اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 128
بلبن کی وفات کے بعد وہی ہوا جو سینکڑوں برسوں سے بادشاہوں کے شاہی محلات میں ہوتا دیکھتا چلا آرہا تھا۔ ملک فخرالدین کوتوال کسی وجہ سے خان رشید مرحوم سے ناخوش تھا اس لئے اس نے اس کے بیٹے کیخسرو کو بادشاہ بنانا پسند نہ کیا۔ اس نے اپنی ریشہ دوانیاں شروع کردیں اور دربار کے دوسرے امراء اور وزراء سے کیخسرو کو معزول کرنے اور اس کی جگہ بغرا خان کے بیٹے کیسقباد کو تخت نشین کرنے کا مشورہ کیا اس نے کہا
کیخسرو مزاج کا بہت درشت ہے اگر حکومت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں آگئی تو یہ بات اچھی نہ ہوگی اور ہم لوگوں کے لئے آرام اور چین سے زندگی بسر کرنا مشکل ہو جائے گا لیکن اس کے برعکس کیسقباد بہت ہی نیک نفس اور سیدھی طبیعت کا مالک ہے۔ اس نے غیاث الدین بلبن کی آغوش محبت میں تربیت پائی ہے اس لئے یہی مناسب ہے کہ ہم کیسقباد ہی کو بادشاہ کا جانشین مقرر کردیں۔‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 127 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان امیروں کو اس حقیقت کا علم نہیں تھا کہ اگر کیسقباد کے ہاتھ میں حکومت آگئی تو اس کا انجام اچھا نہ ہوگا۔ دربار کے تمام امراء نے فخر الدین کوتوال کی رائے سے اتفاق کیا۔ انہوں نے کیخسرو کو ملتان روانہ کردیا اور کیسقباد کو دہلی کے تخت پر بٹھادیا۔ اس وقت کیسقباد کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔ ملک فخر الدین کوتوال کا داماد اور بھتیجا نظام الدین کیسقباد کا دست راست تھا اور کیسقباد کی عیش کوشیوں میں اس کا شریک خاص تھا۔ کیسقباد نے بڑی فراخ دلی سے نفس پرستی اور عیاشی میں اپنا وقت ضائع کرنا شروع کردیا۔ کیسقباد معزالدین کا لقب پاکر دہلی کے تخت پر حکمرانی کررہا تھا۔ فخر الدین کا دامادملک نظام الدین اس کا ہم پیالہ و ہم نوالہ تھا۔ وہ ’’وکیل در‘‘ بنادیا گیا جس کے بعد وہ سلطنت کے امو رکے سیاہ و سفید کا مالک ہوگیا۔ گویوں، شرابیوں اور عیش پرستوں کا ستارہ بلند ہوگیا۔ تمام امراء اور ارکان سلطنت نے بھی شاہی محل کے اردگرد اپنے محل تعمیر کروائے اور دن رات داد عیش دینے لگے۔ کیسقباد کی عیش پرستی اور بے خبری کا یہ رنگ دیکھ کر ملک نظام الدین کے سر میں حکومت کا سودا سمایا۔
میری یہ حالت تھی کہ میں کیسقباد کے درباری امراء میں شریک تھا اور ہر لحظہ ملک ہند سے بطرف اندلس جانے کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ جہاں مور مسلمانوں کی ایک عظیم الشان سلطنت عروج پر تھی۔ ملک نظام الدین کیسقباد کے خلاف سازش میں لگ گیا۔ مگر کیسقباد کی ایک چہیتی کنیز نے کیسقبادکو ملک نظام کے عزائم سے آگاہ کردیا۔ کیسقباد نے ملک نظام کو زہر دلواکر ہلاک کروادیا۔ اس کی جگہ کیسقباد نے میر جلد ارملک جلال الدین فیروز کو ’’عارضی ملک‘‘ کے عہدے پر سرفراز کیا۔ اب شاہی امراء دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ایک گروہ خلجی امرا کا تھا جو جلال الدین کی و فاداری کا دم بھرتا تھا۔ دوسرا گروہ ترکی سرداروں کا تھا یہ گروہ کیومرث کا حامی تھا کیسقباد کی غفلت اور بے راہ رویاں رنگلانے والی تھیں۔
ان بے اعتدالیوں کی وجہ سے بادشاہ کی صحت کو سخت نقصان پہنچا اور وہ کمزور و نحیف ہوکر بستر مرگ پر پڑگیا۔ دہلی کے امراء کی ایک بڑی تعداد جلال الدین خلجی کے حلقہ بگوش میں شامل ہوگئی۔ جلال الدین خلجی نے ان ترک نوجوانوں کو جن کے باپ کیسقباد کے ہاتھوں مارے گئے تھے کیسقباد سے بدلہ لینے کے لئے کیلوکھری کے شاہی محل کی طرف روانہ کردیا۔ کیسقباد فالج کی وجہ سے پہلے ہی ادھ موا ہوچکا تھا۔ صرف سانس کا رشتہ باقی تھا۔ ان ترک نوجوانوں نے بادشاہ ہند کو چمڑے کے ایک تھیلے میں لپیٹا اسے موگروں سے کوٹا اور پھر لاش کے تھیلے میں پتھر ڈال کر دریائے جمنا میں بہادیا۔ ہند کی سلطنت غور کے ترکی نژاد غلاموں کے ہاتھ سے نکل کر خلجیوں کے قبضے میں چلی گئی اور جلال الدین خلجی نے اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔ تخت نشینی کے وقت اس کی عمر 70 برس تھی ، گزشتہ حکمرانوں کے برعکس جلال الدین خلجی نے چتر شاہی کا رنگ سرخ کی بجائے سفید قرار دیا اور ظلم و شقاوت سے کنارہ کشی اختیار کرکے لطف و کرم کو اپنا شعار بنایا۔ جلال الدین نے دریائے جمنا کے کنارے ایک بڑا خوبصورت باغ لگوایا۔ اس نے کیلوکھری میں مسجدوں اور بازاروں کا ایک خوبصورت سلسلہ شروع کروایا اور اسے ’’شہرنو‘‘ کا نام دیا۔ بادشاہ کا شاہی محل بھی کیلو کھری میں ہی تھا لیکن جب جلال الدین کے لطف و کرم کی شہرت عام ہوئی اور اپنی اعلیٰ خصوصیات کی بنا پر وہ اہل دہلی میں مقبول ہوگیا تو بادشاہ واپس دہلی آگیا۔ جب وہ دہلی کے بادشاہی محل کے قریب پہنچا تو اس نے دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی۔ تخت شاہی پر بیٹھ کر جلال الدین خلجی نے دربار سے مخاطب ہوکر کہا
’’میں سوچتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ کا کس طرح شکر ادا کروں۔ ایک وہ دن تھا کہ جب میں اس تخت کے سامنے زمین بوس ہوکر ہاتھ باندھے کھڑا رہتا تھا اور آج خود اس تخت پر بیٹھا ہوں۔‘‘
تخت پر کچھ دیر بیٹھنے کے بعد بادشاہ نے غیاث الدین بلبن کے خاص محل ’’کوشک لعل‘‘ کا رخ کیا۔ میں بھی امراء کی جماعت میں شامل اس کے ہمراہ تھا، بارگاہ سلطانی کے قریب پہنچ کر وہ اپنی عادت کے مطابق گھوڑے سے اتر پڑا۔ جلال الدین خلجی کو گھوڑے سے اترتے دیکھ کر وزیر ملک حبیب احمد نے فوراً آگے بڑھ کر عرض کی
’’عالم پناہ! اب یہ محل آپ کی ملکیت ہے۔ اپنے خاص محل میں شاہی آداب کو ملحوظ رکھنا آپ کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘‘
جلال الدین خلجی نے جواب دیا
’’اپنے آقائے ولی نعمت کی عزت و حرمت کرنا ہر انسان کا اولین فرض اور مستحسن فعل ہے۔‘‘
ملک حبیب احمد نے کہا ’’اب حضور کو اسی محل میں قیام کرنا چاہیے۔‘‘ جلال الدین نے جواب میں کہا
’’سلطان مرحوم نے اس محل کو اس زمانے میں جب کہ وہ امراء کی صف میں شامل تھے اپنے ذاتی روپے سے بنوایا تھا۔ اس لئے اس محل کے وارث غیاث الدین کے وارث ہیں نہ کہ میں۔‘‘
اس پر ملک حبیب نے کہا ’’ملکی انتظامات کے پیش نظر ایسی احتیاط کو ملحوظ رکھنا مناسب نہیں عالم پناہ!‘‘
جلال الدین نے فوراً جواب دیا ’’میں اس زندگی مستعار کے لئے اسلامی شرع کے احکام کی خلاف ورزی کرنا ہرگز پسند نہیں کرتا۔‘‘
اس کے بعد جلال الدین خلجی پیادہ پاکو شک لعل محل میں داخل ہوا۔ اس محل کے ایسے مقامات پر جہاں غیاث الدین بلبن بیٹھا کرتا تھا۔ جلال الدین نے حفظ مراتب کے پیش نظر وہاں پاؤں نہ رکھا بلکہ اسی چبوترے پر بیٹھا جہاں بلبن کے زمانے میں امراء اور اراکین سلطنت بیٹھا کرتے تھے۔ یہاں اس نے امراء کو خطاب کرتے ہوئے کہا
’’میرے دشمنوں نے میرے قتل کا ارادہ کیا اور میں نے اپنی جان کو خطرے کے پیش نظر اس عظیم الشان سلطنت کے بوجھ کو اپنے کاندھوں پر لادا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میر اانجام کیا ہوگا۔ جب باوجود اس تزک و احتشام، رعب داب، کثر امراء و ملازمین کے سلطنت نے غیاث الدین بلبن سے وفا نہ کی اور اس کی آنکھیں بند کرتے ہی اس کی اولاد تباہ و برباد ہوگئی تو میرے بعد میری اولاد کا کیا حشر ہوگا؟ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ میرے بعد میرے وارث کیا کریں گے اور زمانہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔‘‘
بادشاہ کی اس تقریر سے بیشتر امراء کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے۔ بعض ایسے درباری جو جوانی کے نشے میں سرشار اور قدرے بے باک تھے آپس میں چہ میگوئیاں کرتے ہوئے بادشاہ کو برا بھلا کہنے لگے۔ ایک جواں سال امیر نے میرے کان میں سرگوشی کی
’’جلال الدین نے آج ہی عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی ہے اور آج ہی سے اپنے زوال کے کواب دیکھنے شروع کردئیے ہیں۔ جب ابھی سے اس کا یہ عالم ہے تو اس سے قہر و سیاست کی توقع رکھنا بے کار ہے جو حکومت کی بنیاد ہوتے ہیں۔‘‘
عصر کے بعد جلال الدین کو شک محل سے دہلی واپس آیا۔ اس کے بعد اس نے دہلی میں ایک بہت عظیم الشان جشن مسرت منایا اور اپنی ایک بیٹی کی علاؤالدین خلجی کے ساتھ شادی کی اور دوسری بیٹی کو الماس بیگ الغ خان سے بیاہا۔
اس کے بعد ایک روز ایسا بھی طلوع ہوا کہ جب دریائے گنگا کا پانی جلال الدین خلجی کے خون سے سرخ ہورہا تھا۔ یہ تاریخ کا ایک عبرت ناک سبق ہے جو وقت کے صفحات پر بار بار دہرایا جاتا رہا ہے اور جس کا میں عینی گواہ ہوں۔(جاری ہے)