بچوں سے بداخلاقی کے مجرموں کو برسر عام پھانسی؟
قومی اسمبلی نے کثرتِ رائے سے ایک قرارداد منظور کی ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو بداخلاقی کے بعد قتل کرنے والوں کو سرعام پھانسی کی سزا دی جائے یہ قرارداد پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے پیش کی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چودھری اور انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے قرارداد کی مخالفت کی،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی میں قرارداد پیش کرنے سے پہلے مشاورت نہیں کی گئی اور اگر مشورہ کیا گیا تو اس پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر مملکت کی پیش کردہ قرارداد کی دو وفاقی وزراء نے مخالفت کی،پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی قرارداد کی مخالفت کی گئی، قرارداد پیش کرنے والے وزیر علی محمد خان نے اپنی قرارداد کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے حوالے سے ایک بل زیر التوا ہے،جس پر جلد از جلد اسمبلی میں بحث ہونی چاہئے اور اسے منظور کیا جانا چاہئے۔پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برسر عام سزائے موت کا قانون بنایا گیا تو اس پر پوری دُنیا سے ردعمل آ سکتا ہے۔
ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ قرارداد انفرادی طور پر پیش کی گئی ہے اگر ایسا ہے تو بھی اس پر تحریک انصاف کو کوئی نہ کوئی موقف تو اختیار کرنا پڑے گا،قرارداد کی منظوری سے تو لگتا ہے کہ اکثریت کی رائے بچوں سے بداخلاقی کے ملزموں کو ایسی کڑی سزا دینے کے حق میں ہے،پھانسی کی برسر عام سزا دینے سے یہی مقصود ہے کہ دیکھنے والوں کو عبرت ہو اور جرائم پیشہ لوگ ایسے سنگین اور انسانیت سوز جرائم کے مرتکب نہ ہوں،اس وقت پاکستان میں جو آئین نافذ ہے اس میں ایسی کسی سزا کی گنجائش نہیں، اِس لئے اگر برسر عام سزائے موت کا قانون بنانا ہے تو پہلے آئین میں ترمیم کرنا ہو گی،کیونکہ قومی اسمبلی(یا سینیٹ) کوئی ایسا قانون منظور نہیں کر سکتی،جو آئین کے خلاف ہو، حکمران جماعت کو تو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں،جبکہ آئین میں ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت ضروری ہے،ان حالات میں پارلیمینٹ میں موجود دوسری سیاسی جماعتوں کا کردار اہم ہے،ایسے میں اگر حکمران جماعت کے فواد چودھری اور شیریں مزاری جیسے ارکان ایسے کسی قانون کی مخالفت کرتے رہیں گے تو قانون کیسے منظور ہو گا،اِس لئے بہتر یہ ہے کہ حکومت اگر ایسے کسی قانون کی منظوری میں سنجیدہ ہے اور محض ایک قرارداد کی منظوری تک نہیں رہنا چاہتی تو اسے سنجیدگی کے ساتھ دوسری جماعتوں کے ساتھ تبادلہ ئ خیالات اور سلسلہ جنبانی کرنی چاہئے،عمومی طور پر تو وہ ایسے کسی تبادلہ ئ خیال کے حق میں نہیں ہوتی اور ”کرپٹ لوگوں“ سے کسی قسم کی بات چیت سے گریز پا ہی رہتی ہے تاہم قانون سازی میں اپوزیشن کا جو کردار ہے اس کے پیش نظر ایسے معاملات میں سولو فلائٹ مفید نہیں ہوتی۔ حال ہی میں اپوزیشن کے تعاون سے بعض قوانین منظور کرائے گئے ہیں یہ سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کے ساتھ بداخلاقی کے واقعات پر ردعمل تو شدید ہوتا ہے اور جب کبھی ایسا کوئی سانحہ ہو جاتا ہے اس کی کھل کر مذمت بھی کی جاتی ہے اور ایسے ہی مواقع پر یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ ایسے مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے،لیکن یہ مطالبہ اسی صورت میں مانا جا سکتا ہے،جب قانونی تقاضے بھی پورے کئے جائیں محض جذباتی مطالبات سے نہ تو کسی مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جا سکتا ہے اور نہ ہی لوگوں کی خواہشات پوری کی جا سکتی ہیں اس کا طریقہ تو یہی ہے کہ جس طرح قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں سے مل کر قرارداد منظور کی گئی ہے اسی طرح ان جماعتوں کے تعاون سے دوسرے قانونی تقاضے بھی پورے کئے جائیں،جہاں تک راجہ پرویز اشرف کے اس خیال کا تعلق ہے کہ دُنیا سے ردعمل آئے گا ایسا تو یقینی ہے، کیونکہ بعض ممالک تو سرے سے موت کی سزا ہی کے مخالف ہیں اور پاکستان پر اس سلسلے میں زور دیا جاتا رہا ہے کہ موت کی سزا ختم کی جائے،اِس لئے یہ مماتک سرعام پھانسی دینے کی حمایت تو نہیں کریں گے،ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تو محض ایک قرارداد کی منظوری پر تشویش کا اظہار کر دیا ہے اور دو حکومتی وزراء نے بھی قرارداد کی حمایت نہیں کی،جس سے لگتا ہے کہ جب کبھی ایسا بل سامنے آئے گا تو یہ وزراء اس کی مخالفت کریں گے،اس لئے ابھی سے اس راستے میں آنے والی مشکلات پر غور کر لینا چاہئے۔
جہاں تک اس خیال کا تعلق ہے کہ سخت سزاؤں کا خوف لوگوں کو جرائم کے ارتکاب سے روکتا ہے اس بارے میں دُنیا کی رائے مختلف ہے،جو ممالک پھانسی جیسی سزاؤں کے مخالف ہیں وہ مختلف رائے رکھتے ہیں تاہم جن ممالک میں سخت قوانین نافذہیں اور عدالتوں کے ذریعے ان قوانین کے تخت سزائیں دی جاتی ہیں،وہاں سزاؤں کے خوف سے ایسے جرائم کا ارتکاب نہیں ہوتا یا بہت ہی کم ہوتا ہے۔جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران جب آئین معطل تھا، لاہور میں ایک واقعہ کے بعد بداخلاقی اور قتل کے مرتکب لوگوں کو سرعام پھانسی پر لٹکایا گیا تو کچھ عرصے کے لئے ایسے جرائم کا سلسلہ رُک گیا تھا۔ بعد میں سرعام پھانسیوں کا یہ سلسلہ جاری نہ رہا،تو ایسے جرائم کے ارتکاب کی رفتار تیز ہو گئی،جن دِنوں قصور کی ایک کمسن لڑکی زینب کے ساتھ بداخلاقی کا واقعہ ہوا ملزم کی گرفتاری سے لے کر سزائے موت تک تمام مراحل تیزی سے نمٹائے گئے اور اسے پھانسی کی سزا دی گئی، عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا اور طویل قانونی مراحل کے بعد ایسے ملزم یا تو کم سزا پاتے ہیں یا بری ہو جاتے ہیں،اِس لئے اگر حکومت برسر عام پھانسی کی قرارداد تک محدود نہیں رہنا چاہتی اور واقعتا ایسے جرائم کے مرتکبین کو پھانسی کے تختے پر برسر عام جھولتا ہوا دیکھنا چاہتی ہے تو اس سلسلے میں قانون سازی کے تمام مراحل تیزی سے نپٹائے جائیں،اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ حکومت پہلے اس معاملے پر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے اور پھر دوسری جماعتوں سے بھی تعاون طلب کرے، خصوصاً جن جماعتوں نے اس قرارداد کی مخالفت کی ہے وہ آسانی سے ایسی کسی قانون سازی کی حمایت نہیں کریں گی اس کے لئے بہت زیادہ محنت کرنا ہو گی محض ایک قراردادِ سے مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہو گا۔