بحرہند میں چین کو روکنے کی سازش (2)
بحرہند یا کسی بھی بین الاقوامی زمینی، فضائی یا سمندری راستے کو بند کر دینا بظاہر محالات میں سے ہے لیکن جب بھی ایسا ہوا ہے ایک خوفناک عالمی جنگ کا دروازہ کھل گیا ہے۔ آیئے ذرا تاریخ کے جھروکے میں جھانک کر دیکھیں۔
قارئین کو معلوم ہوگا کہ غزوۂ بدر بظاہر ایک معمولی جھڑپ تھی۔ ایک طرف 313 مسلمان تھے اور دوسری طرف ایک ہزار یا اس سے کچھ زیادہ کفارِ مکہ۔ آج کل کی عسکری تنظیم کو دیکھیں تو یہ ایک کمپنی پلس کی جھڑپ تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے اس تجارتی راستے (Route) کو روکنے کی دھمکی دی تھی جو مکہ سے ملک شام کے درمیان صدیوں سے ایک بڑا تجارتی روٹ چلا آ رہا ہے، جو مکہ سے بحیرۂ احمر (Red Sea) کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا شام کی طرف جاتا تھا۔ سن دو ہجری میں مسلمانانِ مدینہ نے کفار مکہ کے تجارتی قافلے کو بدر کے مقام پر روکنے کی کوشش کی جس کے باعث وہ جنگ ہوئی جو کفر و اسلام کی پہلی جنگ کہلائی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس چھوٹی سی جھڑپ کی کوکھ سے آگے چل کر کفر و اسلام کے درمیان بڑی بڑی جنگوں نے جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے قیصر و کسریٰ کی قدیم اور عظیم سلطنتیں پارہ پارہ ہو گئیں …… یعنی جس جھڑپ کی ابتدا بدر کے مقام پر 17رمضان سن دو ہجری میں ہوئی تھی اس کے جلو میں وہ جنگیں چشمِ عالم نے دیکھیں جو قارسیہ، یرموک، مدائن اور دیبل کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ اس دور میں ایران اور روم کی سلطنتیں ہی دنیا کی سب سے بڑی بادشاہتیں تھیں۔ اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ دنیا کی پہلی عالمی جنگوں کا ایک سلسلہ تھا جو مسلمانوں کی عالمی یلغاروں سے شروع ہوا اور 700برس تک جاری رہا۔
اس کے بعد جب سفید فام اقوام کی عالمی ترک تازیوں کے دور کا آغاز ہوا تو اس میں بھی تجارتی راستوں کی بندش اور کشادگی کی وجوہات پیش پیش رہیں۔ مسلمانوں نے آبی جہاز رانی کی طرف توجہ نہ دی اور جب 15ویں اور 16صدی عیسویں میں پرتگیزیوں نے ہندوستان کے ساحلوں پر اپنے جہاز لنگر انداز کئے تو ان کی نظر میں ہندوستان کی عظیم مغل سلطنت نہ تھی کہ اس پر قبضہ کیا جائے بلکہ وہ سامانِ تجارت تھا جو یورپ کو مطلوب تھا۔تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوستان کے ساحلوں پر پُرتگیزیوں، ولندیزیوں، فرانسیسیوں اور برطانویوں نے اپنے بحری بیڑے لنگر انداز کئے تو ان میں جو سامانِ تجارت ہندوستان سے یورپ جاتا رہا اس میں 90فیصد گرم مصالحے تھے اور 10فیصد ایسے خشک پھل تھے جو مغرب (یورپ) میں نہیں ہوتے تھے۔
برس ہا برس تک یہ تجارتی بحری جہاز جن بحری راستوں سے آتے جاتے رہے وہ بحراوقیانوس اور بحرہند کے پانیوں پر سے گزرتے تھے۔
پھر اس دور میں بحری قزاقی (Sea Piracy) نے جنم لیا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے اس لئے بادبانی جہازوں کی بجائے دخانی جہاز ایجاد ہوئے اور سب سے پہلے بحری توپیں، سفید فام اقوام کے تجارتی جہازوں پر نصب کی گئیں جن کا مقصد بحری راستوں میں قزاقی کی روک تھام تھی۔ جن ہندوستانی بندرگاہوں (گوا، دمن، دیو، بمبئی، وزاکاپٹنم، مدراس، کلکتہ وغیرہ) پر یورپی بحری جہاز آکر لنگرانداز ہوتے تھے ان کی بحری توپوں کا جواب تو مغلوں کے پاس موجود تھا۔ بابر جو مغلیہ خاندان کابانی تھا اور جس نے 1526ء میں ابراہیم لودھی کو پانی پت کی پہلی لڑائی میں شکست دی تھی اس کی ایک وجہ بابرکا توپخانہ تھا جو ابراہیم لودھی کے پاس نہ تھا۔ لیکن افسوس اس حقیقت کا ادراک کسی ’عظیم مغل‘ نے نہ کیا جبکہ جنوبی ہندوستان میں تجارتی بحری جہازوں پر آنے جانے والے افرنگیوں نے اسی توپ خانے کی بدولت رفتہ رفتہ میسور، دکن اور دلی کے مسلمانوں کو شکست دی…… کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یورپ اور ایشیا کے درمیان بحری تجارتی راستوں نے ہی عظیم جنگی معرکوں کو جنم دیا……
17ویں اور 18ویں صدیوں میں یورپ کی اقوام نے بارودی اسلحہ جات کی ایجادات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جبکہ ایشیائی اقوام ’بارود‘ کے اس ”فتنے“ سے بے خبر رہیں۔ اسی بارودی فتنے نے 19ویں صدی میں بڑی بڑی جنگوں کا نظارہ کیا۔ 1870ء کی فرانکو۔ جرمن وار میں جرمنی کی فتح اور فرانس کی شکست 19ویں صدی کی ”پہلی عالمی جنگ“ بھی کہی جا سکتی ہے۔ لیکن جب 20ویں صدی کا آغاز ہوا تو ایک تیسری قوت نے گویا آنکھ کھولی…… یہ فضائی قوت تھی……!
17دسمبر 1903ء کو امریکہ کے دو بھائیوں ولبررائٹ اور آرویل رائٹ نے پہلا جہاز کئی ہاک میں اڑایا۔ یہ چند سیکنڈ کی پہلی اڑان تھی جو انسان نے لوہے کی بنی ہوئی ایک مشین میں بیٹھ کر بھری اور اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہ دیکھا…… آج اس فضائی قوت نے انسان کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے اس پر کتابیں نہیں لائبریریاں بھری پڑی ہیں۔
ہوائی جہاز کا عسکری استعمال ایک بڑا اہم موضوع ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پہلی مشین تھی جس نے فضا کی بیکراں وسعتوں کو انسان کے سامنے کھول کر رکھ دیا!…… خیال تھا کہ زمینی راستے اور بحری راستے کے علی الرغم یہ فضائی راستہ شاید مستقبل کی جنگوں کی آماجگاہ نہ بنے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ انسان نے خلا میں پہنچ کر کئی خلائی اسٹیشن قائم کئے اور آج ان کی راہ سے وہ نئی کہکشاؤں کی طرف جانے کے تجربات کر رہا ہے لیکن انہی تجربات نے انسان کو خلائی جنگ و جدل کی طرف بھی دھکیل دیا ہے۔ خلا میں آج نجانے کتنے سیارے مدارِ ارضی کے گرد چکر لگا رہے ہیں اور ان میں کتنے ایسے ہیں جو ہماری روزمرہ زندگی کو بہت سی آسانیاں فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ انسان نے اپنے ہی بھیجے ہوئے سیاروں کو زمین سے ایک میزائل پھینک کر تباہ کرنے کا تجربہ کر لیا ہے۔ یہ تجربہ چند برس پہلے چین نے کیا تھا اور اگر مستقبل میں کوئی تیسری عالمی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ کا روپ دھارنے سے پہلے لامحالہ خلائی جنگ کے مرحلے سے گزرے گی۔ خلا میں انسان نے جو سیارے چھوڑ رکھے ہیں جب ان کو ایک ایک کرکے نشانہ بنایا گیا تو زمین پر نہ جانے کتنے سسٹم ہوں گے جو آناً فاناً بند ہو جائیں گے اور انسان ہاتھ ملتا رہ جائے گا…… ان سیاروں کو نشانہ بنانا نہ صرف چین کے بس میں آ چکا ہے بلکہ دنیا کی دوسرے درجے کی قوتیں (مثلاً انڈیا) بھی اس کے تجربات کرنے کے لئے پرتول رہی ہیں۔
فضائی اور خلائی تجارتی رقابتوں سے پہلے صدیوں تک انسان نے بحری رقابتوں کے شواہد بھی دیکھے۔ دنیا جس ”کھیل“ کو آج گریٹ گیم کے نام سے جانتی ہے اس کا خلاصہ یہی ہے کہ روس ایک عظیم عسکری قوت ہونے کے باوصف بحرالکاہل، بحراوقیانوس اور بحرہند کے گرم پانیوں تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ اس کی صرف ایک بندرگاہ ایسی تھی (اور آج بھی ہے) جو سارا سال کھلی رہتی ہے۔اس کا نام ولاڈی واسکٹ ہے۔کئی عشروں تک روس کی نگاہیں بحرہند کے گرم پانیوں تک پہنچنے پر مرکوز رہیں۔ یہ راستہ صرف افغانستان یا پاکستان کو فتح کرکے حی حاصل کیا جا سکتا تھا۔ انگریزوں نے اپنے دور میں روس کو یہ اجازت نہ دی لیکن جب 1947ء میں وہ برصغیر سے نکل گئے تو روس نے سوچا کہ وہ بحرہند تک جا سکتا ہے۔ چنانچہ 25دسمبر 1979ء کو روسی فوجیں دریائے آمو عبور کرکے افغانستان میں داخل تو ہو گئیں لیکن ان کو معلوم نہ تھا کہ افغانستان اگرچہ برٹش دور میں ایک بفرسٹیٹ تھا لیکن وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بفر ہی رہے گا۔ چنانچہ 1988ء میں 8برس کی لگاتار شکست و ریخت کے بعد سوویٹ فورسز کو نامراد ہو کر واپس ماسکو جانا پڑا…… گرم پانی کے اس راستے پر قبضہ کرنا روسیوں کا ایک خواب ہی رہا۔
اور ہاں اس سے پہلے جب دوسری عالمی جنگ 1939ء میں شروع ہوئی تو جرمنی اور اٹلی ہی اس کے حریف تھے۔ تیسرا محوری ملک جاپان تو 7دسمبر 1941ء میں اس جنگ میں شامل ہوا۔ اور اس وقت ہوا جب اتحادیوں نے اس کا بحری راستہ روکنے کی دھمکی دی!…… بہت کم قارئین کو معلوم ہے کہ جاپان کو اگر اس راستے کی بندش کی دھمکی نہ دی جاتی تو وہ اس جنگ میں شریک نہ ہوتا، نہ ہی امریکہ کو بحرالکاہل کے خطے میں اپنے درجنوں بحری جنگی جہازوں کی غرقابی اور اپنے ہزاروں لاکھوں ٹروپس کی اموات کا سامنا ہوتا اور نہ دنیا اس ’آخری ویپن‘ کے نام سے آشنا ہوتی جس کا نام جوہری بم ہے، جو جاپان پر پھینکا گیا اور اس کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔
کہا جا سکتا ہے کہ جس تجارتی راستے کو روکنے کی ابتداء کفار مکہ کے قافلے کو بدر کے مقام پر روک کر کی گئی تھی اس کی انتہا مستقبل میں شاید کسی خلائی راستے کو روکنے اور بند کرنے پر منتج ہو!!
سطورِ بالا میں کوشش کی گئی ہے کہ قارئین کی خدمت میں وہ مثالیں پیش کی جائیں جو بین الاقوامی تجارتی راستوں کی یکطرفہ بندش کی وجہ سے لڑائیوں اور جنگوں کا باعث بنتی رہی ہیں۔ تینوں بڑے سمندر، بین الاقوامی قوانین کی رو سے دنیا بھر کے ممالک کے لئے کھلے ہیں۔ ان پر کسی ایک ملک کی اجارہ داری نہیں۔ چین نے اگر مشرقی وسطیٰ، افریقہ، یورپ، شمالی امریکہ یا جنوبی امریکہ جانا ہو تو اس کے لئے آسان ترین راستہ بیجنگ سے نکل کر جنوب میں آبنائے ملاکا کو عبورکرکے بحرہند میں جانا اور پھر وہاں سے بحراوقیانوس میں داخل ہونے کا راستہ ہے۔
چین ایک عرصے سے امریکہ اور اس کے یورپی حواریوں کی آنکھوں کا کانٹا ہے۔ ان یورپی حواریوں کے علاوہ اس کا ایک بڑا ایشیائی حواری انڈیا بھی ہے۔ اس لئے کوششیں ہو رہی ہیں کہ اگر مستقبل قریب یا بعید میں چین امریکہ یا چین انڈیا جنگ ہوجائے تو چین کو بحرہند میں آنے سے روکا جائے۔ کوئی چینی بحری جہاز جب چین کی بندرگاہوں (مثلاً شنگھائی وغیرہ) سے نکل کر آبنائے ملاکا میں داخل ہوتا ہے تو اس کے راستے میں وہ جزائر بھی آتے ہیں جن کو برطانوی دور میں ”کالاپانی“ کہا جاتا تھا اور آج انڈیمان اور نکوبار کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔ انڈیا اور امریکہ کی کوشش ہو گی کہ چینی بحری ٹریفک کو آبنائے ملاکا میں داخل ہونے سے پہلے اس کی مانیٹرنگ کی جائے اور معلوم کیا جائے کہ آیا اس پر کوئی ایسا مواد تو نہیں لدا ہوا جو جنگ میں کام آ سکتا ہے۔ اس مواد میں خام تیل، دھاتیں اور سلاحِ جنگ شامل ہو سکتے ہیں …… اس مواد کی مانیٹرنگ (جاسوسی) کیسے کی جاتی ہے، آیئے اس کی تھوڑی سی تفصیل قارئین کے سامنے رکھتے ہیں۔(جاری ہے)