پاکستان کا مقصد کیا؟ ۔۔۔کرسی لبھ تے رج کے کھا

پاکستان کا مقصد کیا؟ ۔۔۔کرسی لبھ تے رج کے کھا
پاکستان کا مقصد کیا؟ ۔۔۔کرسی لبھ تے رج کے کھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج میرے مخاطب Selected اور Elected عوامی نمائندے ہیں میرے عزیز ہم وطنو آپ اپنی زندگی کے دوراہے پر کھڑے ہیں ایک راستہ آپ کو اپنی اور اپنے خاندان کے مزید خوشحال مستقبل کی طرف لے جائے گا (خوشحال تو ماشا اللہ آپ اب بھی ہیں اسی لئے تو منتخب اداروں میں بیٹھے ہیں) لیکن دوسرے راستے پر جانے کے لئے آپ کو ملک و قوم کے نام پر اصول کے نام پر حب الوطنی کے نام پر اور سب سے بڑھ کر مذہب کے نام پر ورغلانے کی کوشش کی جائے گی اور کی جا رہی ہے لیکن آپ ثابت قدم رہتے ہوئے پہلے راستے پر ہی چلیں یہی راستہ عملی زندگی اور زمینی حقائق کے عین مطابق ہے آپ سمجھدار ہیں وہی کریں جو اعلیٰ ترین سطح سے نیچے تک بلا تفریق ہر شعبے اور ہر ادارے کے سمجھدار لوگ کر رہے ہیں سمجھدار جج کر رہے ہیں سمجھدار صحافی کر رہے ہیں سمجھدار سول بیورو کریسی کر رہی ہے سمجھدار علماء کر رہے ہیں سمجھدار۔۔۔؟ کر رہے ہیں بلکہ ریکارڈ توڑ رہے ہیں زندگی میں قدرت بار بار مواقع مہیا نہیں کرتی۔

آپ کو سنہرا موقع ملا ہے اپنی زندگی اپنے بچوں کے بہتر اور خوش حال مستقبل کے لئے بلکہ بہترین اور شاندار مستقبل کے لئے اپنے خوابوں کی جنت تعمیر کریں اگر آپ نے یہ موقع ہاتھ سے جانے دیا اور علماء حضرات کے خطاب سیاستدانوں (قائدین) کے بیانات نیب کی بڑھکیں سنتے رہے تو ساری زندگی پچھتائیں گے۔آج معاشرے میں اس کی عزت ہے جس کے پاس پیسہ ہے رشتہ دار دوست بھی اس کے ہیں جتنا پیسہ بنا سکتے ہو بناؤ انتخابات میں بھی مال لگاؤ تے مال بناؤ۔ آپ کی جیب بھاری ہو گی تو احتساب، احتساب کی قوالی کرنے والے آپ کو خوش آمدید کہیں گے ہر سیاسی جماعت کے دروازے پر خوش آمدید لکھا ہوگا آپ شان سے جائیں گے زمینی آسمانی مخلوق آپ کے ساتھ ہو گی آپ کے دائیں بائیں زرد چہروں، پچکے ہوئے گالوں والے کارکنوں کا ہجوم ہوگا جن کے ہاتھوں میں اپنی قربانیوں کی فائلیں ہوں گی اور وہ آپ کو حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی اقدار بدل گئی ہیں۔ سوداگروں کی آمد نے اور سیاسی قائدین کی حوصلہ افزائی نے سیاسی کلچر تبدیل کر دیا ہے اب یہ کھاتے پیتے بلکہ پیتے پلاتے لوگوں کا مشغلہ ہے۔


آج منشیات کا کاروبار کرنے والوں کی دولت دیکھ کر کہا جاتا ہے کہ اس پر اللہ کا کرم ہے جس نے دونوں ہاتھوں سے رشوت لی، دل کھول کر بلا جھجک بلا روک ٹوک اسمگلنگ کی منی لانڈرنگ کی اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اللہ اس پر بڑا مہربان ہے (اللہ نے اودھا ہتھ پھڑ لیا ہے) آپ بھی اللہ کے اس کرم اور مہربانیوں کے اصول پر پوری توجہ دیں نہیں کریں گے تو آپ کو بزدل اور بے وقوف کہا جائے گا جو آپ یقیناً کہلانا پسند نہیں کریں گے ناشتے پر علماء کی قطار، ڈنر پر نامور لوگ مہمان ہوں گے اور یقین کریں اگلے الیکشن میں کوئی آپ سے یہ سوال نہیں کرے گا کہ یہ کچھ کہاں سے آیا۔ رہا سوال نیب کا تو ان کے مطلوب لوگ تو کابینہ میں ہیں اگلی کابینہ میں آپ ہوں گے احتساب صرف ان کا ہوگا جو خواہ مخواہ اصول پسندی کی حماقت کرے گا۔ یہ سارے مشاہدات تجربات ذاتی ہیں سنی سنائی نہیں ہیں جس کے پاس دولت نہیں اس کا کوئی دوست نہیں رشتہ دار نہیں جس کے پاس ہے وہ سب کچھ ہے میری اس تحریر پر اعتراض بھی ضرور ہوگا بلکہ یہ سب کچھ کرنے والے زیادہ اعتراض کریں گے۔

منافقت ہمارے کردار کا لازمی حصہ بن گئی ہے۔ اس مفت اور مفید مشورے پر ضرور عمل کریں آپ کی بھی لاٹریاں نکلتی رہیں گی۔
پاکستان میں عزت پانا عزت سے رہنا ایک آرٹ ہے جو میں متعلقہ دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ بھارت میں زمانہ قدیم میں ایک فلسفے نے جنم لیا جو شاید برہمن اجارہ داری کے خلاف بغاوت تھی۔ اس فلسفے کو Lokayata اور Charvaka کہا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ہندوؤں نے اسے مسترد کر دیا لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلمان حکمرانوں اور اشرافیہ نے اسے پلے باندھ لیا ہے اور سینے سے لگا رکھا ہے اور پابندی سے عمل پیرا ہیں۔ وہ فلسفہ حیات یہ تھا کہ انسان زندگی ایک بار پاتا ہے ایک بار دنیامیں آتا ہے موت کے ساتھ روح بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد کوئی اگلا جہان نہیں ہے جنت دوزخ (نرگ اور سورگ) محض ایک تصور ہے کوئی دوبارہ زندہ نہیں ہوگا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا لہٰذا اسی زندگی میں جو مزے لوٹ سکتے ہیں لوٹ لو جنت (سورگ) کے خیالی تصور میں اس زندگی کے عیش و آرام نہ ٹھکراؤ حلال حرام کی تمیز خیالی ہے محض ایک تصور ہے یہ سب برہمنوں نے اپنے لئے پیدا کئے ہیں تاکہ حکمرانوں اور عوام پر ان کا اثر و رسوخ رعب داب قائم رہے۔ بنیادی خیال یہ تھا کہ بس یہی ایک زندگی ہے کوئی اگلا جہاں نہیں ہے کوئی حساب کتاب نہیں ہے موج کرو موج۔


اگر غور سے دیکھیں تو ہماری اشرافیہ زندگی کے اسی فلسفے پر عمل کر رہی ہے انہیں اگلے جہاں اور حساب کتاب کا فکر ہو۔ اور آخرت اور روز حساب کی فکرہو تو یقین کریں پاکستان جنت بن جائے لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے مادرِ وطن کی ہڈیاں نہ نوچی جائیں لیکن یہ ہو رہا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وطن عزیز میں دیانتداری کو ایک جرم اور گناہ سمجھا جاتا ہے۔ ریاست کا بھی یہی حال ہے ہر قیمت پر حکومت میں آنا مال بنانا پھر حکومت بھی بچانا اور مال بھی بچانا ترجیح اول بن جاتی ہے پیسہ ہی خدا سمجھنے اور بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اربوں ڈالر کے بیرونی قرض اور اربوں روپے کے اندرونی مقروض ہیں۔ شرافت کی سیاست کو عبادت اور خدمت سمجھنا حماقت سمجھا جاتا ہے ملک کو خود کفیل بنانے خود انحصار بنانے کی بجائے پاکستان سے باہر اثاثے بنائے جا رہے ہیں۔ آنے والی نسلوں کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ’’دوستوں‘‘ کے پاس رہن رکھ دیا گیا ہے جس معاشرے میں ہم جی رہے ہیں اس میں دیانت داری اور اہلیت رکھنے والوں کو اتنی پریشانیوں کا شکار ہونا پڑتا ہے کہ یہ وہ جانتا ہے یا خدا، اس کی زندگی مشکل کر دی جاتی ہے اختیار رکھتا ہو اور اقتدار میں آ جائے اور صرف ضمیر کی آواز پر عمل کرے سفارش نہ مانے تو سب ناراض ہو جاتے ہیں ’’ نہ کھاندا اے نہ کھان دیندا اے‘‘ اسے مجبوراً قبول کیا جاتا ہے کہ رشوت اور بے ایمانی کی اس زنجیر میں اس کڑی کو نکالنے کے لئے ہر کوشش کی جاتی ہے۔ صحافت کے بڑے ناموں کے ذریعے سکینڈل بنائے جاتے ہیں۔ اس کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کر دی جاتی ہے اسے بے اختیار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے جو شاید ہی عزت پاتے ہیں تقریر سنیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے زمین پر اتر آئے ہیں عمل دیکھیں تو شرم آتی ہے مگر انہیں نہ شرم نہ حیا میری یہ ایک کوشش ہے کہ حکمران طبقات اور اشرافیہ شاید اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر اپنا انداز بدلنے کی کوشش کریں۔ عوام بھی عزت سے مرنے کی بجائے عزت سے جینے کا فیصلہ کر لیں۔ نا انصافی، جھوٹ، رشوت، ظلم و زیادتی برداشت کرنے کی بجائے اس نظام سے بغاوت کر دیں اور صرف چہرے نہیں نظام کو بدل دیں آج ہم مسلسل بد عنوانی اور بد نظمی کے نتیجے میں مایوس اور بد دل لوگوں کا اجتماع بن کر رہ گئے ہیں ہجوم ہیں قوم نہیں رہے۔


پلاٹوں کی ریت ڈالی گئی روٹ پرمٹ دینا شروع کئے گئے پھر کلے مضبوط کرنے کا مشورہ دیا گیا پھر تو نہ روایات کا احساس رہا نہ رشتوں کا احترام نہ قانون کا ڈر نہ ضمیر کی خلش نہ خوف خدا رہا اورنہ آخرت کی فکر، یاروں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے بلکہ ڈبکیاں لگائیں اور آج تک لگا رہے ہیں۔ ہر شعبہ زندگی کے بڑے بڑے نام ان کے در دولت پر حاضری فرض سمجھتے ہیں۔ ایسے میں یہ تقاضا کرنا کہ پاکستان میں کرپشن ختم نہیں ہوتی غلط ہے ہم خود کرپشن ختم نہیں ہونے دیتے بلکہ اپنے رویوں سے اس کو بڑھا رہے اور پھیلاؤ میں مدد گار بنے ہوئے ہیں۔ معاشرے میں راتوں رات بڑا بننے کی خواہش اور دوڑ شروع ہوئی غیر اخلاقی اور غیر شرعی دھندوں سے بھی پرہیز نہیں کیا جاتا خواہ مہارت کی وجہ کرپشن، ڈرگ، بلیک مارکیٹنگ اور قحبہ خانہ ہی کیوں نہ ہو۔ جن لوگوں نے ایمانداری کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ان کے پاس اپنی چھت بھی نہیں ہے صبح گھروالوں کے طعنوں سے آنکھ کھلتی ہے نیکی بندے کو وہاں کرنی چاہئے جہاں نیکی کی کوئی وقعت ہو جس معاشرے میں ایمانداری کا دوسرا نام بے وقوفی ہو وہاں ایمانداری سے پرہیز لازم ہے۔ ورنہ اپنی ایمانداری پر اصول پسندی پر پچھتاوا ندامت اور شرمندگی ہونے لگتی ہے مجھے بھی ہو رہی ہے ایمانداری پیٹ نہیں بھرتی پیٹ بھرنے کے لئے پیسہ چاہئے لہٰذا میری یہی درخواست ہو گی اپیل ہوگی کہ ’’جتھوں لبھے لب کے لٹ تے رج کے کھا‘‘ حرام حلال کتابی باتیں ہیں تحریروں میں تقریروں میں لیکن جو یہ باتیں کرتے ہیں وہ خود سکہ رائج الوقت پر عمل کرتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -