پناہ گاہ کا ثواب اسحاق ڈار کو ملے گا!
ہمارے دوست پروفیسر نعیم اشرف کا کہنا ہے،جس روز عمران خان بنی گالا کو غریبوں اور ناداروں کے لئے پناہ گاہ بنانے کا اعلان کریں گے، اس روزصحیح معنوں میں ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی جائے گی…… وہ لاہور میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی رہائش گاہ کو پناہ گاہ بنانے پر تبصرہ کر رہے تھے۔ پاس بیٹھے ہوئے محمد رفیق نے لقمہ دیا، جاتی امراء کے بارے میں کیا خیال ہے، کیا اسے بھی اس کار خیر کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئے؟ اس پر ماحول خاصا گرم ہو گیا۔ مَیں نے درمیان میں مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار کی رہائش گاہ ہجویری ہاؤس کو پناہ گاہ عرف لنگر خانہ بنا کر خود اسحاق ڈار کے حق میں نیکی کا کام کیا گیا ہے۔ ویسے وہ گھر خالی پڑا رہتا اور اس میں چمگادڑیں بسیرا کرلیتیں، اب غریبوں کی آماجگاہ بن گیا ہے، جو وہاں رہیں گے اور دعائیں دیں گے تو ظاہر ہے اس کا ثواب اسحاق ڈار کو ضرور ملے گا کہ انہوں نے یہ گھر بنایا اور پھر اسے خالی چھوڑ کر لندن چلے گئے۔ لاہور کے پوش علاقے میں بارہ کمروں کی اس عالیشان کوٹھی میں رہنا کسی غریب آدمی کے لئے جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ یہ جنت اب غریبوں کو مفت میں مل گئی ہے۔ اسحاق ڈار نے یقیناً سکھ کا سانس لیا ہوگا کہ ان کا یہ گھر نیلام کر کے کسی سرمایہ دار کو نہیں دے دیا گیا، بلکہ مسافروں اور نادار افراد کے لئے وقف کیا گیا ہے۔ مَیں نے نعیم اشرف سے کہا کہ عمران خان کے تخلیقی ذہن کو داد دینی چاہئے کہ انہوں نے اس گھر کو پناہ گاہ بنانے کا سوچا، بنی گالا والا گھر بھی اگر کبھی اسی طرح خالی ہوا تو اسے بھی پناہ گاہ بنانے کا خیال ان کے ذہن رسا میں آ سکتا ہے۔
یہ سیاست بھی کیا کیا رنگ دکھاتی ہے؟ خاص طور پر اس صورت میں کہ جب آپ سیاست کو مال و زر جمع کرنے کا ذریعہ سمجھ لیتے ہیں۔ احتساب عدالت کے حکم سے اسحاق ڈار کا یہ گھر بحق پنجاب حکومت ضبط ہو گیا تھا اور اس کی نیلامی کا حکم دیا گیا، مگر عین وقت پر اسحاق ڈار کی اہلیہ نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ گھر انہیں حق مہر میں ملا ہے، اس لئے اس پر اسحاق ڈار کا کوئی حق نہیں۔ جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیلامی روک دی اور حکم امتناعی جاری کر دیا۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے گھر کے سامنے واقع پارک کی زمین کو چار دیواری کر کے حدود میں شامل کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے اسے گرانے کا حکم دیا تھا، جس پر عملدرآمد ہوا اور پارک کو اصلی حالت میں بحال کر دیا گیا۔ انسان کا گھر اس کی پہچان ہوتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں جب بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کے ماڈل ٹاؤن میں واقع گھر، جسے دنیا ”داستان سرائے“ کے نام سے جاتنی ہے، کی فروخت کے بارے میں سوشل میڈیا پر آیا تو لوگ افسردہ ہو گئے۔ ان کا خیال تھا یہ ایک تاریخی ادبی ورثہ ہے، اسے اسی نام سے محفوظ کیا جانا چاہئے، لیکن ایسی باتیں کون سوچتا ہے، جب قیمت کروڑوں روپے مل رہی ہو تو اسے صرف پرانی شناخت کے لئے وقف نہیں کیا جا سکتا۔ اسحاق ڈار کا یہ ہجویری ہاؤس بھی ایک مشہور گھر ہے، جہاں سیاست کے بڑے بڑے قد آور لوگ آتے رہے، نوازشریف تو اکثر یہاں موجود ہوتے تھے۔ سیاسی تاریخ کے حوالے سے بھی اس گھر کی بڑی اہمیت ہے۔ اسحاق ڈار اگر مفروری کا راستہ اختیار نہ کرتے اور ملک میں رہ کر مقدمات لڑتے، تو اس گھر پر ایک مفرور کے گھر کا لیبل نہ لگتا، نہ ہی اسے ضبط کیا جاتا۔ وہ اپنے پورے خاندان سمیت پاکستان سے چلے گئے۔
سنا ہے اس گھر کے سرونٹ کوارٹرز بھی ہر سہولت سے مزین ہیں۔ ان خواب گاہوں کی تو بات ہی کیا ہو گی، جہاں ملک کا وزیر خزانہ اور اس کے بچے سوتے ہوں گے۔ جن کمروں میں ملازمین جوتیاں باہر اتار کر جاتے ہوں گے، اب وہاں عوامی بیڈ ڈال دیئے گئے ہیں۔ اب وہاں پرانی جوتیاں پہننے والے غریب مزدور، بے روز گار پردیسی اور لا چار و نادار افراد موج کریں گے۔ کوئی روک ٹوک، نہ مالک کے آنے کا ڈر، کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے یہ فیصلہ سستی شہرت کے لئے کیا ہے؟ کچھ کا خیال ہے کہ یہ بھی سیاسی انتقام کی ایک شکل ہے، تاکہ مخالفین کو عبرت کا نشان بنا کر پیش کیا جائے…… ”جتنے منہ اتنی باتیں“ کے مصداق کچھ بھی کہا جا سکتا ہے،مگر مَیں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ ہمارے نظامِ احتساب کے حصے میں صرف نیکی کرنا ہی آ سکتا ہے، لوٹی گئی دولت واپس نہیں آ سکتی۔ اگر یہ گھر نیلامی میں بیس کروڑ روپے کا بک جاتا تو قومی خزانے میں یہ رقم آ جاتی، جس کی اشد ضرورت ہے، لیکن کہاں صاحب! احتساب کے نتیجے میں اگر کوئی گھر پناہ گاہ بن جاتا ہے تو اسے بھی غنیمت سمجھا جائے۔ اس رقم سے مختلف شہروں میں بیس سے زائد پناہ گاہیں بن سکتی تھیں، تاہم احتساب ابھی اتنا تیز رفتار نہیں ہوا کہ ایسے معجزے رو نما ہو سکیں، البتہ سیاسی شعبدے ضرور رونما ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اسحاق ڈار، جو آج کل لندن کی مساجد میں باقاعدگی سے نظر آتے ہیں، اس خبر پر خوش ہوئے ہوں گے کہ ان کے گھر میں لنگر خانہ کھل گیا ہے۔ مفت میں ثواب ملنے کی سبیل پیدا ہو گئی ہے۔
سنگ و خشت کی عمارت میں کھانے پینے کا سارا خرچہ تو سرکار نے کرنا ہے۔ پناہ گاہ نہ بنتی تو یہاں پولیس والوں کے ڈیرے ہونے تھے، اب اتنا تو ہوگا کہ یہاں رہنے والے غریب غرباء عالیشان گھر بنانے والوں کو دعائیں دیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک ہمدرد ملے تو انہوں نے حکومت کے اس عمل کو انتقامی کارروائی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت مسلم لیگ (ن) کے لوگوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہی ہے۔ اب تک جتنی گرفتاریاں ہوئی ہیں، مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی ہیں، اگر حکومت کو نیکی کا کام کرنے کی اتنی ہی عادت پڑ گئی ہے تو پھر اس نے چک شہزاد میں پرویز مشرف کی ضبط شدہ جائیداد پر پناہ گاہ کیوں نہیں بنائی، کیا وہاں اس کے پر جلتے ہیں؟ مَیں نے اسے کہا کہ جائیدادیں تو شہباز شریف کی، بہت سی سیل پڑی ہیں، حکومت نے ان میں لنگر خانے قائم نہیں کئے۔ یہ سعادت صرف اسحاق ڈار کو ان کی کسی نیکی کے باعث حاصل ہوئی ہے کہ ان کا گھر ایک فلاحی مقصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے……مَیں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ کسی اگلے دورے میں اگر وزیر اعظم عمران خان نے لاہور آکر اس پناہ گاہ کو دیکھنے کی خواہش کی تو کیا منظر ہوگا اور اگر اپنی عادت کے تحت انہوں نے اس گھر میں کھڑے ہو کر یہ کہہ دیا کہ اسحاق ڈار جو ملک کی دولت لوٹ کر بھاگا ہوا ہے، آج اس لوٹ مار سے بنے ہوئے گھر میں ہم نے اللہ کے حکم سے لنگر خانہ کھول دیا ہے تو اس کے کیا سیاسی اثرات ہوں گے؟ پھر انہیں جوابی توپوں کا ضرور سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سوال تو ان کی بنی گالا والی رہائش گاہ کے بارے میں بھی اٹھتے رہے ہیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ سیاست اور ذاتیات کو ایک دوسرے سے دور رکھا جائے، وگرنہ کیچڑ اچھلتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کس پر گر رہا ہے؟ نیتوں کے حال تو اللہ ہی جانتا ہے، تاہم اگر ایک خالی پڑی کوٹھی کو وقتی طور پر غریبوں کے لئے پناہ گاہ بنا دیا گیا ہے تو یہ ایک اچھا فیصلہ ہے، بشرطیکہ اسے سیاسی فائدے کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔