٹھ کر عبادت کے ساتھ اسلامی، تاریخی کتب کا مطالعہ کرنا ان کا معمول تھا۔ رات کو ہی وہ تحریر و تصنیف کا کام بھی کیا کرتے،ان کا کہنا تھا کہ ’’تنہائی پارسائی ہے‘‘۔ انہیں اپنے بھائی سعید وڑائچ سے بھی خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ ہائی کورٹ کے نامور وکیل ہیں۔صبح ان کا گھر دوستوں کا گہوارہ بن جاتا۔انہوں نے گھر کے نچلے پوریشن کو تعلیمی ادارہ بنا رکھا تھا۔ پاکستان میں فلاحی معاشرے کا قیام ان کا سب سے بڑا خواب تھا۔وہ مسجد کو ’’مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز، خوشیوں کا گہوارہ اور دُکھی دِلوں کا سہارا‘‘ بنانا چاہتے تھے۔اس مقصد کے لئے انہوں نے ’’مسجد مرکز تحریک‘‘ شروع کر رکھی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ جرائم، لڑائی جھگڑا، لین دین اور دیگر کئی معاملات معززین علاقہ باہم مل بیٹھ کر حل کرا سکتے ہیں، اس سے ان کی تھانہ کچہری کے کرپٹ نظام سے جان چھوٹ جائے گی۔ زکوٰۃ، صدقات، فطرانہ، قربانی کی کھالیں، چندہ اور عطیات مسجد میں جمع کئے جائیں تو علاقے سے غربت دور ہو جائے گی،اِس مقصد کے لئے وہ آئے روز تقریبات اور سیمینارز کا اہتمام کرتے، جن میں ممتاز، مذہبی، سیاسی، صحافتی، سماجی اور دیگر شخصیات شرکت کیا کرتی تھیں۔
ہمارے والد محترم چودھری کرم رسول کا شمار بھی مخیرشخصیات میں ہوتا تھا۔انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے شانہ بشانہ تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔انہی کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’نظریۂ پاکستان فاؤنڈیشن گولڈ میڈل‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ میجر(ر)رشید وڑائچ نے غریبوں اور ناداروں کی فلاح و بہبود کا سبق والد محترم کی دریا دلی سے سیکھا ہے۔ میجر صاحب میرے بڑے بھائی تھے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے ان کی یاد میں لکھا تھا کہ تین لوگ بہترین شہری ہیں۔شاعر۔۔۔ کسان ۔۔۔ آوارہ۔۔۔ یہ تینوں آپس میں ہم رنگ ہیں۔ میجر رشید وڑائچ کی بے قرار شخصیت میں یہ جزو نمایاں تھے۔ وہ بہترین شہری تھے۔ ان کا تعلق کسان فیملی سے تھا۔ وہ شاعر نہیں تھے، مگر شاعروں کے یار تھے۔آوارہ تو وہ تھے ہی۔۔۔مگر وہ رول ماڈل شخصیت تھے۔انہوں نے اپنی زندگی میں اعلیٰ اور مثالی کردار کے جو چراغ روشن کئے ہیں،ان کی روشنی ہمیشہ جگمگاتی رہے گی۔ایسے ہی صدا بہار لوگوں کے بارے میں بلھے شاہ نے کہا تھا:
بلھے شاہ اسیں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور۔۔۔!