سیاسی منظر نامہ اچانک تبدیل، زرداری نے ہلچل مچا دی!
لاہور سے چودھری خادم حسین
سابق صدر مملکت، پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین، پی پی پی پی کے صدر آصف علی زرداری نے سیاسی ماحول کو گرما دیا اور یکایک لاہور میں ایسی سرگرمیاں شروع ہو گئیں کہ پرانے ادوار یاد آنے لگے۔ آصف علی زرداری اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ گزشتہ ہفتے لاہور آئے اور ابتدا میں انہوں نے یہاں پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ بلاول نے 27فروری کے لانگ مارچ کے حوالے سے مشورہ کیا تو آصف علی زرداری اس عرصہ میں مختلف رابطوں میں مصروف رہے۔ پارٹی کے معاملات بلاول کو دیکھنے دیئے اور خود مستقبل کے جوڑ توڑ کے بارے میں بعض شخصیات سے ملاقاتیں کیں، ایسے میں مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف نے ان کو ظہرانے کی دعوت یاد دلائی اور اتوار کو یہ حضرات ان کی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن گئے۔ دیگر مصاجین کے ساتھ کھانا کھایا گیا، چچا نے بھتیجی کو بھی مدعو کیا اور مریم نواز بھی شریک ہوئیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ مریم نواز، محمد شہباز شریف، حمزہ شہباز، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے قریباً ڈیڑھ گھنٹہ الگ ملاقات کی اور حکومت مخالف تحریک کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ اسی دوران لندن میں رہبر مسلم لیگ محمد نوازشریف سے فون پر بات کی گئی اور انہوں نے کھل کر آصف علی زرداری سے بات کی بلکہ ان کو دعوت دی کہ وہ (زرداری) لندن آئیں تو ان کے ساتھ براہ راست تبادلہ خیال ہو۔ اس دوران پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو فون پر مشاورت سے آگاہ کیا گیا اور انہوں نے بھی آصف علی زرداری سے بات چیت کی۔ اس ساری تگ و دو سے جو تیجہ نکلا وہ یہ تھا کہ حکومت (تحریک انصاف) کی مخالفت پر تو مکمل اتفاق رائے ہے، لیکن طریق کار کے حوالے سے پرانے اختلاف موجود ہیں البتہ یہ طے کیا گیا کہ مشترکہ جدوجہد کے لئے راستے بنائے جائیں گے۔ اس بار یہ بھی ہو اکہ لانگ مارچ یا دھرنے کے علاوہ عدم اعتماد کی تجویز پر بھی پوری طرح غور کرنے کا فیصلہ ہو گیا اور طے کیا گیا کہ مشاورت کو مزید بڑھایا جائے گا، سب جماعتیں اپنے اپنے طور پر تجاویز تیار کریں گی اور پھر تبادلہ خیال کرکے کوئی حتمی فیصلہ ہوگا۔ اس ساری تگ و دو کا نتیجہ یہی تھا کہ قائدین نے مشترکہ کوشش پر اتفاق کر لیا اور اس بار آصف علی زرداری کو زیادہ غور اور توجہ سے سنا گیا۔
مسلم لیگ(ن) کے صدر محمد شہبازشریف نے اگلے ہی روز (پیر) مسلم لیگ (ن) کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ محمد نوازشریف نے ویڈیو لنک سے شرکت کی۔ اعلامیہ تو معمول کے مطابق تھا کہ تمام فیصلوں کا اختیار محمد نواز شریف کو دے دیا گیا، تاہم یہ پہلے ہی طے ہو گیا تھا اور محمد نوازشریف نے رابطوں کی اجازت دے کر مشترکہ جدوجہد کی بھی تائید کر دی۔ اس حوالے سے خود مولانا فضل الرحمن نے محمد نوازشریف اور آصف علی زرداری سے الگ الگ بات کی اور یہ بات قریباً طے پا گئی کہ مشترکہ جدوجہد کے لئے اتفاق رائے سے آگے بڑھا جائے گا۔ اطلاع ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے لانگ مارچ کے حوالے سے بھی بعض نئی تجاویز پر غور کا یقین دلایا اور 11فروری کو پی ڈی ایم کا اجلاس طلب کر لیا کہ نئی تجاویز پر غور کیا جائے۔
آصف علی زرداری اور مولانا کی بات چیت اور پھر محمد نوازشریف سے رابطہ اہمیت کا حامل ہے۔ بتایا گیا کہ فریقین نے آصف علی زرداری کی اہمیت تسلیم کرکے رابطے جاری رکھنے پر مکمل اتفاق کیا، تاہم ابھی تک یہ طے نہیں پایا کہ مشترکہ جدوجہد کے لئے کیا طریق کار حتمی ہوگا، سینیٹ میں تو متحد ہونا آسان ہے، تاہم عدم اعتماد، دھرنا اور لانگ مارچ کے مسئلہ پر مزید تبادلہ خیال لازم ہے کہ پیپلزپارٹی اب بھی ان ہاؤس تبدیلی کے موقف پر قائم اور دھرنے کے حق میں نہیں، بلکہ تاحال 27فروری کے لانگ مارچ (کراچی سے اسلام آباد) پر قائم ہے، اس دوران بلاول رابطہ عوام مہم کے حوالے سے جلسوں سے خطاب کرتے رہیں گے اور آصف علی زرداری پس پردہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
آصف علی زرداری نے پیر کے اندر اچانک چودھری شجاعت حسین کی عیادت کے حوالے سے چودھریوں کی رہائش گاہ جا کر ان کے ساتھ تفصیلی ملاقات کرکے سب کو چونکا دیا، اس ملاقات نے اور تو کوئی تاثر چھوڑا یا نہیں، چودھری برادران مرکزی خیال کے طور پر پھر سامنے آ گئے۔ جو بات باہر بتائی گئی وہ معمول ہے کہ جماعتوں سے مشاورت کے بعد جواب دیا جائے گا تاہم کہا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری نے چودھریوں پر زور دیا کہ وہ اپنی حمائت سے دستبردار ہو جائیں تو حکومت گر سکتی ہے۔ ادھر سے کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا کہ ابھی تک تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا اور مسلم لیگ (ق) مطمئن ہے۔ اس سے صرف ایک روز قبل حکومتی وفد نے چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات کی تھی اور اس میں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں مکمل تعاون کا فیصلہ ہوا اور چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے بلدیاتی قانون میں ترامیم پر صاد بھی کیا گیا۔ اب مجلس قائمہ کا اجلاس بھی بلا لیا گیا ہے۔
حیرت انگیز ملاقات ایم کیو ایم کے وفد کی چودھری برادران اور پھر محمد شہباز شریف سے تھی جو اپنے کئی تحفظات کے ساتھ کراچی سے آکر سپیکر پنجاب اسمبلی اور شہباز شریف سے ملا، عامر خان نے تو یہاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بڑا بول بول دیا کہ ایم کیو ایم عوام کے ساتھ ہے اور عوامی رائے کو اہمیت دیتی ہے اگر رائے عامہ ہی عمران خان کے خلاف ہو جائے تو پھر متحدہ کو بھی عوام کے ساتھ جانا ہوگا، یہ ایک بڑی تبدیلی ہے کہ سندھ میں صوبائی حکومت سے،سیاسی جنگ جاری ہے اور ملکی سطح پر تحفظات کا اظہار کر دیا گیا ہے۔ آئندہ کئی پرت کھلنے والے ہیں۔
تحریک انصاف کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کی ساری توجہ اب بلدیاتی انتخابات کی طرف ہے۔ پنجاب کے لئے ایسی قانون سازی کی جا رہی ہے جو حلیفوں کو قابل قبول ہو اور انتخابی معرکہ بھی ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ ہوگا، ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ قانون سازی کب مکمل ہوگی، تاہم مشاورت جاری ہے۔ البتہ انتخابی تاریخ 15مئی کا اعلان کیا جا چکا ہوا ہے۔
جماعت اسلامی نے اپنا الگ تشخص قائم کر رکھا ہے اور امیر جماعت بہت سرگرم ہیں، تاحال کسی جماعت سے کسی قسم کے رابطے کی اطلاع نہیں، جماعت اسلامی اپنے نشان پر بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے گی۔
نوازشریف، فضل الرحمن سے رابطہ اور چودھری برادران سے چونکا دینے والی ملاقات
ایم کیو ایم بھی تحفظات لے کر چودھریوں کے پاس پہنچ گئی، عامر خان نے عوامی اہمیت جگا دی
تحریک انصاف کی پوری توجہ بلدیاتی انتخابات پر، جماعت اسلامی سولو پرواز ہی کرے گی