پی ٹی آئی کا مسئلہ

پی ٹی آئی کا مسئلہ
پی ٹی آئی کا مسئلہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پی ٹی آئی ایک خاص ڈش حلیم کی مانند ہے۔ اس میں اِدھر اُدھر سے طرح طرح کے مصالحے ڈال دیئے گئے ہیں،جو ابھی پوری طرح مکس نہیں ہوئے۔توقع کرنی چاہئے کہ کچھ عرصے میں ہانڈی پوری طرح پک جائے گی۔ تواس کا ذائقہ اور بو باس بھی ٹھیک ہو جائے گی ابھی تک ہر عنصر اپنی الگ خوشبو اور ذائقے کے ساتھ موجود ہے۔مسلم لیگ (ق) بھی ایک زمانے میں اسی تجربے سے گزری تھی۔ سرائیکی اور پیڑیاٹ جیسے کئی عناصر ملا کر وقتی طور پر ہانڈی چولہے پر چڑھا دی گئی، لیکن بدلتے ہوئے سیاسی موسم میں ٹھنڈک پیدا ہونے لگی تو اس کا ذائقہ بھی خراب ہونے لگا۔اب یہاں بھی مسلم لیگ (ق) کا قرورہ پی ٹی آئی سے ملتا نظر نہیں آتا، لیکن وہ شاید چھوڑیں گے نہیں، کیونکہ وہ اقتدار کی خوشبو کے اسیر ہیں۔ ایم کیو ایم والے ایک زخمی قافلہ ہیں، وہ مزید زخم سہنے کی پوزیشن میں نہیں، وہ سب سے الگ بو باس کے حامل ہیں،اِس لئے کہیں مکمل طورپر مکس نہیں ہو سکتے۔ویسے اس وقت ایوان اقتدار کے باہر بھی اُن کے لئے روشنی کی کوئی کرن نظرنہیں آتی۔ ہر حکمران پارٹی میں بلوچستان کا تڑکا لگانا بھی ضروری ہوتا ہے، لہٰذا اختر مینگل صاحب کی صورت میں اس کا بھی اہتمام کرلیاگیا ہے ۔ ایک تلخ مرچ مصالحہ شیخ رشید کی صورت میں بھی شامل کر لیا گیا ہے،جو ساری ڈش کا ذائقہ خراب کرنے کے لئے کافی ہے۔


خود پی ٹی آئی کی کمپوزیشن دیکھیں تو یہ پٹھانوں اور ایک خاص مذہبی مکتب فکر کی پارٹی ہے۔ پنجاب کا مینڈیٹ تو مسلم لیگ(ن) کے پاس ہے ۔ گویا پی ٹی آئی کو ساری مقبولیت کے باوجودمین سٹریم پارٹی کہنا مشکل ہے، کیونکہ پنجاب جس کے ساتھ نہیں، اُس کا مین سٹریم کا دعویٰ محلِ نظر ہے۔ پارٹی کاایک حصہ سرائیکی وسیب کی نمائندگی کا دعوے دار ہے۔ اقتدار کے سوا پی ٹی آئی اور ان میں کوئی چیز مشترک نہیں۔ان کاخیال ہے کہ شاید سرائیکی صوبہ بن جائے تو بہت اچھا،ورنہ اس نعرے پر مرکز میں اقتدار میں حصہ تو پکا ہے۔ سرائیکی صوبے کی کہانی نئی نہیں،بلکہ بہت پرانی ہے۔1970ء میں بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی سرائیکی صوبے کی تحریک عروج پر تھی۔ تاج لنگاہ اور کئی دوسرے حضرات تحریک کے ہر اول دستے میں شامل تھے، لیکن بھٹو جیسا مقبول لیڈر بھی یہ فیصلہ نہ کرسکا، کیونکہ اس میں کئی رسک ہیں۔ مسلم لیگ بھی لولی پاپ دیتی رہی،الگ سیکرٹریٹ بنانے کے معاملے میں حکومت نیک نیت ہو سکتی ہے، لیکن منزل بہت دور اور راستہ کٹھن ہے،اگر یہاں صوبہ بنا تو یہ معاملہ یہیں نہیں رُکے گا۔ دوسرے صوبوں سے طاقتور آوازیں اُٹھیں گی،جنہیں نظرانداز کرنا مشکل ہو گا۔


وزیراعظم نے اپنی کابینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو شامل کر رکھا ہے، جن کا تجربہ، قابلیت اور افادیت کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔ کیا مراد سعید،زلفی بخاری اور گنڈا پورجیسے لوگ ملک کے اُلجھے ہوئے مسائل پر قابو پائیں گے اور قوم کی رہنمائی کریں گے؟ عمران خان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ضدی آدمی ہیں، وہ کسی بات پرڈٹ جائیں تو انہیں اس سے پیچھے ہٹانا مشکل ہوتا ہے، تاہم وہ یو ٹرن کا الزام مان کراپنی اس شہرت سے کچھ پیچھے ہٹے ہیں۔پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے بارے میں دیکھتے ہیں وہ کب یو ٹرن لیتے ہیں۔پنجاب کو ہینڈل کرنا ہمیشہ حکمرانوں کے لئے درد سر رہا ہے۔ البتہ نواز شریف اس معاملے میں خوش قسمت ثابت ہوئے کہ انہیں اس اہم ذمہ داری کے لئے اپنے چھوٹے بھائی میسر آ گئے جو بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے ایڈمنسٹریٹر بھی ثابت ہوئے،لہٰذا وہ کافی وقت نکال گئے۔مرکز میں اسحاق ڈار بھی قریبی رشتہ داری کی وجہ سے ان کے لئے ایک طاقت بنے رہے، کیونکہ انہیں وزیراعظم کا اعتماد حاصل تھا اور ہر خاص و عام کو یہ بات معلوم تھی،لہٰذا روز مرہ کے فیصلوں میں نواز شریف کی تن آسانی کے باوجود نظام چلتا رہا اور وہ بھی مطمئن رہے۔عمران خان کو شاید یہ سہولت حاصل نہیں کہ کسی ایک آدمی پر وہ اندھا اعتماد کر سکیں۔ اب یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ عثمان بزدار روایتی لحاظ سے ایک اچھے آدمی ہونے کے باوجود اس عہدے کے اہل نہیں، کیونکہ ایسے اہم عہدے کے لئے شریف یا ایماندار ہونا کافی نہیں،دراصل حکمرانی بہت پیچیدہ معاملہ ہے اس پر عبور حاصل کرنا بڑے عہدیداروں کے لئے ضروری ہوتا ہے ۔پنجاب میں وزیراعلیٰ کے ساتھ سینئر وزیر، سپیکر اورگورنر کو ملاکر جوکارپوریٹ ٹائپ حکمرانی کا تجربہ کیا جا رہا ہے،اس کی کامیابی مشکوک ہے اورعمران خان کے پاس تجربوں میں وقت ضائع کرنے کی گنجائش کم ہے۔


وزیراعلیٰ صاحب جہاں جاتے ہیں کسی نہ کسی افسر کو معطل کر کے آتے ہیں۔ کیا وہاں وہ کوئی بہتر متبادل دے کر آتے ہیں۔۔۔ ورنہ صرف معطلیوں سے تو بیورو کریسی میں مایوسی ہی پھیلتی ہے۔بیورو کریسی صرف ایسے لوگوں کے ساتھ دِل سے تعاون کرتی ہے،جو علم اور تجربے میں اپنی برتری ثابت کرتے ہیں۔ صرف کرسی کا حصول کافی نہیں کرسی کو قائم رکھنا خاصا مشکل کام ہوتا ہے۔سہیل وڑائچ جیسے متوازن فکر اور تجربہ کار تجزیہ نگار نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ یہ کمپنی چلتی نظر نہیں آتی۔ کچھ اور ماہرین بھی اشارے دے رہے ہیں کہ اندر ہی اندر کھچڑی پک رہی ہے۔مَیں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ حکومت کی ناکامی کی صورت میں پلان بی بھی تیار ہے۔پارلیمینٹ میں ابھی تک نارمل حالات پیدا نہیں ہوئے۔ عمران خان کے منہ سے اپوزیشن کے بارے میں چور اور ڈاکو والی للکار کچھ عرصے سے نہیں سنی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ پارلیمینٹ میں مراد سعید کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے کہ وہ تلخی کا لیول برقراررکھیں۔اب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں شیخ رشید کو بھیجنے کا مطلب بھی ماحول کو گرم رکھنا ہے۔اگرچہ سپیکر کا فیصلہ ہے کہ کوئی وزیر کسی قائمہ کمیٹی کا رکن نہیں بن سکتا، شیخ رشید کو اس کے لئے استثنا نہیں ملے گا۔ حکمران پارٹی کے اندر ہم آہنگی اور پھر چھوٹے چھوٹے،مگر بالکل مختلف الخیال اتحادیوں سے مفاہمت کی عدم موجودگی تواپنی جگہ، اب تک تو بیورو کریسی کے ساتھ معاملات طے نہیں ہو سکے۔ پہلے ایک طویل عرصے تک بیورو کریسی کو شریفوں کی غلامی کا طعنہ دیا جاتا رہا، پھر یہاں تک کہا گیا کہ وہ چاہے کسی پارٹی کے حامی ہوں،حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں،گویا بیورو کریسی کو یہ رعایت ہے کہ وہ کسی سیاسی پارٹی سے ہم آہنگی رکھیں۔


حیرت کی بات ہے بیورو کریٹ تو کسی پارٹی کا نہیں ریاست کا وفادار ہوتا ہے۔بہرحال پھر اَن گنت تبادلے کئے گئے، پنجاب میں پتہ نہیں پچھلے چھ ماہ میں کتنے لوگ آئی جی لگ چکے ہیں۔ یہی حال اسلام آباد میں ہے، پھر یہ بھی ہوا کہ جو بیورو کریٹ شہباز شریف کے قریب تھے، آخر کار انہی کو اہم پوسٹوں پر لگایا گیا۔ ایف بی آر کے چیئرمین اور سیکرٹری داخلہ اس کی مثال ہیں۔ایک اطلاع کے مطابق ایف بی آرکے چیئرمین کو اپنے ماتحتوں کا اعتماد حاصل نہیں،کیونکہ وہ ڈی ایم جی گروپ سے ہیں اور نیچے متعلقہ محکموں کسٹم اور انکم ٹیکس کے لوگوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ ابھی بیورو کریسی کے ساتھ ٹیم ورک کا ماحول پیدا نہیں ہوا، کیونکہ وہ لوگ نیب کی مہم کی وجہ سے بھی محتاط ہیں، پھر اوپر سے پاک پتن کا واقعہ، اسلام آباد میں اعظم سواتی کا معاملہ اوراب ساہیوال والے واقعے نے تو حکومت کی رٹ خصوصاً وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی اہلیت پر سنجیدہ سوال اُٹھا دیئے ہیں۔ میرٹ اور پولیس ریفارم کے دعوے ابھی تک تو ہوا میں ہیں، جبکہ یہی نعرے پی ٹی آئی کی کامیابی کی بنیاد تھے۔

اوپر سے مہنگائی،خصوصاً گیس کے غیر معمولی بلوں سے عوامی سطح پر پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔یہ صورتِ حال کسی بھی حکومت کے لئے پریشان کن ہے، بلکہ ملک کے لئے مفید نہیں، کیونکہ ہمارے مسائل پہلے ہی بہت گھمبیر ہیں، لہٰذا ہم زیادہ وقت ان سیاسی جھگڑوں اور بے اطمینانی کی نذر کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا جتنا جلدی ہوسکے حکومت کو تیاری اور اہلیت کی کمی کے تاثر کو دور کرنا چاہئے۔ یہ کہنا کہ ہمیں خرابی کا اندازہ نہیں تھا،آپ کی انتہائی سادگی ہے۔کل کلاں یہ نہ کہہ دیں کہ ہمیں تو اندازہ نہیں تھا کہ حکومت کرنا اتنا مشکل کام ہے۔ نظام کو چلانے کے لئے اپوزیشن کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے، خصوصاً پارلیمانی نظام میں اپوزیشن ایک لحاظ سے حکومت کی جونیئر پارٹنر ہوتی ہے۔یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت اور پارلیمینٹ کو چلانے کی ذمہ داری صرف حکومت کی ہوتی ہے، البتہ حکومت کے STAKES زیادہ ہوتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -