مرگی کے مریضوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے،پروفیسر خالد محمود

    مرگی کے مریضوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے،پروفیسر خالد محمود

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 لاہور(جنرل رپورٹر)پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا ہے کہ مرگی دیگر بیماریوں کی طرح ایک دماغی و اعصابی مرض ہے اور اس بیماری کے مریضوں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے،ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے دور میں جب مرگی قابل علاج مرض ہے تو اس میں مبتلا افراد کو درست ٹریک پر رکھا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرگی کا مرض عمومی طور پر دماغی چوٹ، دیرینہ پیچیدہ بیماریوں، ٹائیفائڈ،تپ دق، بلڈ پریشر کے علاوہ ڈپریشن و ذہنی صدمات کے نتیجے میں لا حق ہوتا ہے۔
اسی طرح معالجین کے مطابق یہ موروثی مرض نہیں اور اس کے علاج کے لئے مستند معالج و ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور تعویز گنڈا،توہم پرستی،جھاڑ پھونک کا اس سے قطعاً علاج ممکن نہیں اور مرگی کے مرض پر جوتیاں سنگھانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ای ڈی پنز پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ناخواندگی،غربت اور ٹوٹکوں پر بہت زیادہ اعتماد کی وجہ سے دور دراز علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی اکثر یت مرگی کو جن بھوت اور خلائی چیزوں کا اثر قرار دے کر جعلی عالموں،پیربابوں کے پاس خصوصاً مریض خواتین اور بچوں کو لے کر جاتے ہیں جس سے کیس خراب ہو کر مریض کا علاج معالجین کے لئے بھی ایک چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ان خیالات کا اظہارعالم یوم مرگی کے حوالے سے پی آئی این ایس میں منعقدہ تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمودنے کیاجہاں مرگی کے مرض کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے لئے آگاہی واک کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں پروفیسر احسن نعمان، پروفیسر انور چوہدری، پروفیسر الطاف قادر،ڈاکٹر محسن ظہیر،ڈاکٹر شاہد مختار،ڈاکٹر فوزیہ سجاداور رضیہ شمیم کے علاوہ، ینگ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی کثیر تعداد شریک تھی طبی معالجین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ضروری ہے کہ مرگی کے بارے میں معاشرے میں پائے جانے والے غلط اعتقادات اور نظریات کو ختم کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ شعور و آگاہی پید اکی جائے علاوہ ازیں مرگی کے علاج کے لئے طبی سہولیات کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ اس بیماری میں استعمال ہونے والی ادویات کو بھی سستے نرخوں پر فراہم کیا جائے تاکہ لوگ غربت اورکم وسائل کی وجہ سے عطائیوں اور عاملوں کا شکار نہ بنیں اور مرگی کے مرض کا باقاعدہ علاج معالجہ کروائیں۔ میڈیا سے گفتگو میں پروفیسر خالد محمود،پروفیسر احسن نعمان، ڈاکٹر محسن ظہیر اورڈاکٹرشاہد مختار نے کہا کہ دنیا بھر میں 5کروڑ لوگ مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد 22لاکھ کے لگ بھگ ہے،یہ مرض ابتدائی عمر، جوانی اور 50سال کے بعد بھی ہو سکتا ہے۔بچپن میں انفیکشن و آکسیجن کی کمی بھی اس کی اہم وجہ ہے جبکہ50سال کے بعد مرگی ہونے کی وجہ بلڈ پریشر، شوگر اور برین ٹیومر ہے۔انہوں نے بتایا کہ48ہزار مریضوں کے لئے صرف ایک نیورالوجسٹ ہے جن کی تعداد زیادہ ہونے چاہئیں۔اسی طرح پاکستان کے مرگی کے 22لاکھ مریضوں کے لئے صرف50ہزار مریض باقاعدہ علاج کرواتے ہیں۔ اسی طرح مرگی کی تشخیص کے لئے ایم آر آئی، ای ای جی اور دیگر ٹیسٹوں کا ہونا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ دوران پیدائش پیچیدگیاں بھی مرگی کا باعث بن سکتی ہیں جبکہ مستندد علاج معالجے کے بعدایپی لیپسی کے مریض عام لوگوں کی طرح نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔تقریب کے اختتام پر فضاء میں کبوتر آزاد کئے گئے اور شہریوں میں آگاہی کیلئے پمفلٹس بھی تقسیم ہوئے۔