یوم یکجہتی کشمیر ہر سیاسی جماعت نے الگ سٹیج سے اظہار کیا، مشترکہ اجتماع نہ ہوا!

یوم یکجہتی کشمیر ہر سیاسی جماعت نے الگ سٹیج سے اظہار کیا، مشترکہ اجتماع نہ ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


یوم یکجہتی کشمیر منانے کے لئے مختلف سیاسی پارٹیوں نے علیحدہ علیحدہ احتجاج منعقد کیے، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، پاک سرزمین پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف تمام پارٹیوں کے اجتماعات الگ تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ کشمیر پر ان کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں، تاہم اس ایک متفقہ نقطہ پر بھی اکٹھے بیٹھنے میں قباحت ہے، عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے ضروری تھا کہ ہر شہر میں مشترکہ جلسے اور ریلیاں ہوتیں تو جمعیت اور طاقت کا پیغام بھارتی حکومت تک پہنچ جاتا لیکن ا یسا نہ ہونے میں بڑا قصور وفاقی حکومت کا ہے، وفاق کو چاہیے تھا کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو مشترکہ پروگرام کی دعوت دیتے۔ قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی بھی اس میں اپنا کردار ادا کرسکتی تھی، لیکن اس کمیٹی کی کارکردگی گذشتہ دور کی طرح اب بھی عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں۔ آزاد کشمیر کی حکومت پر بھی فرض تھا کہ وہ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اجتماعی آواز سے اظہار یکجہتی میں اپنا کردار ادا کرتی،لیکن وزیراعظم آزاد کشمیر نے ایسی کوشش کے لئے ہمت نہیں کی جو افسوسناک ہے۔ یوں بھارت کے لئے اس سے زیادہ باعث اطمینان کچھ نہیں کہ پاکستان میں سیاسی تفریق اور بداعتمادی اس قدر ہے کہ مشترکہ نقطہ موجود ہونے کے باوجود پاکستانیوں نے اجتماعی طاقت کا اظہار نہیں کیا۔ سیاسی جماعتوں کو خاص طو پر آئندہ کے لئے سوچنا چاہئے کہ ہم اس دن کو منانے سے جو پیغام دینا چاہتے ہیں اس کا موثر طریقہ ہی اپنایا جائے، اور وہ اتحاد اور اتفاق کے بغیر کچھ نہیں۔ 
کراچی میں سٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔اگرچہ پولیس مقابلوں میں کئی ڈاکوؤں کو مارنے کا دعویٰ سندھ پولیس کررہی ہے، لیکن گنجان آباد علاقوں میں وارداتیں کم ہونے میں نہیں آرہیں۔سپریم کورٹ نے اپنا مزاج برقرار رکھا ہے اور کورنگی میں واقع شادی ہالز کو مسمار کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ کورنگی کے علاقے میں متعدد شادی ہالز بنائے گئے ہیں جن کو غیرقانونی تعمیرات قرار دیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم کے 26جنوری کے احتجاج پر وزیراعلیٰ سندھ کی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ پر ایس ایس پی کو معطل کیا گیا ہے اور وزیراطلاعات سندھ نے کہا ہے کہ مظاہرین ریڈ زون میں داخل ہورہے تھے جبکہ پی ایس ایل کے سلسلے میں فائیو اسٹار ہوٹل میں غیرملکی کھلاڑی موجود تھے، اس لئے صورت حال سنگین ہوسکتی تھی، حالانکہ ایم کیو ایم کے کارکنوں نے کسی ہوٹل کو نشانہ نہیں بنایا۔ 
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 27 فروری سے اسلام آباد مارچ کے لئے کارکنوں کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ سندھ حکومت کے وزراء پرجوش بیانات دے رہے ہیں۔ ایسا تاثر ابھر رہا ہے کہ ایک صوبائی حکومت، وفاقی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے جا رہی ہے۔ اور صوبائی حکومت اپنے کارکنوں کی مدد سے وفاقی حکومت کو گرائے گی۔ وزیراعظم عمران خان کوو زرات عظمی سے ہٹانے کے لیے لانگ مارچ کیا جائے گا۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ عمران خان قومی اسمبلی سے طاقت حاصل کرتے ہیں تو ان کو وہیں پر شکست دیں گے، لیکن بلاول بھٹو زرداری اس بات کا اعتراف بھی کرلیتے تو اچھا تھا کہ وفاقی حکومت کو ایوان بالا میں شکست دینے کا موقع انہوں نے خود کیوں گنوایا اور قومی اسمبلی میں بھی وہ اسٹیٹ بینک بل پاس ہونے کے وقت موجود نہ تھے اور اب آئی ایم ایف نے مزید کڑی شرائط کا عندیہ دے دیا ہے۔ بجلی مزید مہنگی ہوگی اور دیگر سبسڈیز بھی ختم کی جائیں گی۔ آئی ایم ایف کا راستہ روکنے کا موقع اپوزیشن نے خود گنوادیا ہے۔ اب اگر پیپلز پارٹی احتجاج کے لئے اسلام آباد کا رخ کررہی ہے تو گویا ایک بڑا خطرہ صدارتی نظام دکھائی دے رہا ہے، جس کے متعلق ابھی کوئی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن پیپلز پارٹی کو غالباً اس کی سن گن ہے، صدارتی نظام کی حمایت بھی بڑھتی جارہی ہے اور اٹھارویں ترمیم کی مخالفت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری زیادہ متحرک اور فعال دکھائی دے رہے ہیں، اسی پر حمایت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے مسلم لیگ ن سے دوبارہ ہاتھ ملانے کا اعلان کیا ہے۔ 
ایم کیو ایم کے تمام دھڑے اپنی کرچیاں سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ ان کو امید ہے کہ ہم دوبارہ مل کر ایک طاقت بناسکتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس موقع پر بانی ایم کیو ایم کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں۔ ان کی صحت ایسی دکھائی نہیں دے رہی کہ وہ کوئی سیاسی کردار کے لئے تیار ہوسکیں گے، لیکن ایک علامت کے طور پر موجودگی بھی اہمیت کی حامل ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار، ڈاکٹر عشرت العباد، خالد مقبول صدیقی،عامر خان، آفاق احمد، مصطفی کمال میں سے قیادت کے لئے کون موزوں ہوگا یا پھر ان سب کو مل کر کسی اور پراعتماد کرنا پڑے گا۔ اگرچہ یہ رستہ دشوار، مشکل اور ناممکن بھی دکھائی دیتا ہے، لیکن سیاست کے میدان میں کچھ بھی ممکن ہے۔ کسی ایسی شخصیت پر بھی اتفاق ہوسکتا ہے جو ماضی میں غیرجانبدار رہی ہو یا سب کے لئے قابل قبول ہو۔ دیکھتے ہیں تمام رہنمائے ایم کیو ایم کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ 


بلاول بھٹو27 فروری کے مارچ پر سرگرم،کارکنوں کو تیاری کی ہدایات!
ایم کیو ایم کو متحد کرنے کی کوششیں، سربراہ کون ہو گا؟ مشکل فیصلہ، کیا یہ ممکن ہو گا؟

مزید :

ایڈیشن 1 -