وزیراعظم کا حالیہ دورہ چین،سی پیک کے دوسرے مرحلے کے لئے اہم ترین تھا
سہیل چودھری
وزیر اعظم عمران خان کا دورہ چین خطے کی صورتحال اور سی پیک کے دوسرے فیز کو فعال کرنے کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا پاکستان نے ایک ایسے وقت میں چین میں ہونے والی سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں اعلیٰ ترین سطح پر شرکت کا فیصلہ کیا جب مغربی دنیا نے چین کے ساتھ اپنی کش مکش کے نتیجہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بہانہ بنا کر بائیکاٹ کا اعلان کرایا تھا۔ پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ چین کے ساتھ ہر مشکل گھڑی میں کھڑا ہے۔ اگرچہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے وزیر اعظم عمران خان کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی ایک تصویر جاری کی جس پر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے خوب تنقید کی کہ وزیر اعظم عمران خان اکیلے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی اپوزیشن کی جانب سے کہا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان کا ایئرپورٹ پر استقبال بھی قدرے جونیئر سطح کے حکام نے کیا۔ لیکن عام طور پر اس نوعیت کے عالمی سطح کے ایونٹ کے تمام مراحل ایک پہلے سے طے شدہ پروٹوکول کے تحت ہوتے ہیں۔ بالخصوص کووڈ کی حالیہ لہر کے پیش نظر چین نے پروٹوکول میں حفاظتی اقدامات کو سر فہرست رکھا ہوا تھا کیونکہ دنیا بھر سے مہمانان نے شرکت کی اور اگر اس تقریب کے نتیجہ میں کووڈ پھیل جاتا تو مغرب کے رویہ کے تناظر میں چین کی خاصی سبکی ہوتی اور امریکہ و مغربی ممالک کو چین پر تنقید کا مزید موقع مل جاتا۔ اس لئے اس سرمائی اولمپکس کی تقاریب میں شرکت کے لئے عالمی مہمانوں کے لئے خصوصی حفاظتی حصار کووڈ سے بچاؤ کے لئے بنائے گئے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وفد کے تمام افراد بشمول وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین اور وفاقی منصوبہ بندی اسد عمر بھی کووڈ سے بچاؤ کے خصوصی حصار میں رہے بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ چین کے ان حفاظتی اقدامات کے نتائج تا حال مثبت ہی رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان بظاہر تو کھیلوں کی تقریب میں شرکت کے لئے گئے تھے لیکن ان کے ہمراہ وفاقی وزیر خزانہ اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کی موجودگی اس بات کی غماز تھی کہ پاکستان اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا کر سی پیک کے دوسرے مرحلے کو فعال کرنے کے لئے سنجیدہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اس دورہ میں چینی وزیر اعظم اور صدر شی پنگ سے بھی اہم ملاقاتیں کیں جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اپنے ہم منصب سے ملے جبکہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وفد کے ساتھ چینی سرمایہ کاروں اور چین کی سرکاری کمپنیوں کے اعلیٰ ترین عہدیداروں نے بھی ملاقات کی اور وزیر اعظم کو پاکستان میں سرمایہ کاری میں درپیش اپنی مشکلات بیان کیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر وزیر اعظم ہاؤس میں ایک خصوصی سیل بنانے کا اعلان کیا تاکہ چینی سرمایہ کاروں کے مسائل کے حل کے لئے ایک ون ونڈو اپریشن ان کی نگرانی میں ہو سکے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین سے سی پیک کے دوسرے مرحلے کے فعال ہونے اور اس کے پاکستان کے لئے ثمرات سمیٹنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا دورہ چین سی پیک کے حوالے سے ایک اہم بریک تھرو ثابت ہو سکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کو داخلی طور پر سیاسی مسائل کا سامنا ہے۔ در حقیقت داخلی سیاسی استحکام سی پیک کے حوالے سے ایک اہم رکاوٹ رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پر ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے جو دباؤ بڑھ رہا تھا وہ منی بجٹ اور سٹیٹ بنک کی خودمختاری کے بل کی منظوری کے بعد قدرے کم ہو گیا تھا اور ان کے اعتماد میں اضافہ نظر آیا اور اس اعتماد کے ساتھ انہوں نے دورہ چین کیا اور اب وہ آئندہ دورہ روس کی تیاری کر رہے ہیں لگتا ہے کہ وہ داخلی سیاسی صورتحال کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے خارجہ محاذ پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں لیکن لاہور میں سابق صدر آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کی مصروفیات نے وفاقی دارالحکومت میں بھی سیاسی ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ فروری اور مارچ کے مہینے وفاقی دارالحکومت کی سیاست میں غیر معمولی اہمیت کے حامل سمجھے جا رہے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں حکومت کے خلاف ممکنہ عدم اعتماد کی بساط بچھائی جا رہی ہے اب دیکھنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف آتی ہے یا وزیر اعظم عمران خان کے خلاف سابق صدر زرداری اور بلاول بھٹو کی پہلے اپوزیشن رہنما شہباز شریف سے ملاقات اور بعض اہم نکات پر اتفاق رائے کے بعد ان کی چودھری ربادران سے ملاقات نے حکومتی صفوں میں اضطراب برپا کر دیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے حکومتی ترجمانوں سے اس تناظر میں ایک اہم ملاقات کی جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے ایگزیکٹو کمیٹی سے خطاب میں بھی انہوں نے اپوزیشن کے خلاف جوابی حکمت عملی کے خدوخال بیان کئے۔ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تیاریوں کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے ایک بھرپور عوامی رابطہ مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ملک بھر میں جلسے جلوس منعقد کئے جائیں گے اور تمام توجہ بلدیاتی انتخابات پر مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومتی ترجمان تازہ دم ہو کر اب اپوزیشن پر وار کریں گے۔ وفاقی دارالحکومت میں اگرچہ موسم ابھی سرد ہے لیکن آئندہ آنے والے دنوں میں سیاسی میدان خوب گرم ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ملک کے تبدیل شدہ سیاسی منظر نامے میں ایم کیو ایم بھی متحرک ہو گئی ہے۔ حکومت کو تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال میں اب اپنے حلیفوں کے اضافی ناز نخرے اٹھانے ہوں گے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے داخلی اختلافات ختم کرنے اور ناراض پنچھیوں کو اڑنے سے روکنے کا اہم چیلنج درپیش ہے ایم کیو ایم تو ہوا کے رخ پر چلتی ہے اب دیکھنا ہے کہ ہوا کس طرف کی چلتی ہے کیونکہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا بھی یہی کہنا ہے کہ حکومت بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے جس دن بیساکھیاں بٹ جائیں گی حکومت دھڑام سے گر جائے گی جبکہ وفاقی دارالحکومت میں اس سیاسی صورتحال کے تناظر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے بھی بعض حلقے قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔ ایسی قیاس آرائیاں ملکی مفاد میں نہیں ہیں۔
سعودی وزیر داخلہ پاکستان کے اہم دورے پر آئے ان کی صدر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے اہم ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں سعودی عرب کے روڈ ٹو مکہ پراجیکٹ میں مزید دو شہروں کو شامل کرنے اور سعودی عرب کی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کو وطن واپس بھجوانے کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ وفاقی دارالحکومت سے ملحقہ مری کے پہاڑوں پر ہلکی پھلکی برف باری کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے اسلام آباد میں ابھی سردی کی سخت لہر ہے۔ تاہم مری میں انتظامی حالات پہلے سے بہتر ہیں اور انتظامیہ متحرک ہے کورونا کی حالیہ لہر اومی کرون جاری ہے لیکن اس میں زیادہ شدت نہیں آئی کیونکہ دارلحکومت میں ویکسی نیشن کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کو عدالت نے بحال کر دیا ہے لیکن انہیں وہاں تسلیم نہیں کیاجا رہا ہے جس کی وجہ سے معاملات دگرگوں ہو رہے ہیں۔