سیاسی طوفان کے آثار

سیاسی طوفان کے آثار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سیاسی میدان میں ایک واضح تلاطم نظر آ رہا ہے۔اپوزیشن متحرک ہو چکی ہے تو دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے بھی رابطہ عوام مہم شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔سیاسی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے،سب سے پہلے آصف علی زرداری کی شہبازشریف سے ملاقات نے ہلچل مچائی، پھر آصف علی زرداری چودھری برادران سے ملنے گئے،اُدھر ایم کیو ایم پاکستان نے شہباز شریف سے ملاقات کی،جس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ تہہ آب کچھ ہونے کا اُبال موجود ہے۔ اپوزیشن کی تو گزشتہ ساڑھے تین برسوں سے یہی حکمت عملی رہی ہے کہ حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دینا۔ اس دوران دھرنے بھی ہوئے،جلسے جلوس بھی منعقد کئے گئے اور اسمبلی کے اندر طرح طرح کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے،لیکن عمران خان کی حکومت بظاہر اس سب سے بے نیاز نظر آنے کی کوشش کرتی رہی، اب لگتا ہے وہ اپوزیشن کے دباؤ کو محسوس کرنے لگی ہے۔یہ اسی دباؤ کا نتیجہ ہو سکتا ہے کہ خود تحریک انصاف نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیراعظم عمران خان کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ عوام میں جائیں گے اور انہیں بتائیں گے حکومت کی کارکردگی کیا رہی ہے اور اپوزیشن کیوں اُن کے خلاف ”سازشیں“ کر رہی ہے۔اپوزیشن کا تو کام ہی یہ ہے کہ وہ حکومت کے خلاف نبرد آزما رہے۔حکومت کے پاس تمام ادارے ہوتے ہیں،وسائل اور عوام کے مسائل کا حل ہوتا ہے،اس لیے اُسے اس طرح میدان میں آنے کی ضرورت نہیں ہوتی، پھر یہ بھی ہے کہ جب ملک کا وزیراعظم جلسے منعقد کر کے اپوزیشن پرالزامات لگاتا ہے تو جواب میں اسے بہت کچھ سننا بھی پڑتا ہے،اس لیے کہتے ہیں حکومت کو صرف حکومت کرنی چاہیے اور اپوزیشن کا کام اُس پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس وقت پیپلزپارٹی ایک بار پھر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے قریب آ رہی ہے۔یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن میں اتفاقِ رائے پیدا ہونے والا ہے۔حکومتی اتحادیوں مسلم لیگ(ق) اور ایم کیو ایم سے رابطوں کا مقصد بھی یہی ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کا اشارہ ہے کہ اپوزیشن حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے پہلے سے زیادہ سرگرم ہو چکی ہے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ(ق) سے رابطوں کا مقصد پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کی راہ ہموار کرنا ہے، آصف علی  زرداری کا متحرک ہونا بے وجہ نہیں،اس کے پیچھے ضرور کوئی سیاسی منصوبہ بندی موجود ہو گی۔اب حکومت کو چاہئے تو یہ کہ اپنے اتحادیوں سے تعلقات کو مضبوط رکھے، انہیں دور نہ جانے دے، اسی طرح اپنی جماعت کے ارکانِ اسمبلی کو بھی کسی بے وفائی سے بچائے، مگر اس کے بجائے وزیراعظم کو  یہ مشورہ دیا گیا ہے وہ عوام کے ساتھ براہِ ر است رابطے کے لیے باہر نکلیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے وہ پیپلزپارٹی کے 27فروری کو ہونے والے لانگ مارچ سے پہلے بڑے بڑے جلسے کریں تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ عوام آج بھی تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔بادی النظر میں یہ ایک اچھی حکمت عملی دکھائی دیتی ہے، لیکن اس کے ملک کی مجموعی صورتِ حال پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اسے پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ابھی انتخابات  ہونے میں آئینی مدت کے حساب سے ڈیڑھ سال پڑا ہے۔ اگر اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی عوامی جلسے اور جلوس کی راہ پر چل نکلتی ہیں تو گویا ملک میں ایک انتخابی مہم جیسا ماحول پیدا ہو جائے گا۔سب جانتے ہیں کہ ایسی مہمات سے تلخیاں بڑھتی ہیں، صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی نہیں،بلکہ سیاسی کارکن حتیٰ کہ عوام بھی تقسیم ہو کر رہ جاتے ہیں، ملک ایسے خلفشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ہمیں بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے۔دہشت گردی سر ابھار رہی ہے، معیشت کو توانا نہیں کہا جا سکتا  ہے،ایسے میں سیاسی مناقشات کا حد درجہ بڑھ جانا مناسب دکھائی نہیں دیتا۔ اپوزیشن کی طرف سے تو صاف کہا جا رہا ہے کہ وہ اب اس حکومت کو مزید وقت دینے کے لیے تیار نہیں،وہ لانگ مارچ کے ذریعے یا پھر عدم اعتماد کی تحریک لا کر اسے گھر بھیجنا چاہتی ہے،لیکن حکومت کا معاملہ مختلف ہے،توقع یہ رکھی جاتی ہے کہ وہ مقابلہ اپنی کارکردگی سے کرے،عوام کو ریلیف دے اور اُن الزامات کو غلط ثابت کرے جن کی بنیاد پر اپوزیشن حکومت کے خلاف عوام کو ابھا رہی ہے،لیکن غالباً اس حوالے سے حکومت کا ”خزانہ“ زیادہ بھرا  ہوا نہیں،اس لئے وہ اپنے اُسی پرانے بیانیے کو لے کر جس میں چوروں، لٹیروں کو نہ چھوڑنے اور کسی کو این آر او نہ دینے کی شقیں شامل ہیں،خود بھی عوام کے پاس جانا چاہتی ہے۔ اگر وزیراعظم اسی کام میں الجھ جائیں گے تو ملکی امور کون چلائے گا۔ حکمرانوں کے جلسے جتنے بھی بڑے ہوں،اُن کا اثر زیادہ نہیں ہوتا۔الزامات یہی لگتے ہیں کہ سرکاری وسائل کے استعمال سے جلسے منعقد کئے جا رہے ہیں،پھر یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ جب حکومت بھی سڑکوں پر آ جاتی ہے تو اپوزیشن کی تحریک میں خواہ مخواہ جان پڑ جاتی ہے اور ملک میں انتخابی مہم جیسا ماحول بن جاتا ہے،جس سے بے یقینی اور بے چینی کی فضا میں اضافہ ہوتا ہے۔بہتر تو یہی ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان  عوام کے پاس جانے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں تو پھر طویل عرصہ قوم کو انتخابی بخار جیسی صورتِ حال میں مبتلا رکھنے کی بجائے حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کر نئے انتخابات کا روڈ میپ طے کر لینا چاہیے۔ہماری جمہوریت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں مکالمہ ناپید ہو ہو جاتا ہے۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک ایسے ڈیڈ لاک کی فضا طاری ہے،جو ختم ہونے کو نہیں آ رہی۔ وزیراعظم عمران خان نے خود ہی ہر قسم کے مذاکرات کو شجرِ ممنوعہ قرار دے کر دروازے بند کر رکھے ہیں، انہیں عوام کے پاس جانے کی بجائے اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھنا چاہیے۔اگر قبل از وقت انتخابات کی کوئی صورت پیدا ہوتی ہے تو اس پر غور ہونا چاہیے۔اگر یہ ممکن نہیں تو پھر بھی وزیراعظم کی طرف سے اپوزیشین کے لیے زیتون کی شاخ ایک خوشگوار تاثر چھوڑے گی اور ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔حکومت اور اپوزیشن کا عوام میں جانا نچلی سطح تک سیاسی بے چینی کو بڑھا سکتا ہے۔دونوں طرف سے سیاسی کارکنوں میں ان جلسوں اور ریلیوں کی وجہ سے جو اضطراب پیدا ہو گا۔وہ کئی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔بہتر یہی ہے حالات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف نہ لے جایا جائے۔

مزید :

رائے -اداریہ -